سفرِ حجاز(03)۔۔۔  تحریر:  مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

06:39PM Mon 7 Jun, 2021

  باب (۳) جہاز

     جہاز کی روانگی کی تاریخ خدا معلوم کتنی بار بدلی، ہماری اطلاعیں براہ راست کمپنی کے دفتر سے حاصل شدہ ہوتی تھیں۔ ٹرنرماریسن کے دفتر میں ایک صاحب قاری محمد بشیر اعظم گڑھی بڑی کام کے اور مستعد آدمی ہیں، وہ بیچارے ہمارے ہر کام کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے، اس پر بھی ہر اطلاع غلط ہی ثابت ہوتی اور روانگی برابر ٹلتی رہی، اس میں خاصا قصور ہم لوگوں کا بھی تھا، جو اپنی ناواقفیت اور ناتجربہ کاری سے حاجیوں کے جہاز کو ریل پر قیاس کی ہوئے تھے، ان جہازوں کے چھوٹنے میں بہت سے ایسے موثرات کام کرتے ہیں جن کا کئی روز قبل سے صحیح اندازہ کرلینا کمپنی کے افسروں کے بھی بس کے باہر ہوتا ہے، اس لئے بہت قبل سے کوئی تاریخ قطعی طور پر متعین ہو ہی نہیں سکتی، بہرحال ایک آدھ روز قبل متعین طور پر معلوم ہوا کہ جہاز اکبر 28 مارچ کو روانہ ہوگا۔ یہ جہاز کچھ ایسا پرانا نہیں (1924)  کا بنا ہوا ہے اور کمپنی کے جہازوں میں اوسط درجہ  کا ہے، وزن 4043 ٹن ہے، 1926ء میں خلافت کمیٹی اور جمعیۃ العلماء کے معزز ارکان وفد حجاز اسی جہاز پر گئے تھے۔ روانگی کی تاریخ کا بالآخر تعین سن کر مایوس اور پریشان حال حاجیوں کی جان میں جان آ گئی۔ ہم لوگ بھی انتظار سے اکتا چکے تھے۔ صبر و ضبط کا امتحان اپنے ظرف کے لائق ہوچکا تھا اور وہ جو گھر سے یہ امید لےکر چلا تھا کہ وسط شوال میں ارض مبارک میں پہونچ جائے گا۔ اسے وسط شوال تک بمبئی ہی میں رکا رہنا پڑا۔ 27،28 مارچ کی درمیانی شب خاص شوق و اشتیاق میں گزری۔

