ستمبر 04:-: عہد حاضر کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی صاحب کا یومِ پیدائش ہے

از: ابوالحسن علی بھٹکلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشتاق احمد یوسفی ایک رجحان ساز اور صاحب اسلوب مزاح نگار ہیں، یوسفی صاحب اردو کے مزاحیہ ادب کا ایک ایسا نام ہیں جنھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ کے بارے میں اگر میں (ناچیز) یہ کہوں کہ آپ مزاح کی امتیازی اور جداگانہ روایت کے موجد بھی ہیں اور آخری رکن بھی۔ انھوں نے بلاشبہ اردو ادب کو مزاح کے میدان میں بے پایاں عزت دی۔ اردو مزاح کا کوئی بھی دور ان کے بغیر ناممکن ہے، یوسفی صاحب اردو زبان وادب کے صف اول کے ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یوسفی صاحب کا آبائی وطن جے پور جسے ’’پنک سٹی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ضلع ٹونک، راجستھان، بھارت ہے وہ وہاں کے مقامی مسلمان تھے۔ ان کے باپ دادا جے پور میں نسلوں اور پشتوں سے آباد تھے، یہ علاقہ حرف عام میں راجپوتانہ بھی کہلاتا ہے۔ یوسفی صاحب کا حلقہ احباب بے حد وسیع ہے اور یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انسان محض اپنی ذات میں محدود ہوکر زندگی کا حسن کشید نہیں کرسکتا اسی لیے دوستی کی اہمیت اور افادیت زندگی کے کسی مرحلے پر بھی رد نہیں کی جاسکتی اور ایسے شخص کے مفلس ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ جس کا کوئی دوست نہ ہو، یوسفی صاحب آپ ہرگز بھی مفلس نہیں ہیں ازراہ مذاق، وہ انگریزی ادب میں زیادہ پسندیدہ لکھنے والے مارک ٹوین (Mark Twain) ہیں اسٹیفن لیکاک (Stephen Leacock) کے بھی متاثر ہیں اور اردو ادب میں غالب کے اثرات ان کے فکر و فن پر زیادہ غالب ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اردو کے تقریباً تمام مستند اسالیب کی جھلک ان کے یہاں دکھائی بھی دیتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ یوسفی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ’’مشتاق احمد‘‘ کے قلمی نام سے کیا۔ شاید یوسفی کا قلمی نام یوں رکھ لیا ہو کہ ان کے ادبی کاموں میں جو برجستہ حسن ہے وہ حضرت یوسف کی خوبصورتی سے لیا گیا ہو، وہ فرماتے ہیں، بینکنگ کی وجہ سے مجھے ادب میں تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی لیکن ادب کی وجہ سے مجھے Banking میں بہت تکلیف ہوئی، معاملہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا تھا۔ مشتاق احمد یوسفی کا پہلا باقاعدہ مطبوعہ مضمون ’’صنف لاغر‘‘ ہے جو طباعت کے لیے سب سے پہلے معروف ادبی جریدے ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیر میرزا ادیب نے شایع کیا، ان کی باقاعدہ ادبی زندگی کی ابتدا 1955 کے زمانے میں ہوئی۔ یہ حیران کن بات ہے کہ یوسفی صاحب نے کبھی فکاہیہ کالم نہیں لکھے آج کل تو وہ لوگ بھی فکاہیہ کالم لکھ رہے ہیں یا ایسے لوگ بھی مزاح نگاری اور مزاحیہ شاعری کر رہے ہیں جن کو مزاح کی ا،ب،پ،ت بھی نہیں پتا۔ جب کہ یوسفی صاحب کو پوری حروف تہجی ازبر یاد ہے۔ یوسفی صاحب کی 5 فروری 1941 کو مشتاق احمد یوسفی کے نام سے ان کی کتاب ’’پہلا پتھر‘‘ اپنے بارہ مضامین پر مشتمل پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘ شایع ہوئی اور اس کتاب کے تقریباً 9 سال کے بعد ’’خاکم بدہن‘‘ جنوری 1970 میں لاہور سے شایع ہوئی۔
لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب مل جائے گا انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ یوسفی صاحب کہتے ہیں کراچی والے آگے ہوکر کراچی کی برائی کرتے ہیں لیکن کوئی اور ان کی ہاں میں ہاں ملا دے تو خفا ہوجاتے ہیں۔بے ساختہ ہنسی خالصتاً فطری ردعمل ہے، یہ جذبہ کن وجوہات کے زیر اثر انسان کے اندر وقوع پذیر ہوتا ہے، کافی پیچیدہ اور دیرینہ سوال ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی ہنسی کے اظہار پر بحث ہوتی رہی ہے۔ John Keats کی ایک نظم Why did the psychology of laughter جوکہ گریگ (J.Y.T Garag) کی معروف کتاب ہے اس میں ایسی تین سو تریسٹھ (363) کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو ہنسی سے متعلق بحث کرتی ہیں۔ اندروں انسان جب حبس کی فضا جنم لیتی ہے تو اچانک کسی صورت وہ جام جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے اور وہ بے ساختہ ہنسنے لگتا ہے‘‘۔ ہنسی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شے ہوتے ہوتے رہ جائے اور انسانی توقعات ایک بلبلے کی طرح پھٹ کر ختم ہوجائیں۔ تاہم یہ ہنسی کی کوئی حتمی تعریف نہیں ہے درست ہے کہ ’’ہنسنا‘‘خوشی کے احساس کا نام ہے، اور احساس کوئی مجسم چیز نہیں ہے جسے مثال کے طور پر ہاتھ سے چھو کر پیش کیا جاسکے لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہر ہنسی، خوشی کا اظہار ہوا کرتی ہے، کیونکہ جو لوگ اپنے دکھ درد اپنے دل میں چھپا کر ہنس رہے ہیں ان کی ہنسی، دل لگی اور مذاق کو کیا نام دینا چاہیے۔ مزاح نگاری کے اہم حربوں میں مزاحیہ صورت واقعہ (Humor of situation) مزاحیہ کردار نگاری “Humor of character” لفظی مزاح (Pun) تعریف (Parody) موازنہ (Comparison) تشبیہہ (Simile) اور قول محال (Paradon) شامل ہوتے ہیں۔
مزاح نگاری میں مسلسل ترسیل علم اور پڑھنے پڑھانے کا عمل دخل رہتا ہے، مزاح پکھڑ پن کا بھی نام ہے جو آج کل رائج بھی ہے، لیکن ایک ایسا مزاح جو جذبات کو مجروح کیے بغیر، بنا کسی کی دل آزاری سے عاری ہو وہ صرف مطالعے ہی سے وجود میں آتا ہے، یوسفی صاحب کی تحریروں میں طنز اور مزاح اصلاح معاشرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، وہ پچھلے کئی برسوں سے اس عرق ریزی کے ذریعے اپنے قارئین و سامعین کو زمانے کی تلخیوں سے روشناس کروا رہے ہیں۔ ان کے جملوں کی کاٹ دو دھاری تلوار کا کام کیا کرتی ہے۔ سید ضمیر احمد جعفری شاعری میں، اس کے علاوہ دلاور فگار، ضیا الحق قاسمی نے بھی عمدہ مزاح اپنے قاری کو دیا ہے لیکن میرے خیال میں اب تک یوسفی صاحب ہی وہ واحد زندہ جاوید ہستی ہیں جو بلاتامل اچھا اور مثبت مزاح تخلیق کر رہے ہیں۔
