ستمبر 04 : ممتاز شاعر غلام محمد قاصر کا یومِ پیدائش ہے

Bhatkallys

Published in - Other

09:36AM Tue 5 Sep, 2017
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد قاصر 4 ستمبر 1941ء کو پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک خوش گو شاعر تھے اور ان کے شعری مجموعے تسلسل، آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے اور دریائے گماں اردو کے اہم شعری مجموعوں میں شمار ہوتے ہیں۔ غلام محمد قاصر کی کلیات بھی ’’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے بھی کئی ڈرامے تحریر کئے جو ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے۔ 20 فروری 1999ء کو اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقاد اور ڈرامہ نگار غلام محمد قاصر پشاور میں وفات پاگئے۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2006ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیراسائکالوجی کو اُن علوم کا مجموعہ قرار دیا جا سکتاہے ،جن کا تعلق ایسے تجربات و مشاہدات سے ہو، جنھیں حواسِ خمسہ عام حالات میں محسوس نہ کر سکتے ہوں،جیسے مابعد الطبیعات وغیرہ، یعنی زمان و مکان کی قیود سے نکل کر روشنیوں ، رنگوں ، خوشبووں، نسموں (aura) کی دُنیاوں کی سیر ، بیک وقت ایک سے زیادہ مقامات پر روحانی طور پر موجو د ہونا۔ غلام محمدقاصرؔ کے میںاوائل سے ہی ایک خاص مابعد النفسیا تی ، پرُاسرار اور ماورائی فضا محسوس ہوتی ہے ،جو بتدریج بڑھتے بڑھتے اُن کے تیسرے شعری مجموعے ’’دریا ئے گماں‘‘ تک نہایت اہمیت اختیار کر گئی۔ مذکورہ کتاب زندگی میں شائع ہونے والی اُن کی آخری کتاب تھی، جو وفات (20 فروری1999ء) سے دو سال قبل یعنی1997 ء میں منظرعام پر آئی تھی، جس میں بطورِ خاص ایسے اشعار کی تعداد زیادہ ہے : وہ بے دِلی میں کبھی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں تو ،ہم بھی سیر سماوات چھوڑ دیتے ہیں اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیںکہ بظاہر رومانوی نظر آنے والے اس شعر میں قاصرؔ صاحب نے سیرسماوات کو جس معمول کی بات کے انداز میں بیان کیا ہے ،یہ امر بہر کیف اس قدر معمولی نہیں ۔کچھ نہ کچھ معارفت وریاضت تو بہرحال درکار ہوتی ہے نظر کو وہاں تک پہنچنے کے لیے کہ جہاں یہ کہا جا سکے کہ ’’آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے‘‘۔ اُن کے دوسرے شعری مجموعے کا عنوان بھی یہی مصرعہ ہے اور اس عنوان کے تحت نظم میںواضح طور پر اُن جہانوں کی منظر کشی کی گئی ہے، جو حدنظر سے بعید ہیں ۔ پڑھتے ہوئے جو ماورائی کیفیت محسوس ہوتی ہے ،اس سے شاعرکے وجدان کی بلند ترمنازل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اُن کی مشہورنظم ’’سمیتا پاٹل‘‘ بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ مذکورہ نظم اس صبح مکمل ہوئی، جس شام سمیتا پاٹل کا انتقال ہوا۔ پیراسائکالوجی میں اسے precognition کہا جاتا ہے، یعنی بعد میں پیش آنے والے واقعات کی پہلے سے خبر ہو جانا۔ان دنوں قاصرؔ صاحب گورنمنٹ کالج درہ آدم خیل میں بطور معلم تعینات تھے اور روزانہ پشاو ر سے وہاں جایا کرتے ۔ راستے میں ایک خاص مقام سے گزرتے وقت مصرعوں کی آمد ہوتی، لیکن نظم مکمل نہ ہوتی تھی اور پھر ایک روز اسی مقام پر گاڑی خراب ہوئی اور پھر قریب ایک ویران سی زیارت کے پاس اُن کیفیت کچھ عجیب ہوئی، گھنٹیوں کی آوازیں آنے لگیں اور پھر مذکورہ نظم کی تکمیل ہوئی۔ اس غیر معمولی واقعہ کی تفصیل ـ ’’غلام محمد قاصر فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے پروفیسر سہیل احمد (شعبہ اُردو پشاور یونیورسٹی) کے ایم فل کے تحقیقی مقالے میں موجود ہے، جو طباعت کے مراحل میں ہے۔ شہزاد احمد، جنھیں خود بھی مابعدالنفسیاتی موضوعات سے خصوصی دلچسپی تھی، نے قاصرؔ صاحب کے پہلے شعری مجموعے ’’تسلسل ‘‘ کے بارے میں کہا کہ ’’قاصرؔ نے بہت سے ایسے گوشوں کی نقاب کشائی کی ہے، جو اس سے پہلے کُھل کر سامنے نہیں آئے تھیــ‘‘۔ اُن کا اشارہ یقینی طور پر پیرا سائکالوجی سے متعلق انھی موضوعات کی طرف تھا ،جو ایک عام قاری کی نظر سے شاید اب بھی اُوجھل ہیں۔احمد ندیم قاسمی نے بھی تسلسل کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ’’قاصر ؔکی غزل خدا اور کائنات سے گفت گو کرتی نظر آتی ہے ‘‘۔اس پس منظر میں درج ذیل اشعار خصوصی توجہ کے متقا ضی ہیں: یونہی آساں نہیں ہے نُور میں تحلیل ہو جانا وہ ساتوں رنگ قاصر ایک پیراہن میں رکھتا ہے …………… گِلِ ماہ گھومتے چاک پر کفِ کوزہ گر سے پھسل گئی کہ بساطِ گردشِ سال و سِن یہی فرق اپنے پرائے کا …………… مَیں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح اور چاندنی صلیب پر آ کر لٹک گئی اَن دیکھی دنیاوں اور واضح مابعدالنفسیاتی حوالو ں سے ہٹ کر اگر قاصرؔ کے خالص رومانوی اشعار کو بھی دیکھا جائے، تو وہاں بھی ایک خاص کیفیت نظر آتی ہے کہ جہاں اشعار بظاہر تو رومانوی ہیں ،لیکن بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بات اور ہی کسی دنیا کی ہے ،جیسے یہ اشعار: خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد مَیں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی …………… پہلے اک سائے سے خوشبو کو نکلتے دیکھوں پھر وہ خوشبو تِری تصویر میں ڈھل جاتی ہے …………… اسی لیے تو زمیں پر وہ اجنبی نہ لگے مَیں اُن سے پہلے مِلا تھا کسی ستارے پر خوشبو کو گرفت ِ عکس میں لے کر آنا یا پھر سائے سے خوشبو کا نکلنا اور پھر خوشبو کا تصویر میں ڈھل جانا اور سیارے پر رہ کر ستاروں میں ہونایاپھر ستاروں پر موجود ہو کر سیاروں کی خبر دینا یقینا پیراسائکالوجی کی مختلف منازل ہیں۔ مابعدالنفسیات میںرنگوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رنگوں کی نفسیات پر متعدد ماہرین ِ نفسیات کی مکمل کتب شائع ہو چکیں۔پکاسو نے رنگوں کے بارے میں کچھ یوں کہا تھا کہ رنگ بھی ، تاثرات کی طرح، جذبات کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔قاصرؔ صاحب اپنے تیسرے مجموعے ’’دریا ئے گماں‘‘ کا نام پہلے ’’سارے رنگ ادھورے ہیں ‘‘رکھنا چاہتے تھے ۔ اُن کی شاعری میں رنگ کرداروں کی مانند نظر آتے ہیں: سب رنگ نا تمام ہوں ہلکا لباس ہو شفاف پانیوں پر کنول کا لباس ہو رنگوںکی طرح ہندسو ں کو بھی مابعدالنفسیات میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قاصر ؔصاحب کی شاعری میں ہندسوں کے حامل اشعار انتہائی فکر انگیز اور بے پناہ وسعت سمیٹے ہوئے ہیں: ساری چابیاں میرے حوالے کیں اور اس نے اتنا کہا آٹھوں پہر حفاظت کرنا شہر ہے نَو دروازوں کا قتیلؔ شفائی نے قاصرؔ صاحب کی وفات کے موقع پرکہا تھا ’’قاصر ؔکی منزل افق سے بھی پار تھی ’’اُنھیں معلوم تھا کہ اُفق سے پار دیکھنے والوں کی منزل ہی افق کے پار ہو سکتی ہے‘‘۔ قاصرؔصاحب نے بھی اپنی ایک نظم میں کچھ یوں دُعا مانگی تھیـ کہ یہی دل کی روشنی اے خدا مَیں افق کے پار بھی رکھ سکوں۔