جمعرات 28 مارچ مطابق 16 شوال: جہاز آج سارا دن گزار کر 11 بجے شب کو چھوٹنے والا تھا، لیکن حاجیوں کو یہ حکم ملا تھا کہ 8 بجے صبح اپنا سامان جہاز پر رکھ دیں اور خود 3 بجے سہ پہر کو بھپارہ (ڈیس انفکشن) کے لیے حاضر ہوکر قبل مغرب جہاز پر سوار ہوجائیں۔ اس حکم کی تعمیل میں سامان صبح روانہ کردیا گیا تھا، لیکن اس کی روانگی میں کسی قدر دیر ہوگئی۔ دوسرے حاجی بہت قبل سے پہونچ کر ساری اچھی جگہیں اپنے اسباب سے گھیرچکے تھے، حج کا سفر اللہ نے اس لیے رکھا ہے کہ بندہ کو بندہ بننے کی عادت پڑے۔ بندہ بندگی، ایثار، بےنفسی کا سبق حاصل کرے، لیکن بندوں میں ٹھیک اس کے برعکس خود غرضیوں کا زور ہوتا ہے اور ہرشخص اسی فکر میں لگا رہتا ہے کہ دوسروں کو دھکہ دیکر، ڈھکیل کر، ڈرا دھمکاکر، جس طرح بھی ممکن ہو اپنے لیے بہتر سے بہتر جگہ حاصل کرلے اور دوسروں کے حقوق اور ان کی تکلیفوں کا مطلق لحاظ نہیں رہتا۔ عموماً  کامیاب وہی رہتے ہیں جو ہاتھ پیر کے زبردست ہوتے ہیں یا پھر وہ جو جہاز کے ملازموں کو دے دلاکر اپنا کرلیتے ہیں۔ سہ پہر کو ہم لوگ بھپارہ گھر حاضر ہوئے جس کی عمارت پرنسس ڈک سے ایک آدھ فرلانگ کے فاصلہ پر ہے، یہاں کا سماں دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، حاجیوں کی جماعت اس وقت انسانوں کی جماعت نہ تھی، بھیڑ، بکریوں کا ایک غول تھا، جسے پولیس کے کانسٹیبل اور شفاخانہ کے ملازم جس طرح اور جس طرف چاہیں ہانکتے رہیں۔ سنتے ہیں کہ بمبئی میں ہماری مہربان سرکار کی طرف سے کوئی محکمہ ’’محافظ حجاج‘‘ بھی قائم ہے۔ ’’محافظت‘‘ کی نئی اور انوکھی صورت آج دیکھنے میں آئی کہ بیچارے عوام کا ذکر نہیں اچھے اچھے معزز و ذی مرتبت حاجی، فرسٹ کلاس کا ٹکٹ رکھنے والے،تیز دھوپ میں حیران و پریشان، ہجوم میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں! اور عورتوں بیچاریوں کی حالت اس سے بھی کہیں ابتر، یہ سزا ہے یا جوجی حکومت کی طرف سے اس جرم کی کہ اس بیسوی صدی کی روشنی میں بھی لندن اور پیرس، رومہ اور ویانا، آکسفورڈ اور کیمرج، گلاسکو، اور ایڈنبرا، نیویارک اور واشنگٹن کو چھوڑ کر ایک ریتلے بیابان اور پتھریلے ویرانہ کی طرف کیوں ذوق و شوق سے رخ کیا جارہا ہے! حدیث نبویﷺ میں یہ بےشبہ ارشاد ہوا ہے کہ حج یاجوج کے زمانہ میں جاری رہے گا، لیکن یاجوجی دور کی حکومتیں حاجیوں کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گی اور حاجیوں پر کیا کچھ گزرتی رہے گی، اس کا تعلق سننے سے نہیں دیکھنے سے، مطالعہ سے نہیں، مشاہدہ سے، اور خبر سے نہیں، تجربہ سے ہے! یہ سچ ہے کہ اللہ کے راستہ میں نکلنے والوں کے لیے ہر تکلیف عین راحت اور ہر توہین عین عزت ہے لیکن جو طاغوتی قوتیں آج اپنے دست و بازو پر نازاں ہیں وہ سن رکھیں کہ یہ امتحان اللہ کی راہ میں نکلنے والوں کے صبر و ضبط، کسر نفس، خود شکنی کا نہیں، بلکہ خود زمین و آسمان کے پروردگار کے حلم کا امتحان ہے!۔

شوکت صاحب کل شب میں دہلی روانہ ہوگئے تھے۔آج ان کی جانشینی زاہد سلمہ کے حصہ میں آئی، بھپارہ اور جہاز کے سارے معرکے زاہد صاحب ہی کے مدد سے سر ہوئے، اور ’’اگر پدر نہ تواند پسر تمام کند‘‘کے پرانے مقولے کی آج نئی تصدیق حاصل ہوئی۔ اللہ اس نوجوان ہونہار کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اسے پختہ دیندار مسلمان بنادے۔ زاہد صاحب مولانا شوکت علی کے لڑکے ہی نہیں، مولانا محمد علی کے بھتیجے اور داماد بھی ہیں، تین سال قبل دہلی میں روزنامہ ہمدرد کے مینجر تھے، ان کی عملی صلاحیتوں اور انتظامی قوتوں کے تجربے اس وقت سے رکھتا ہوں۔ انجمن خدام النبی کے کارکن بڑی محبت اور سیر چشمی کے ساتھ حاجیوں کو برف و شربت سے سیراب کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ کاش سرکار دولتمدار کے محکمہ محافظ حجاج میں اتنی ہی ہمدردی و انسانیت ہوتی! گھنٹوں کے انتظار کے بعد بھپارہ خانہ میں ہم لوگوں کی بھی ’’ڈاکٹری‘‘ہوئی یعنی برائے نام ہماری نبضوں پر ہاتھ رکھ کر دو دو سکنڈ میں  اس سوانگ کو ختم کردیا گیا اور عصر کے آخر وقت تک سب کے سب حاجی جہاز پر سوار ہوگئے۔ مجموعی تعداد قریب پندرہ سو کے پہونچی، جہاز کے چھوٹنے کا وقت سمندر کے مد کے حساب سے 11 بجے شب کا مقرر تھا، اُس وقت سے لےکر اِس وقت تک انسانوں کے اتنے بڑے مجمع کو جس میں بوڑھے اور بچے، تندرست اور بیمار، توانا اور کمزور سبھی تھے، حوائج بشری سے بالکل پاک اور منزہ فرض کرلیا گیا تھا۔ گویا جہاز کا عرشہ جنت کا صحن تھا، جہاں کسی کو قضائے حاجت کی ضرورت ہی نہ پیش آئے گی! جہاز میں پیشاب اور پاخانے کی متعدد جگہیں بنی ہوئی تھیں، لیکن اس وقت سب کی سب مقفل تھیں اور جب تک جہاز چھوٹ نہ لیا، بدستور مقفل رہیں! سنا کہ جہاز جب تک گودی ڈک میں لگا رہتا ہے، اس اندیشہ سے کہ کہیں ساحل سمندر گندگی و غلاظت سے لبریز نہ ہوجائے، برابر اسی طرح جہازوں کے پاخانے مقفل رہا کرتے ہیں۔ 3 بجے بھپارہ کا وقت مقرر تھا۔ بہت سے غریب حاجی 2 بجے اپنے اپنے ٹھکانوں سے روانہ ہوئے تھے، اس وقت سے لےکر 11 بجے تک یعنی پورے 9 گھنٹے کی مدت میں کمزور مثانہ والے حاجیوں پر کیا گزری، کیا اس کی تصریح کی ضرورت ہے؟