یوسفی صاحب کے کردار ایک، ان کا فن دوئم، ان کی مزاح نگاری، ان کی متنوع شخصیت چار آپ کس کس بات کو مختصر سے کالم میں قلم بند کرسکتے ہیں، یہ تو دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ یوسفی صاحب کی نثر طنز و مزاح کی دلکش آمیزش سے ترتیب پاتی ہے ، موضوعات کا تنوع ان کے ہاں سب سے اہم اور مقامیت کے جگر آفاقیت کا وصف نمایاں ہے۔ تحریف نگاری (Parody) ان کا من پسند آلہ مزاح ہے، لیکن مزاح زیادہ تر گفتگو، تبصرے، خیال، بحث اور مکالموں کے ذریعے سے پیدا کرتے ہیں، یوسفی صاحب طنز و مزاح نگاری کے لیے مضمون، آپ بیتی، خاکہ، تاریخ، مرقع، افسانہ، ناولٹ، ناول جیسی اصناف کو استعمال میں لائے ہیں (آپ ہیں کیا) تاریخ دان ہیں، محقق ہیں، نقاد ہیں، مورخ ہیں، ان کے سدا بہار اسلوب کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
بقول پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صدیقی:
’’یوسفی صاحب نظیر اکبر آبادی کی طرح سرسید جیسی شخصیت پر پبتیاں کستے تھے اور سرسید اپنے کام میں جتے رہتے تھے، کبھی کبھی کسی سے کدورت دوسرے کو عزت دوام بخشتی ہے، یوسفی صاحب پر بھی پبتیاں کسی گئیں اگر یوسفی صاحب ان پبتیوں پر کان دھرتے تو آج وہ مشتاق احمد کے نام سے جانے جاتے۔‘‘
بشکریہ ڈاکٹر ناصر مستحسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تک ان کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
چراغ تلے (1961ء)
خاکم بدہن (1969ء)
زرگزشت (1976ء)
آبِ گم (1990ء)
شامِ شعرِ یاراں (2014ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیماردار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگے ہاتھوں، عیادت کرنے والوں کی ایک اورقسم کا تعارف کرا دوں۔ یہ حضرات جدید طریق کار برتتے اورنفسیات کا ہر اصول داؤں پر لگا دیتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد پوچھتے ہیں کہ افاقہ ہوا یا نہیں ؟ گویا مریض سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالم نزع میں بھی ان کی معلومات عامہ میں اضافہ کرنے کی غرض سے RUNNING COMMENTARY کرتا رہے گا۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح مریض پر ثابت کر دیں کہ محض انتقاماً بیمار ہے یا وہم میں مبتلا ہے اورکسی سنگین غلط فہمی کی بناپراسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کی مثال اس روزہ خور کی سی ہے جو انتہائی نیک نیتی سے کسی روزہ دار کا روزہ لطیفوں سے بہلانا چاہتاہو۔ مکالمہ نمونہ ملاحظہ ہو:
ملاقاتی:ماشاءاللہ ! آج منہ پر بڑی رونق ہے۔
مریض: جی ہاں ! آج شیو نہیں کیا ہے۔
ملاقاتی:آواز میں بھی کرارا پن ہے۔
مریض کی بیوی:ڈاکٹر نے صبح سے ساگودانہ بھی بند کر دیا ہے۔
ملاقاتی : (اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر)بیگما!یہ صحت یاب ہو جائیں تو ذرا انھیں میری پتھری دکھانا جو تم نے چارسال سے اسپرٹ کی بوتل میں رکھ چھوڑی ہے (مریض سے مخاطب ہو کر)صاحب!یوں تو ہر مریض کو اپنی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر معلوم ہوتا ہے۔ مگر یقین جانیے، آپ کا شگاف توبس دو تین انگل لمباہو گا، میرا تو پورا ایک بالشت ہے۔ بالکل کھنکھجورا معلوم ہوتا ہے۔
مریض: (کراہتے ہوئے )مگر میں ٹائیفائڈ میں مبتلا ہوں۔
ملاقاتی: (ایکا ایکی پنترا بدل کر)یہ سب آپ کا وہم ہے۔ آپ کو صرف ملیریا ہے۔
مریض: یہ پاس والی چارپائی، جواب خالی پڑی ہے، اس کا مریض بھی اسی وہم میں مبتلا تھا۔