قاصرؔ صاحب افق کے پار اُنھی دنیاوں میں کہیں موجود ہیں، جن کی بازگشت ان کی شاعری میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ بشکریہ: عماد قاصر منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراوں کے ٹیلے تھے تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں ‌پہنچا رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے کون غلام محمّد قاصر بے چارے سے کرتا بات یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے اِک شخص میری ذات بنا اور پھر پوری کائنات بنا حُسن نے خود کہا مصور سے پاؤں پر میرے کوئی ہاتھ بنا پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی لاکھ دجلے بنا، فرات بنا غم کا سورج وہ دے گیا تجھ کو چاہے اب دن بنا کہ رات بنا شعر اِک مشغلہ تھا قاصرؔ کا اب یہی مقصدِ حیات بنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے وہ ماہ رخ جو لبِ بام بھی نہیں آتا کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا بٹھا دیا مجھے دریا کے اس کنارے پر جدھر حبابِ تہی جام بھی نہیں آتا چرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل اُدھر لے جا تبسم سے حقیقی خال و خد ظاہر نہیں ہوتے تعارف پھول کا درپیش ہے تو چشمِ تر لے جا اندھیرے میں گیا وہ روشنی میں لوٹ آئے گا دیا جو دل میں جلتا ہے اسی کو بام پر لے جا اُڑانوں، آسمانوں، آشیانوں کے لیے طائر! یہ پَر ٹوٹے ہوئے میرے، یہ معیارِ نظر لے جا زمانوں کو اُڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام وسحر لے جا کوئی منہ پھیر لیتا ہے تو قاصر اب شکایت کیا تجھے کس نے کہا تھا آئینے کو توڑ کر لے جا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے اک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے اس کو دیکھا تھا احساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتاہے پھر جسم کے منظر نامے میں سوئے ہوئے رنگ نہ جاگ اٹھیں اس خوف سے وہ پوشاک نہیں ، بس خواب بدلتا رہتا ہے چھ دن تو بڑی سچائی سے سانسوں نے پیام رسانی کی آرام کا دن ہے کس سے کہیں دل آج جو صدمے سہتا ہے ہر عہد نے زندہ غزلوں کے کتنے ہی جہاں آباد کیے پر تجھ کو دیکھ کے سوچتا ہوں اک شعر ابھی تک رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہی کہنے لگے تو مرے گھر آیا تھا چاند جن چار گواہوں کو نظر آیا تھا رنگ پھولوں نے چنے آپ سے ملتے جلتے اور بتاتے بھی نہیں کون کدھر آیا تھا بوند بھی تشنہ ابابیل پہ نازل نہ ہوئی ورنہ بادل تو بلندی سے اتر آیا تھا تو نے دیکھا ہی نہیں ورنہ وفا کا مجرم اپنی آنکھیں تری دہلیز پہ دھر آیا تھا بھول بیٹھے ہیں نۓ خواب کی سرشاری میں اس سے پہلے بھی تو اک خواب نظر آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اشعار کو رسوا سر بازار کروں کیسے ممکن ہے کہ میں مدحت دربار کروں دل میں مقتول کی تصویر لیے پھرتا ہوں اور قاتل سے عقیدت کا بھی اظہار کروں یہی منشور محبت ہے کہ وہ پیکر ظلم جس کو نفرت سے نوازے میں اسے پیار کروں اب مرے شہر کی پہچان ہے اک وعدہ شکن شہریت بدلوں کہ تاریخ کا انکار کروں رات بھر جاگ کے تعمیر کروں قصر امید صبح تکمیل سے پہلے اسے مسمار کروں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظم سمیتا پاٹل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل کے مندر میں خوشبو ہے لوبان کی ، گھنٹیاں بج اٹھیں ، دیو داسی تھی وہ کتنے سرکش اندھیروں میں جلتی رہی دیکھنے میں تو اس مشعل ذرا سی تھی وہ نور و نغمہ کی رم جھم پھواروں تلے مسکراتی ہوئی اک اداسی تھی وہ پانیوں کی فراوانیوں میں رواں اس کی حیرانیاں کتنی پیاسی تھی وہ حسن انساں سے فطرت کی سرگوشیاں گھل گئیں تیرے لہجے کی جھنکار میں فن کی تکمیل سچا سراپا ترا، بے زبانی کو لایا جو اظہار میں مدتوں تک نمائش کی خواہش رہی زندگی تب ڈھلی تیرے کردار میں جو تھی زندہ محبت کی بنیاد پر وقت نے چن دیا اس کو دیوار میں دھوپ ہر روپ میں ، ریت ہر کھیت میں ، فصل جذبات پر خشک سالی رہے دوگھڑی دل کسی کے خیالوں میں گم اور پھر عمر بھر بے خیالی رہے آئنہ اب ترستا رہے عکس کو اور نظر روشنی کی سوالی رہے میرے حصے کا یہ آنکھ بھر آسماں جگمگاتے ستارے سے خالی رہے