ٹھیک 11 بجے شب کو جہاز میں حرکت ہوئی اور اس نے آہستہ آہستہ ساحل کو چھوڑنا شروع کیا، لیجئے دیکھتے ہی دیکھتے قرب و جوار کی ساری عمارتیں نظروں سے پوشیدہ ہوگئیں اور صرف ان کی روشنیاں باقی رہ گئیں، اللہ اللہ! کیا وقت ہے! کیا سماں ہے؟ جہاز میں حرکت تو خیر جیسی کچھ بھی ہو، اپنے دل کی حرکت کا کیا حال ہے؟ وطن ہر لحظہ دور ہوتا جاتا ہے، وطن کی دلچسپیاں ساری کی ساری پیچھے چھوٹی جاتی ہیں، بیوی بیشک ساتھ ہیں، لیکن بچیاں وہیں ہیں، والدہ ماجدہ وہیں ہیں، بھائی وہیں ہیں، بہن وہیں ہیں، سارے اعزہ اور دوست وہیں ہیں۔ساتھ کام کرنے والے وہیں ہیں، لیکن بحمداللہ دل میں اس وقت ان میں سے کسی کی فکر نہیں، فکر ان کی نہیں جو پیچھے چھوٹ رہے ہیں، فکر ہے تو ان کی جو آگے ملنے والے ہیں، دوستو! عزیزو! خدا حافظ! خاک وطن کے ذرو! خدا حافظ! سب کو اسی مالک و مولا کے سپرد کیا، سب کو اسی کریم و رحیم کی حفاظت میں دیا جس کے ایک مادی در پر جبیں سائی کو یہ ننگ وطن و ننگ خاندان اس وقت روانہ ہورہا ہے، اس کی خطائیں معاف کرو، اس کے قصوروں سے درگزرو، اس کی بیہودگیوں پر خاک ڈالو۔ اللہ تمہارے مرتبے بلند کرے گا۔ اللہ تمہاری خطاؤں کو معاف کرے گا۔

لبيك اللهم لبيك، اللهم لبيك اليك توجهت وعليك توكلت ووجهك اردت فاجعل ذنبى مغفورا و حجى مبرورا وارحمنی ولا تخيبنى واقض بعرفات حاجاتى انك على كل شيء قدير