ملاقاتی: ارے صاحب!مانئے تو! آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ اٹھ کر منہ ہاتھ دھوئیے
مریض کی بیوی: (روہانسی ہو کر) دو دفعہ دھو چکے ہیں۔ صورت ہی ایسی ہے۔
___________________________________________________________________________
مشتاق احمد یوسفی کے مضمون "پڑیے گر بیمار" سے اقتباس!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تدوین و ترتیب۔ محمد خلیل الر حمٰن
اقوالِ یوسفی
• بابائے انگریزی ڈاکٹر سمویل جانسن کا یہ قول دل کی سیاہی سے لکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص روپے کے لالچ کے علاوہ کسی اور جذبے کے تحت کتاب لکھتا ہے، اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔
• خود دیباچہ لکھنے میں وہی سہولت اور فائدے مضمر ہیں ، جو خود کشی میں ہوتے ہیں۔ یعنی تاریخِ وفات، آلہِ قتل، اور موقع واردات کا انتخاب صاحبِ معاملہ خود کرتا ہے۔ اور تعزیراتِ پاکستان میں یہ واحد جرم ہے ، جس کی سزا صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ ملزم ارتکابِ جرم میں کامیاب نہ ہو۔
• انسان واحد حیوان ہےجو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے ، جسے خلاقِ عالم نے اپنے حال پررونے کے لیے غدودِ گریہ بخشے ہیں۔ کثرتِ استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہوجاتے ہیںجیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔
• تم اگر واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے توخود کو اپنے کمرے میں مقفل کرلو اور آئینہ توڑ کر پھینک دو۔
• مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہوجاتے ہیں ، بالخصوص اردو ادب میں۔
• جنگل بیابان میں ایک بچہ اپنی ماں سے چمٹ کر کہنے لگاکہ امی! اندھیرے میں مجھے ایک کالا دیو نظر آتا ہے اور مارے ڈر کے میری تو گھِگی بندھ جاتی ہے۔ ماں نے جواب دیا ، بیٹا تو مرد بچہ ہے۔ خوف کو دل سے نکال دے اب کی دفعہ جیسے ہی وہ دکھائی دے ، آگے بڑھ کے حملہ کردینا۔ وہیں پتا چل جائے گا کہ حقیقت ہے یا محض تیرا وہم۔ بچے نے پوچھا، امی! اگر اس کالے دیو کی امی نے بھی اسے یہی نصیحت کرر کھی ہو تو۔۔۔؟
• فقیر کی گالی، عورت کے تھپڑ اور مسخرے کی بات سے آزردہ نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ قولِ فیصل ہمارا نہیں، مولٰنا عبید زاکانی کا ہے( از دشنامِ گدایاںو سیلئ زناں وزبانِ شاعراں و مسخرگاں مرنجید)
• یادش بخیر ! راہزن کے لغوی معنی مرزا نے اسی زمانے میں زنِ بازاری بتائے تھے! اور سچ تو یہ ہے کہ جب سے اس کے صحیح معنی معلوم ہوئے ہیں، غالب اور آتش کے مصرعوں ’ ہوکر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پاؤں‘ اور ’ ہزار رہ زنِ امیدوار راہ میں ہے‘ کا سارا لطف ہی جاتا رہا۔ اب کہاں سے لاؤں وہ ناواقفیت کے مزے۔
ماخوذ از دستِ زلیخا( دیباچہ) خاکم بدہن از مشتاق احمد یوسفی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
• اختر شیرانی ، نابالغ شاعر ہے۔ وہ وصل کی اس طور پر فرمائش کرتا ہے گویا کوئی بچہ ٹافی مانگ رہا ہے۔
• ہوش خلیج آبادی، اس ظالم کے تقاضائے وصل کے یہ تیور ہیں گویا کوئی کابلی پٹھان ڈانٹ ڈپٹ کر ڈوبی ہوئی رقم وصول کررہا ہے۔ مگر وہ زبان کے بادشاہ ہیں، زبان ان کے گھر کی لونڈی ہے اور وہ اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔
