آخری مسافر ۔ ڈاکٹر علی ملپا  صاحب علیہ الرحمۃ ۔ قسط 03۔۔۔۔ تحریر  : عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

08:26PM Tue 27 Feb, 2018

بھٹکل میں مستقل قیام کے فیصلے اور دواخانہ کے آغاز کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بھر پور طور پر یہاں کی سماجی اور اجتماعی زندگی میں حصہ لیا ، وہ یہاں کے مرکزی اداروں ، مجلس اصلا ح وتنظیم ، انجمن حامی مسلمین ، جماعت المسلمین میں متحرک رہے ، میونسپل کونسل میں بھی رہے ، ان اداروں میں وہ مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے، لہذا انہیں معاشرے کی بیماریوں اور خامیوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ جاننے اور سمجھنے کا موقعہ ملا  ا ور وہ نہ صرف جسم کے  بلکہ روحانی امراض کے بھی ماہر معالج بن گئے ۔آخر الذکر میدان میں مہارت کی تکمیل کے لئے آپ نے اس دور کے عظیم علماء اور صلحاء سے ربط قائم کیا ، اور ان سے مراسلت کا سلسلہ تا دم آخر جاری رہا ۔

بھٹکل میں ۱۹۵۰ء کی دہائی   ایک لحاظ سے  تاریک ترین دور شمار ہوتی ہے ۔ اس دوران جماعتی اختلاف کے نام پر قوم نے انا اور جہالت کا ننگا ناچ دیکھا ، اور قوم کے جسم سے یہ زہر ناسور بن کر رسنے لگا ۔ جب محلہ میں آگ لگے تو سب افراد یہ سوچ کر گھر میں بیٹھ نہیں جاتے کہ ابھی  میرے گھر تک آنچ  نہیں پہنچی ہے  ، اسے بجھانے کی فکر لے کر کئی ایک کھڑے بھی ہوجاتے ہیں  ، بھٹکل میں صدیوں تک جو مسلم معاشرہ  فروغ پایا ، اس سے اجتماعی ذہن پروان پاتا رہا، اور جماعتی زندگی سے وابستگی اور محکمہ شرعیہ میں اپنے تنازعات لے جانا ان کی شناخت ٹہرا، تو یہاں جب بھی وقتا فوقتا تنزل کی علامتیں رونما ہوئیں تو اس پر روک لگانے کے لئے فکر مند مخلص افراد آگے بڑھے ۔ اور قوم کی اجتماعی بیماریوں کے علاج کی سبیل ڈھونڈنے لگ گئے ۔

بیسویں صدی کے آغاز میں جب بھٹکل کامسلم معاشرہ زوال پذیرتھا ، تو اس کا مداوا علم دین میں تلاش کیا گیا اور  ۱۹۱۱ء میں یہاں پر ایک دینی مدرسہ ستارہ حسنات  کی  بنیاد  پڑی ،  جو بعد میں قوم نوزائیدہ تعلیمی ادارے انجمن حامی مسلمین میں  ضم ہوگیا ، انجمن کی تاسیس ہی سے اس میں دینی مزاج کا جو غلبہ رہا ہے ، تو اس میں اس مدرسے کی بھی برکات اور اثرات شامل رہے ہیں ۔

انجمن نے اپنے ابتدائی  دور میں بھٹکل میں تجدیدی کارنامہ انجام دیا  تھا، لیکن چالیس سال بعد اس کے اثرات ماند پڑنے لگے،  تو انجمن ہی سے نکلے ہوئے فرزندان نے بھٹکل میں رونما ہونے والے فکری و عملی انتشار کا علاج ڈھونڈنا شروع کیا ،وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بھٹکل کے مسلم معاشرتی انحطاط کی بڑی وجہ یہاں پر مردوں اور عورتوں کے لئے خالص دینی تعلیم کے لئے کسی  باقاعدہ دارالعلوم کا نہ ہوناہے ، اور یہاں اسلامی لٹریچرکی وسیع پیمانے پر  فروغ کی ضرورت ہے ،اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اس  زمانے میں یہاں دینی تعلیم کا کوئی نظم ہی نہیں تھا ،  اس دور میں چیف قاضی جماعت المسلمین مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی مرحوم اور مولانا قاضی محمد اسماعیل اکرمی مرحوم کے یہاں دریائے گنگولی سے دریائے شراوتی کے درمیان واقع گنگولی ، بسرور، کنڈلور، بیندور، شیرور ، مرڈیشور ، منکی ، ولکی وغیرہ علاقوں میں بسنے والوں کے لئے محکمہ قضاء اور عائلی مسائل کے حل کی تربیت  پاکر افراد اپنے اپنے  علاقوں میں جاکر لوگوں کی دینی رہنمائی کرتے تھے ، قاضی شریف  اکرمی مرحوم نے تو جامع مسجد ممبئی میں کوکن کے علاقوں میں بسنے والے مرد  اور خواتین کی تربیت کی تھی ۔ قاضی محلہ میں مولانا قاضی محمد اسماعیل اکرمی مرحوم محدود پیمانے پر ہی سہی ایک دینی  مدرسہ صالحہ چلارہے تھے ۔ لیکن پچاس کی دہائی میں  جس چنگاری نے بھڑکتے شعلوں میں تبدیل ہو کر صدیوں سے قائم وقار ، عزت اور بھرم کو خاکستر کیا ، اور جاہلیت اور انا نے معاشرے میں ڈیرہ جمالیا ، اس دور میں معاشرہ جس رفتار سے اختلاف اور بگاڑ کی طرف جارہا تھا ، اس کی اصلاح اور فہم دین کو قوم کے ہر فرد تک پہنچانے کے لئے یہ سب کوششیں ناکافی پڑ رہی تھیں ۔

