آخری مسافر ۔ ڈاکٹر علی ملپا صاحب علیہ الرحمۃ ۔ قسط 04۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری


پچاس کی دہائی میں ایک اعلی دینی تعلیمی ادارے کے قیام کے خواب کو ۱۰!شوال ۱۳۸۱ھ ۔ ۱۷!مارچ ۱۹۶۲ء ابو محل بھٹکل میں منعقدہ اجلاس میں تعبیر ملی ،یہاں ڈاکٹر علی ملپا اور ان کے بھٹکل کے رفقاء نے اس کے قیام کا فیصلہ کیا ، اور قوم کی تائید اور تعاون حاصل کرنے کے لئے بمئی روانہ ہوئے ،تین روز کا سفر طے کرکے وہاں پہنچے اور تین چار روز کے اندر ہی دسویں روز ۱۹!شوال ۱۹۸۱ھ۔ ۲۶!مارچ ۱۹۶۲ء بمبئی مسلم جماعت کا اجلاس جناب محی الدین منیری صاحب کی صدارت میں اجلاس ہوا ،اس اجلاس میں منیری صاحب کو جامعہ کے آغاز کی تیاریوں کے لئے کنوینر مقرر کیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ ایک سال کے عرصے میں جامعہ کا آغاز کیا جائے ،لیکن توفیق الہی اور رفقاء کے جذبے اور تعاون اور کنوینر کی انتھک محنت اور صلاحیت سے مقررہ نصف مدت گزرنے سے پہلے مورخہ : ۱۸!ربیع الاول۱۳۸۲ھ۔ ۲۰!اگسٹ ۱۹۶۲ء جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا بسم اللہ خوانی سے آغاز ہوا۔
ڈاکٹر ملپا صاحب ابتدا سے جامعہ کے انتظامی طور پر ذمہ دار قرار پائے ، مولانا عبد الحمید ندوی معتمد رہے ، لیکن مولانا کی حیثیت بڑی ارفع و اعلی تھی ، ان کی شخصیت بڑی رعب دار تھی ، جامعہ کے ذمہ داران عموما ان کے شاگرد تھے ، لہذا بھٹکل میں آپ کی بات یہاں کے ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے سنی جاتی تھی ، لہذا ابتدائی پانچ سال مولانا کے بھٹکل میں قیام تک آپسی احترام اور تعاون سے جامعہ تیز رفتاری سے راہ ترقی پر گامزن رہا ، اور مولانا کی رہنمائی میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کو وہ دشواریاں پیش نہیں آئیں جو اس قسم کے اداروں کے آغاز میں ہوا کرتی ہیں ، لیکن مولانا کی جامعہ سے علحدگی کے بعد ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقاء نے جامعہ کی بقاء اور اس کی ترقی کے لئے بڑی جانفشانی کا ثبوت دیا ،آپ کی اس قربانی کی قوم اور فرزندان جامعہ تا قیامت مرہون منت رہے گے ۔ ڈاکٹر صاحب کی نظامت کا دور تقریبا دس سالوں پر محیط ہے ،اس تعلق سے مجلہ یادگار جامعہ کی یہ عبارت اس کی یوں عکاسی کرتی ہے ۔
۔۔۔۔﴿سابق سکریٹری جناب ڈاکٹر علی ملپا صاحب ابتدا سے جامعہ کی نظامت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ جبکہ کوئی دفتر نہ تھا اور نہ محرر، دس سال تک نظامت کی ذمہ داری نشیب و فراز کے سنبھالا ، اور مورخہ ۲۵ !نومبر ۱۹۷۲ء مطابق : ۱۹!شوال المکرم ۱۳۹۳ھ منعقدہ مجلس شوری میںحساب و کتاب پیش کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے﴾ ۔
اداروں کے ذمہ داران کی کارکردگی کا معیار صرف کثرت اور وسعت نہیںہوا کرتے ۔اگر اخلاص ، دل سوزی ، اپنی صلاحیتوں کے بھر پور استعمال ، رفقاء کے تعاون کو کارگردگی میں اصل مانا جائے تو اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب ان اوصاف کی انتہاؤں کو پہنچتے تھے ، ان اوصاف حمیدہ کا وہ ایک بہترین نمونہ تھے ، اس دور نظامت کے آخری پانچ سال آپ پر بہت بھاری گزرے ، ان اوصاف اور بزرگوں کی دعاؤں سے وہ جامعہ کی نیا پار لگانے میں کامیا ب ہوگئے ، جن لوگوں نے اس دور کو دیکھا ہے ، وہ کبھی بھی ڈاکٹر صاحب کی قربانیوں کو بھول نہیں پائیں گے ۔