• کسیموصوف نے ایک محفل میں غالب کا ایک مشہور شعر غلط پڑھا اور دہرے ہو ہو کر داد وصول کی سو الگ۔ میاں یہ بھی کوئی قرآن و حدیث ہے ۔ جیسے چاہا، پڑھ دیا۔
• فانی مصورِ غم ہیں تو مہدی ( الافادی) مصورِ بنتِ عم ہیں۔ واللہ ! وہ انشائیہ نہیں نسائیہ لکھتے ہیں۔
• دیکھا گیا ہے کہ وہی کتب فروش کامیاب ہوتے ہیں جو کتاب کے نام اور قیمت کے علاوہ کچھ اور جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کی ناواقفیتِ عامہ جس قدر وسیع ہوگی، جس قدر عمیق اور متنوع ہوگی، اتنی ہی بھر پور خود اعتمادی اور معصوم گمراہی کے ساتھ وہ بری کتاب کو اچھا کرکے بیچ سکیں گے۔
• ہمارے ہاں اردو میں ایسی کتابیں بہت کم ہیں جو بغیر گرد پوش کے بھی اچھی لگیں۔ گرد پوش تو ایسا ہی ہے ، جیسے عورت کے لیے کپڑے۔
• اگر قرض ہی دینا ہےتو بڑی رقم قرض دو تاکہ لینے والے کو یاد رہے اور تمہیں تقاضا کرنے میں شرم نہ آئے۔ یہ چھوٹے چھوٹے قرضے دیکر خلقِ خدا کے ایمان اور اپنے اخلاق کی آزمائش کاہے کو کرتے ہو۔
• اگر دوسرے بے اصول ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں بھی بے اصولا ہوجاؤں۔ دیکھتے نہیں ، اسکول میں حاضری کے وقت بچوں کے نام حروفِ تہجی کی ترتیب سے پکارے جاتے ہیں، مگر بچوں کو اسی ترتیب سے پیدا یا پاس ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
• علم احساب درحقیقت کسی متعصب کافر نے مسلمانوں کو آزار پہنچانے کے لیے ایجاد کیا تھا۔
• جوا اگر قریبی رشتہ داروں کے ساتھ کھیلا جائے تو کم گناہ ہوتا ہے۔
• کامیابی چاہتے ہو تو کامیاب کتب فروشوں کی طرح بقدرِ ضرورت سچ بولو اور ہر کتاب کے حسن و قبح پر ضدم ضدا کرنے کے بجائے گاہکوں کو انہی کی پسند کی کتابوں سے برباد ہونے دو۔
• اگر کوئی شخص تجارت میں بہت جلد ناکام نہ ہوسکے تو سمجھ لو کہ اس کے حسب نسب میں فی ہے۔
• اگر ایک پوری کی پوری نسل کو ہمیشہ کے لیے کسی اچھی کتاب سے بیزار کرنا ہو تو سیدھی ترکیب یہ ہے کہ اسے نصاب میں داخل کردیجیے۔
• فحش کتاب میں دیمک نہیں لگ سکتی کیونکہ دیمک ایسا کاغذ کھا کر افزائشِ نسل کے قابل نہیں رہ سکتی۔
• بڑا مصنف اپنی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے ، مگر بڑا صحافی پبلک کی آواز پبلک تک پہنچاتا ہے۔
( مشتاق احمد یوسفی۔ خاکم بدہن۔ صبغے اینڈ سنز)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہ قلم یوسفیؔ
عرض کیا:’’ کچھ بھی ہو، میں گھر میں مرغیاں پالنے کا روادار نہیں۔ میرا راسخ عقیدہ ہے کہ ان کا صحیح مقام پیٹ اور پلیٹ ہے اور شاید…‘‘ ’’اس راسخ عقیدے میں میری طرف سے پتیلی کا اور اضافہ کرلیجئے۔‘‘ انہوں نے باٹ کاٹی۔ پھر عرض کیا۔’’ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی مرغی عمرِ طبعی کو نہیں پہنچ پاتی (اسی طرح سرزمینِ چین میں کوئی جانور فطری موت نہیں مرتا)۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ ہماری ضیافتوں میں میزبان کے اخلاص و ایثار کا اندازہ مرغیوں اور مہمانوں کی تعداد اور ان کے تناسب سے لگایا جاتا ہے۔