خواجہ حافظ نے مدت ہوئی فرمایا تھا:۔

شب تاریک وبیم موج و گردا بے چنیں حائل

کجا دانند حال ماسبکساران ساحلہا

لیکن حقیقت یہ ہے کہ شب تاریک ہی نہیں روز روشن میں بھی، اور ’’بیم موج‘‘ ہی کے وقت نہیں، سمندر کے سکون کے وقت بھی، اور گرداب و تلاطم ہی کی حالت میں نہیں پوری ہمواری کی حالت میں بھی حاجیوں کے جہاز کی کیفیت کا اندازہ صرف حاجی ہی کرسکتے ہیں۔ بغیر آپ بیتی کے ’’سبکسارانِ ساحل‘‘ اس کا صحیح اندازہ کرنے سے بالکل قاصر ہیں، ریل کے سفر میں جو سہولتیں بالعموم حاصل رہتی ہیں، وہ ان جہازوں میں عنقا کا حکم رکھتی ہیں۔ تھرڈ کلاس والوں کا ذکر نہیں، وہ مخلوق تو شاید سختیاں اٹھانے اور تکلیفیں جھیلنے کے لیے پیدا ہی ہوئی ہے۔ سیکنڈ کلاس بلکہ فرسٹ کلاس والوں کو بھی قدم قدم پر یہ محسوس کرایا جاتا ہے کہ وہ سیر و سیاحت کے اور لطف و تفریح کے لیے نہیں عبادت کے لیے، مجاہدہ کے لیے، کسر نفسی کے لیے گھروں سے نکلے ہیں۔اور خدا بننے کے لیے نہیں۔بندہ بننے کے لیے چلے ہیں! اکبر کا شمار اچھے خاصے جہازوں میں ہے۔ سب سے نیچے کا حصہ ریل کی مال گاڑیوں کی طرح مال کے لیے مخصوص ہے، اس ’’اسفل سافلین‘‘ کے مقابلہ میں ’’اعلیٰ علین‘‘ یعنی جہاز کا سب سے اونچا عرشہ اعلیٰ فرنگی افسروں، کپتان چیف آفیسر، انجینئر وغیرہ کے لیے مخصوص! چھوٹی چھوٹی کوٹھریاں جن میں نہ پنکھا نہ ہوا کا گذر، نہ پاخانہ، نہ غسل خانہ، اوپر تلے  دو بنچیں ’’ان کا نام‘‘ سیکنڈ کلاس کیبن جن کا کرایہ تھرڈ کلاس سے ڈھائی گنا! فرسٹ کلاس بھی اس قدر تنگ و مختصر البتہ ان کا مقام نسبتاً بہتر اور پنکھا ان میں موجود لیکن پاخانہ اور غسل خانہ ان کے ساتھ بھی نہیں! اور فرسٹ کلاس کے مسافر کو خاصی مسافت طے کرکے پیشاب کی ضرورت کے لیے ہر مرتبہ اس عام مشترک بیت الخلا تک جانا ہوتا ہے جس پر فرسٹ کلاس اور سیکنڈ کلاس دونوں کے کل مسافروں کا یکساں حق ہوتا ہے!۔

پھر زنانہ اور مردانہ کی بھی تفریق نہیں، سب کے لیے ایک ہی کافی! ایسی صورت میں اگر دروازہ پر دس دس منٹ تک لوٹا ہاتھ میں لیے امیدواری کرتی رہنا پڑے تو اس پر حیرت نہ کیجئے! طہارت کا انتظام بمنزلہ صفر! گندگی دور ہونے کے بجائے کپڑوں کے نجس ہوجانے کا اندیشہ ہر وقت لگا ہوا! آرام و آسائش کا یہ معیار فرسٹ کلاس والوں کے لیے ہے۔