حضرت حکیم الامت تھانوی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ کبیر حضرت شاہ وصی اللہ فتحپوری علیہ الرحمہ کو دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ ان کے یہاں بڑی رواداری ہوا تھی ، مختلف افکار کے لوگ جو مسلک دیوبند سے اختلاف رکھتے یا طریقت سے مانوس نہ تھے وہ بھی آپ کی مجلسوں میں حجاب محسوس نہیں کرتے تھے ، شاید اس کا بھی اثر تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے دور نظامت میں جامعہ رواداری اور وحدت کا مظہر بن گیا ، اسی رواداری تھی کہ ۱۹۶۴ء کے اجلاس اول میں جماعت اسلامی کے ایک امیر حلقہ مولانا عبد الرزاق لطیفی مرحوم مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے ، ایک دوسرے موقعہ پر تبلیغی مرکز دہلی سے علحدہ ہونے والے مولانا رحمت اللہ دہلوی مرحوم کی جامعہ کے طلبہ و اساتذہ کے سامنے تقریر ہوئی ، مکتب جامعہ کی ابتدائی چھٹی جماعت تک درسگاہ اسلامی رامپور کا مکمل نصاب رکھا گیا، اور مولانا شہباز اصلاحی علیہ الرحمۃ مہتمم جامعہ بنے جن کے بارے میں جماعت اسلامی کی ایک قدیم ذمہ دار شخصیت نے فرمایا تھا کہ آپ مولانا ابو اللیث اصلاحی علیہ الرحمۃ کے بعد جماعت کی امارت کے بجا حقدار تھے ۔ جماعتی اختلافات کے دور میں اب مولانا قاضی محمد اسماعیل اکرمی مرحوم کے پاس اعلی درجات کے طلبہ کو فقہ پڑ ھنے بھیجدیا گیا تو اس میں کونسے تعجب کی بات ہوئی ؟ البتہ جامعہ کے آغاز ہی میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے اور فکری رواداری کی جو بنیاد رکھی گئی تھی نصف صدی گزرنے کے بعد بھی یہ ادارہ اپنے اسی روئے پر رواں دواں ہے تو اس پر ڈاکٹر صاحب کے لئے بھی ضرور دعائیں نکلیں گی۔
ڈاکٹر صاحب بزرگوں سے نیازمندی کا نمونہ تھے ، تا دم آخر بزرگان دین سے ان کا ربط و تعلق قائم رہا ، وہ بذات خواد اس مقام پر پہنچ گئے تھے کہ ان سے دعا کی درخواست کرنا ہرخاص و عام اپنے لئے شرف کی بات سمجھے ، لیکن وہ اپنی ذات کو ہمیشہ دوسروں کے سامنے چھوٹا ہی سمجھتے رہے ، جامعہ کا قیام ہو یا دوسرے مشکل مرحلے ہوں اکابرین سے مشورے اور دعائیںلیتے رہے ۔ شاید ان دعاؤں اور توجہات ہی کا اثر تھا کہ جامعہ اور بھٹکل بہت سے ان مشکل حالات سے جانبر ہوتا رہا ، جس کی امید دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی ۔
آپ کے دور نظامت اور نیابت میں علماء و اکابر جب بھی جامعہ تشریف لائے تب ان اکابر کی مجالس عوامی تقاریر تک محدود نہیں ہوا کرتی تھی ، بلکہ ان اکابر کا اساتذہ و طلبہ سے میل جول ہوتا تھا ، بے تکلفانہ انداز سے انہیں بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقعہ ملتا تھا، بحیثیت طالب علم و مدرس ۱۹۷۹ء تک ایسی بابرکت مجالس پانے کا اس ناچیز کو بھی موقعہ ملا ، ۱۹۶۹ء میں جامعہ کے سابق سرپرست اعلی مولانا سید ابرارالحق علیہ الرحمہ پہلی مرتبہ بھٹکل تشریف لائے تھے ، ایک عشرے تک وہ یہاں ہر سال مستقل طور پر آتے رہے ، یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ اس قسم کی صحبتیں ہمیشہ نصیب ہوتی رہیں ، اور یہ ہماری بد قسمتی تھی کہ فیض پانے میں مسلسل کوتا ہی ہوتی رہی ، ورنہ کنواں تو پاس ہی تھا، سرپرست جامعہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ اور حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ وغیر ہ ان دنوں جب بھی تشریف لائے اساتذہ و طلبہ کو ان اکابر سے استفادے کے بھر پور مواقع نصیب ہوتے رہے ۔
