سچی باتیں ۔۔۔ نزول رحمت ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ

وَاَقِیْمُوْا الصَّلوٰۃَوَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوْا لرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْن۔ نور۔ع۔۸ نماز کے پابند رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور رسول کی اطاعت کرتے رہو کہ ان سے تم پر رحم کیا جائے گا۔ رحمتِ حق کا تعلق صر ف عالمِ آخرت ہی سے نہیں ،اس مادی وناسوتی دنیا سے بھی ہے اوررحمتِ حق کے مفہوم میں وہاں کی مغفرت و نجات کے علاوہ یہاں کا چین اور آرام ،فلاح اور بہبود ،ترقی اور اقبال مندی،سب کچھ داخل و شامل ہے، ارشاد ہوتاہے کہ اس رحمتِ حق کی کشش کا ذریعہ اور نسخہ یہ ہے کہ نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کی جاتی رہیں،زکوٰۃ ادا ہوتی رہے،عبادت کی د وہی صورتیں ہوسکتی ہیں بدنی اور مالی ،عبادت بدنی کا خلاصہ نماز ہے اور عباتِ مالی کا زکوٰۃ ،ان دو اہم ترین اعمال کی صراحت کے بعد مطلق اور عمومی صورت میں یہ ارشاد ہوا کہ احکامِ رسول کی اطاعت کی جائے۔ خوب غور فر ما لیجیے فلاح وبہبود کی صورتیں کس کو بتائی جارہی ہیں؟صرف عرب کے مسلمانوں کو نہیں،صحرائے حجاز کے بدوؤں کو نہیں،چین وجاپان ،روس و انگلستان،مصر وہندوستان سب کہیں کے مسلمانوں کو !صرف پہلی صدی ہجری والوں کو نہیں ،دوسری صدی والوں اور چودہویں صدی والوں ،قیامت تک کے لیے ہر زمانہ اور عہد والوں کو صرف جاہلوں کو نہیں عاقلوں کو اور عالموں کو حکیموں اور فلسفیوں کو ،شاعروں اور ادیبوں کو ،سائنس کے استادوں اور آرٹ کے نقادوں کو بڑوں اور چھوٹوں کو،امیروں اور غریبوں کو،اور بتانے والا کون ہے؟کوئی خاطی بندہ، کوئی محدود علم وبصیرت رکھنے والاانسان نہیں بلکہ وہ جو حاضر وغائب حال اور مستقبل ،آج اور کل یہاں اوروہاں ،ان کی اور ان کی،گورے اور کالے ،سب کی ضروریات اور سب کے حالات کا علیم وخبیرہے وہ ترقی کا راستہ کیا فرماتا ہے؟ یہ کہ نمازیں بہ حفظِ اوقات و التزام جماعت ادا کرتے رہوزکوٰۃ دیئے جاؤ اور رسول کی اطااعت میں سر گرم رہو۔ قرآنِ حکیم کے اگر آپ(خدانخواستہ)منکر ہیں تو روئے سخن ہی آپ کی طرف نہیں،لیکن اگر آپ قرآنِ مجید پر ایمان رکھتے ہیں،تو للہ فرمائیے اور اپنی عقل وسنجیدگی سے مشاورت کے بعد فرمائیے،کہ اس میں کہیں ذکر آپ کے نئے نئے ’’تعمیری پروگرموں‘‘کا آپ کی نئی نئی کانفرسوں لیگوں، انجمنوں،رزولیوشن سازیوں اور جلسہ بازیوں کا ہے؟نہ کونسل نہ اسمبلی ،نہ کانگریس اور لیگ ،نہ یونیورسٹی نہ اکاڈمی ،نہ سائنس نہ آرٹ ،نہ بنک نہ ہوائی جہاز،صاف اور سیدھا راستہ رحمتِ حق کی کشش کا ، ہر قسم کی فلاح وترقی کا صرف ایک ہی ہے اور وہ راستہ غیروں کی تقلید کا نہیں یورپ اور جاپان اور امریکہ کی ریس کرنے کا نہیں،بلکہ مسجدیں آباد رکھنے ،نماز پابندی کے ساتھ پڑھتے رہنے خالق ومخلوق کے حقوق ادا کرتے رہنے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقوں پر چلتے رہنے کا ہے, کہتے ہیں کہ یہ زمانہ عقیدہ کا نہیں تجربہ کا ہے،خدا کے واسطے آخراس راہ کا تجربہ کیوں نہیں کیا جاتا؟