نومبر 05 :  کو معروف شاعر فضل احمد کریم فضلی کا یومِ پیدائش ہے

Bhatkallys

Published in - Other

12:38PM Sat 4 Nov, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ---------------------------------------------------------- اصل نام سید فضل احمد کریم نقوی اور تخلص فضلی تھا۔ 5 نومبر 1906 ء کو اعظم گڑھ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن الہ آباد تھا۔ خاندان کے سارے افراد علم دوست اور شعرو سخن کا ذوق رکھتے تھے۔ ان کے والد سید فضل رب فضل اپنے عہد کے خوشگوارشعرأ میں شمارکیے جاتے تھے۔ اس طرح فضلی صاحب کو شعر و سخن کا ذوق ورثہ میں ملا۔ فضلی صاحب کم عمری ہی میں غالب، ذوق، اکبراور اقبال سے متعارف ہو چکے تھے۔ پھر والد محترم کی وجہ سے بہت سے شعرأ حضرات بھی ان کے گھر آتے تھے جن میں صفی لکھنوی، ظریف لکھنوی، اثر لکھنوی اور جگر مراد آبادی بھی شامل تھے۔ اس سے سارے ماحول اور پس منظر کا نتیجہ یہ ہوا کہ فضلی صاحب نے بارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا۔ شروع میں اصلاح کے لیے وہ اپنے شعر والد کودکھایا کرتے تھے۔ لیکن ان کے والد نے فضلی صاحب کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ وہ انہیں یہ ہدایت فرماتے تھے کہ پہلے تعلیم مکمل کرلو پھر شاعری کرنا لیکن وہ خفیہ طور پر شعر کہتے اور دوستوں کی فرمائش پر نجی محفلوں میں پڑھتے تھے۔ فضل احمد کریم نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی۔ پانچ سال کی عمر میں ’’رسم بسم اﷲ‘‘ ہوئی اور پھر قرآن پاک کی تعلیم شروع ہوئی۔ ڈیڑھ سال میں انہوں نے قرآن پاک ختم کر لیا۔ 1926 ء میں انہوں نے ایوننگ کر سچین کالج الہ آباد سے انٹر اور پھر الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ 1930 ء میں کلکٹری اور آئی سی ایس کے امتحانات دئیے۔ آئی سی ایس کے امتحان میں وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ اس کے بعد تربیت کے لیے آکسفورڈ یو نیورسٹی بھیج دئیے گئے۔ وہاں انہوں نے اپنے تحقیقی مقالے The Orignal Development of Persain Ghazal پر ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ لندن سے واپسی پر بنگال میں ان کی تعیناتی ہوئی جہاں سے انہوں نے بنگالی زبان بھی سیکھ لی۔ وہ سیکر یٹر ی محکمہ تعلیمات مشرقی پاکستان رہے اور کچھ عرصے فضل احمد صاحب وزارت امور کشمیر کے سیکر ٹری بھی ہوئے۔ فضلی صاحب کراچی میں الہ آباد یو نیو رسٹی اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کے صدربھی رہ چکے تھے۔ اولڈ بوائز کے جلسوں میں تشریف لاتے تو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے تھے۔ ان کی شخصیت کا ایک پہلویہ تھا کہ وہ آئی سی ایس ہوتے ہوئے بھی عجز و انکسار کے مجسمہ تھے۔ فضلی صاحب یوں تو بلند پایہ غزل گو شاعر تھے مگر ان کی اور بھی مختلف حیثیتیں تھیں۔ وہ افسانہ نگار، فلمساز، اعلیٰ سول آفیسر اور ایک منکسر المزاج انسان تھے۔ فضل احمد کریم فضلی صاحب نے اپنا پہلا ناول’’خونِ جگر ہونے تک‘‘ لکھ کر علمی و ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا اور ساتھ ساتھ ذہنوں کو جھنجلا کے رکھ دیا تھا۔ یہ ان کا ضخیم ناول تھا۔ ان کی متعدد تصانیف ہیں جن میں ’’پاکستانی ثقافت و وطنیت کے چند پہلو‘‘، شاعری کے مجموعے ’’چشم غزال‘‘، ’’نغمہ زندگی‘‘ (جو تقسیم سے پہلے 1941 ء کو شائع ہو گیا تھا) شامل ہیں۔ پاکستان میں ملازمت کے بعد وہ فلم سازی کی طرف آگئے اور کچھ فلمیں بھی بنائیں جن میں ’’چراغ جلتا رہا‘‘, ’’ایسا بھی ہوتا ہے‘‘، وغیرہ شامل ہیں۔ ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کو بہت شہرت ہوئی تھی۔ اس فلم نے پاک فلم انڈسٹری کو کئی کامیاب فن کار دئیے۔ 17 ،دسمبر 1981ء کو ’’چشم غزال‘‘ کا شاعر ’’نغمہ زندگی‘‘ سناتے سناتے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ انہیں پی ای سی ایچ کراچی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی تصانیف میں ایسا بھی ہوتا ہے، خون جگر ہو نے تک(ناول)،چراغ جلتا رہا، سحرہو نے تک(ناول)،نغمہ زندگی، (مجموعہ کلام)، وقت کی پکار قابل ذکر ہیں۔ فضلی صاحب کے کلام کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔ غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں نہ ہو یہ کھیل تو پھرلطف زندگی بھی نہیں نہیں کہ دل تمنا میرے کوئی بھی نہیں مگر ہے بات کچھ ایسی کہ گفتنی بھی نہیں وہ کہہ رہے ہیں مجھے قتل کرکے اے فضلی کہ ہم نہیں جو ترے قدر داں کوئی بھی نہیں حسن ہر شے میں ہے گر حسن نگاہوں میں ہو دل جواں ہوتو ہر اک شکل بھلی لگتی ہے ادائیں ان کی سناتی ہیں مجھ کو میری غزل غزل بھی وہ کہ جو میں نے ابھی کہی بھی نہیں