۱۹۷۲ء میںآپ کے بعد جناب ڈی اے اسماعیل صاحب ناظم جامعہ منتخب ہوئے ، آپ پیروں سے معذور ہونے کے سبب گاڑی پر ہی کہیں آجا سکتے تھے ، اس عرصے میں آپ نے بحیثیت نائب ناظم دست راست کی حیثیت سے خدمت انجام دی ، پھر ۱۹۸۱ء میں
علالت اور معذوری کے سبب اسماعیل صاحب کو ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ناظم اعلی منتخب کیا گیا ، اور ناظم کی جگہ پر جناب الحاج محی الدین منیری صاحب منتخب ہوئے ، اس دوران ڈاکٹر صاحب نائب ناظم ہی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ، یہاں تک کہ ایک مختصر عرصہ عہدوں سے فارغ رہ کر صدر جامعہ منتخب ہوئے ۔ آخری دنوں میں ہم نے آپ کو جناب محی الدین منیری مرحوم کو بہت یاد کرتے ہوئے پایا ، جب بھی جانا ہوتا تو کہتے کہ منیری کام کرنے والا شخص تھا ، انہوں نے قوم کا بہت کام کیا ۔
ڈاکٹر صاحب کو ہمیشہ اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہمارا معاشرہ سرمایہ پرست ہوگیا ہے ، یہاں سرمایہ داروں کے کاموں کی عزت ہوتی ہے ،اور غیر سرمایہ دار قوم کے لئے جان بھی نچھاور کردے تو اس کے کام کی عزت نہیں ہوتی آخری عمرے سے واپسی پر ہم نے وطن جاکر خدمت انجام دینے کی خواہش کا اظہار کیا ، تو آپ کا سوال تھا کہ کتنا پیسہ جمع کیا ہے ، اور فرمایا کہ اگر تمھارے پاس پیسے نہ ہوں تو پھر ملازمت چھوڑ کر وطن آنے کا نہ سوچو۔ غالبا انہیں اس سلسلے میں کہیں سخٹ چوٹ پہنچی تھی ۔
ڈاکٹر صاحب کو جب ہم نے دیکھا اس وقت ان پر ذمہ داریاں بہت تھیں ، بھر ا پر ا گھر تھا، آل و اولاد کی تعد ا دبھی ماشاء اللہ تھی ، ڈاکٹر صاحب نے جیسے زاہدانہ زندگی گزاری اس میں کشادگی کو کہاں جگہ ملتی ، لیکن ہم نے دیکھا کہ ان کا سالانہ شمالی ہند کے بزرگوں سے ملاقات اور فیض یابی کے لئے سفر ہوتا ، تو اکابر کے لئے ان کے مزاج اور طبیعت کے مطابق بڑی کشادہ دستی سے ہدایا و تحائف لے جانے کا بڑا اہتمام کرتے ،یہ اکابرین بھی آپ کے ہدایا کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور انہیں اپنے استعمال میں لاتے تھے ۔ ان انہیں دعاؤں کی سوغات کے ساتھ روانہ کرتے ۔بزرگوں سے تعلقات کا یہ بھی ایک انداز تھا۔ اس طرح راہ طلب میں سیکھنے والوں کے لئے ایک انمول نمونہ چھوڑ گئے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے اس فانی دنیا میں ایک صدی مکمل کی ، آنے والوں کے لئے زندگی کا ایک بہترین نمونہ چھوڑ گئے ہیں ، اس میں آنے والوں کے لئے کامیابی بھی ہے اور کامرانی بھی ، وہ ایک طویل بامقصد زندگی گزار کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے ، اب ذہنوں میں ان کے جسد خاکی کا دھندلا سا نقش رہ گیا ہے ، چند دنوں بعد دیکھنے والوں کی نگاہوں سے یہ بھی مٹ جائے گا، لیکن آپ نے اس فانی دنیا میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں ان کے نقوش تا دیر تابندہ رہیں گے ، قیامت تک، ابد الآباد تک ان شاء اللہ ، اللہ آپ کے درجات کو بلند کرے ، اور ان کے اعمال صالحہ کو قبول کرے ۔ آمین ۔
۱۹!۰۱!۲۰۱۸ء