‘‘ فرمایا:’’ یہ صحیح ہے کہ انسان روٹی پر ہی زندہ نہیں رہتا… اسے مرغِ مسلم کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ اگر آپ کا عقیدہ ہے کہ خدا نے مرغی کو محض انسان کے کھانے کے لئے پیدا کیا تو مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ صاحب! مرغی تو درکنار‘ میں تو انڈے کو بھی دنیا کی سب سے بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔ تازے خود کھائیے ۔ گندے ہوجائیں تو ہوٹلوں اور سیاسی جلسوں کے لئے دُگنے داموں بیچئے۔ یوں تو اس میں… میرا مطلب ہے تازہ انڈے میں ہزروں خوبیاں ایسی کہ ہر خوبی پہ دم نکلے مگر سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پھوہڑ سے پھوہڑ عورت کسی طرح بھی پکائے یقینا مزے دار پکے گا۔ آملیٹ، نیم برشٹ، تلا ہوا، خاگینہ، حلوا…‘‘ اس کے بعد اُنہوں نے ایک نہایت پیچیدہ اور گنجلک تقریر کی جس کا ماحصل یہ تھا کہ آملیٹ اور خاگینہ وغیرہ بگاڑنے کے لئے غیر معمولی سلیقہ اور صلاحیت درکار ہے جو فی زمانہ مفقود ہے۔ اختلاف کی گنجائش نظر نہ آئی تو میں نے پہلو بچا کر وار کیا۔’’ یہ سب دُرست! لیکن اگر مرغیاں کھانے پر اتر آئے تو ایک ہی مہینے میں ڈربے کے ڈربے صاف ہوجائیں گے۔‘‘ کہنے لگے۔’’ یہ نسل مٹائے نہیں مٹتی۔ جہاں تک اس جنس کا تعلق ہے دو اور دو چار نہیں بلکہ چالیس ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود حساب کرکے دیکھ لیجئے۔ فرض کیجئے کہ آپ دس مرغیوں سے مرغبانی کی ابتدا کرتے ہیں۔ ایک اعلیٰ نسل کی مرغی سال میں اوسطاً دو سو سے ڈھائی سو تک انڈے دیتی ہے۔ لیکن آپ چونکہ فطرتاً قنوطی واقع ہوئے ہیں‘ اس لئے یہ مانے لیتے ہیں کہ آپ کی مرغی صرف ڈیڑھ سو انڈے دے گی۔‘‘ میں نے ٹوکا۔’’ مگر میری قنوطیت کا مرغی کی انڈے دینے کی صلاحیت سے کیا تعلق؟‘‘ بولے۔’’ بھئی آپ تو قدم قدم پر الجھتے ہیں۔ قنوطی سے ایسا شخص مراد ہے جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں رونے کے لئے بنائی ہیں۔ خیر، اس کو جانے دیجئے۔ مطلب یہ ہے کہ اس حساب سے پہلے سال میں ڈیڑھ ہزار انڈے ہوں گے اور دوسرے سال ان انڈوں سے جو مرغیاں نکلیں گی وہ دو لاکھ پچیس ہزار انڈے دیں گی، جن سے تیسرے سال اسی محتاط اندازے کے مطابق، تین کروڑ سینتیس لاکھ پچاس ہزار چوزے نکلیں گے بالکل سیدھا سا حساب ہے۔‘‘ ’’مگر یہ سب کھائیں گے کیا؟‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔ ارشاد ہوا:’’ مرغ اور ملا کے رزق کی فکر تو اللہ میاں کو بھی نہیں ہوتی!اس کی خوبی یہی ہے کہ اپنا رزق آپ تلاش کرتا ہے۔ آپ پال کر تو دیکھئے۔ دانہ دنکا، کیڑے مکوڑے، کنکر پتھر چگ کے اپنا پیٹ بھر لیں گے۔‘‘ پوچھا:’’ اگر مرغیاں پالنا اس قدر آسان اور نفع بخش ہے تو آپ اپنی مرغیاں مجھے کیوں دینا چاہتے ہیں۔‘‘ فرمایا:’’ یہ آپ نے پہلے ہی کیوں نہ پوچھ لیا۔ ناحق رد و قدح کی۔ آپ جانتے ہیں کہ میرا مکان پہلے ہی کس قدر مختصر ہے۔ آدھے میں ہم رہتے ہیں اور آدھے میں مرغیاں۔ اب مشکل یہ آپڑی ہے کہ کل کچھ سسرالی عزیز چھٹیاں گزارنے آرہے ہیں۔ اس لئے…‘‘ اور دوسرے دن ان کے نصف مکان میں سسرالی عزیز اور ہمارے گھر میں مرغیاں آگئیں۔ ( مشتاق احمد یوسفیؔ کے مضمون ’’ اور آنا گھر میں مرغیوں کا‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…٭