’’جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ‘‘اگر بہار سے خزاں کا اندازہ کرنا ممکن ہے تو فرسٹ کلاس کی حالت سے تھرڈ کلاس کا بھی اندازہ کرلینا ممکن ہے، جہاز کے اسفل سافلین سے اوپر کے دو درجے تھرڈ کلاس والوں کے لیے ہوتے ہیں! لیکن انھیں درجہ قرار دینا خود لفظِ درجہ کی تحقیر کرنا ہے! یہ درجے کیا ہوتے ہیں، بھیڑ بکریوں کے باڑے ہوتے ہیں جن میں بے زبان جانوروں کے بجائے بےزبان (اور شاید بےجان بھی) ’’کالے آدمیوں‘‘  کو الٹا سیدھا تلے اوپر بھر دیا جاتا ہے! ادھر کوڑے کے ڈھیر، ادھر غلاظت کے انبار! ادھر کھانا پک رہا ہے اور دھواں ہے کہ آنکھ اور ناک میں گھسا جارہا ہے، ادھر سامنے بیٹھے ہوئے چھوٹے بچے ہی نہیں، ان کے باپ اور چچا، پیران نابالغ ہر قسم کے شرم و غیرت کو بالائے طاق رکھے ہوئے بلاتکلف پیشاب اور پاخانہ کے مشاغل میں مصروف! روشنی کا گزر دشوار اور ہوا کا گزر دشوار تر! رہے تھرڈ کلاس کے پاخانے اور غسل خانے، تو ان کا تو تصور بھی نفیس مزاجوں پر بار ہوگا! جہاز کا نیچے والا عرشہ (ڈک) جہاں فرسٹ کلاس کیبن ہوتے ہیں، درحقیقت فرسٹ اور سیکنڈ  کلاس والوں کا برآمدہ ہوتا ہے جو تھرڈ کلاس والے قلیوں یا جہاز والوں  کو کچھ دے دلاکر یہاں قبضہ کرلیتے ہیں، وہ مزے میں رہتے ہیں، اور مسافروں میں بڑے خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں۔ میٹھا پانی اول تو ملتا بہت محدود مقدار میں ہے، پھر اس کے ملنے کے اوقات مخصوص معین اور مختصر، یہی حال کھانا پکانے کی لکڑی کا ہے جو جہاز پر بلاقیمت تقسیم ہوتی رہتی ہے۔ پانی اور لکڑی دونوں کی تقسیم کے وقت جو ہنگامہ ہوتا ہے جس طرح کنسٹر سے کنسٹر اور سر سے سر ٹکراتے ہیں، اور بوڑھوں اور کمزوروں کو جس قیامت کا سامنا ہوتا ہے، ان سب کا تعلق دیکھنے سے ہے سننے سے نہیں، لیکن درحقیقت صبر و شکر کا سبق بھی اللہ کی اسی بےزبان مخلوق سے لینا چاہیئے، دیکھنے والوں کو ان پر ترس آرہا ہے لیکن وہ اپنے حال میں مست، اپنی دھن میں مگن! انھیں نہ برقی قمقموں کی طلب، نہ پنکھے کی ہوس نہ برف کی خواہش، نہ لائم جوس کی تمنا، کہیں تلاوت ہورہی ہے، کہیں وعظ کی محفل گرم، کہیں دیگچیاں مانجی جارہی ہیں، کہیں کپڑے اپنے ہاتھ سے دھل رہے ہیں، کہیں روٹیاں توے پر پڑرہی ہیں، اور تقریباً سارے کے سارے بےفکر و بےغم! ان کا میلاپن قابل نفرین، لیکن ان کا صبر قابل رشک، ان کا شکر قابل داد اور ان کی ہمت قابلِ آفریں!۔

مغرور و برخود غلط، متمرد و سرکش، غافل و مدہوش، خاک کا پتلا، کس قدر اپنی حیثیت کو بھولا ہوا، اور اپنی حقیقت کو بھلائے ہوئے ہے، حج کا سفر ایثار و فدویت، فروتنی و نفس شکنی کا مدرسہ ہوتا ہے۔ اس پر بھی نفس کی فربہی میں ایک ذرہ کمی نہیں، انانیت ہر ہر قدم پر زندہ، اور نفس پرستی کے مطالبات لمحہ لمحہ پر! مصائب سفر کا بیشتر حصہ تو خیالی اور اپنے دماغ کا پیدا کردہ ہوتا ہے، باقی تھوڑی بہت تکلیفیں جو واقعی ہوتی ہیں، سو اے عزیز! اگر یہ علم صحیح قائم ہوجائے کہ یہ کس کی راہ میں پیش آرہی ہیں تو تمام تکلیف آرام اور درد راحت سے تبدیل ہوجائے، ہر گمراہی کی بنیاد انسان کے اسی جذبہ پر ہے کہ وہ اپنی مرضی کو سب پر حکمراں دیکھنا چاہتا ہے، اسلام اسی باطل پرستی کی تصحیح کے لیے ہے، اسلام کے معنی اپنی مرضی کو پیدا کرنے والے کی مرضی کے محکوم کردینے کے ہیں، اور فریضہ حج اسی مقصد کی تکمیل کا ایک آلہ ہے۔ پھر اگر راستہ میں کچھ امور ناخوشگوار پیش آئیں تو ان پر بےصبری کا اظہار کتنی بڑی محرومی و بدنصیبی ہے! دنیا میں کسی کے ساتھ ذرا سا دل کا لگاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر دیکھئے کہ اس کی گلی کا ہر کانٹا کس طرح پھول بن جاتا ہے، پس وہ جو سب محبوبوں کا محبوب ہے اور سب کی محبتوں کا تاجدار ہے، اگر اس کی راہ میں کوئی بات خلاف مزاج یا خلافِ توقع پیش آئے تو وہ بات ہی ایسی کیا ہوسکتی ہے جس کے چرچے زبانوں پر لائے جائیں اور جس کے تذکرے اخبارات کے کالموں اور سفر نامہ کے صفحات میں پھیلائے جائیں۔

ناقل: محمد بشارت نواز

https://telegram.me/ilmokitab/