اس دور میں بھٹکل کی مسلم معاشرت میں رونما ہونے والی برائیوں کو دینی تعلیم کی کمی اور اس کے ازالے کے لئے جن شخصیات نے سب سے زیادہ فکریں کیں تھیں، ان میں سے کئی مخلصین کے نام سامنے آتے ہیں ، جن کا نام بہ  نام تذکرہ  ممکن نہیں ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹکل میں مقیم  ان فکر مند شخصیات میں ڈاکٹر علی ملپا صاحب کی شخصیت سرفہرست ہے ، ڈاکٹر صاحب نے بھٹکل میں رہ کر جس طرح سوچا، غور کیا ، اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جو نقشہ تیار کیا ، اور اس کے لئے ہم  جلیس ساتھیوں کو جس طرح تیار کیا اس کی تفصیلات  جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی روداد اجلاس اول میں محفوظ ہیں ۔ اور یہ جامعہ کی انتظامیہ اور شوری سے منظور شدہ ایک دستاویز ہے ، جس پر اضافہ  کی گنجائش کم ہی ہے ۔

 بھٹکل کی مقیم جن شخصیات نے  ڈاکٹر صاحب کی فکر کو آگے بڑھانے میں ساتھ دیا اور آپ کے شانہ بہ شانہ رہے ان میں  جناب عثمان حسن جوباپو مرحوم  کا بھی نام آتا ہے  ، جو ممبئی سے عربی ادب میں یم اے کرکے انجمن ہائی اسکول میں تدریسی خدمات سے وابست ہوئے تھے ، مولانا نجیب اشرف ندوی کے شاگرد تھے ، اور ممبئی کے قیام میں حضرت شاہ وصی اللہ فتحپوری علیہ الرحمۃ کے حلقہ ارادات میں شامل  رہے تھے ، آپ پرائمری اسکول کی مکمل طور پر گورنمنت میں ہونے کی وجہ سے نونہالان قوم کے مستقبل اور دین سے ان کی وابستگی پر بہت فکر مند تھے، آپ کا خیال تھا کہ نوجوانوں میں ذوق مطالعہ پیدا کرنے اور انہیں تعمیری لٹریچر سے وابستگی پیدا کرنے سے  قوم سے جہالت  دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے ، لہذا آپ نے اسکول کے طلبہ کو دینی اور معیاری کتابوں سے جوڑنے کی بڑی کوششیں کیں۔

ان کے علاوہ ایک اور نام سعدا محمد جفری صاحب کا بھی ہے جنہوں نے مستورات میں دینی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے اپنے گھر میں محدود پیمانے پر مدرسے کا آغاز کیا تھا ، یہ دونوں ڈاکٹر علی ملپا صاحب کے ہم مشرب تھے ، لہذا جب آپ نے بھٹکل میں دینی مدرسے کے قیام کی تحریک شروع کی تو یہ دونوں آپ کے دست راست بنے ، ان کے علاوہ ڈی اے برادران وغیرہ  اورکئی ایک اعیان قوم بھی ہیں ،  جس کی تفصیلات رواد  اجلاس اول میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔

بھٹکل کی اہم شخصیات میں جنہوں نے بھٹکل سے باہر رہ کر  جامعہ کا خواب دیکھا ان میں ایک  اہم نام جناب محی الدین منیری صاحب کا ہے ، جنہیں مولانا عبد الحمید ندوی علیہ الرحمۃ کے اولین دور میں تقریبا دس سال آپ کی شاگردی میں رہنا نصیب ہوا ۔ پھر لکھنو واپسی پر بھی مولانا کی دکان میں آپ کے ماتحت رہ کر تعاون کرتے رہے ۔ آزادی کے بعد مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ کی قیادت میں ممبئی میں منعقدہ دینی تعلیمی کنونشن  کے کنوینر رہے اور اس دوران  البلاغ ممبئی کا تاریخی تعلیمی نمبر مرتب کیا ،پچاس کی دہائی کے وسط ہی میں بھٹکل میں ایک جامعہ کے قیام کا خواب دیکھا ، اور اسے چلانے کے لئے قومی افراد کی تیاری کی عملی تدبیر یں شروع کیں ،  اپنے اس خواب کو تعبیر کا رنگ دینے کے لئے  بھٹکل کے اولین حافظ اور فاضل ندوہ مولانا محمد اقبال موٹیا مرحوم کی تعلیم تربیت  اپنی نگرانی میں کی، اور انہی ایام میں گنگولی کے مولانامحمد تقی ندوی  مرحوم ، مولوی عبدالمجید ملپاندوی  ، اور مولانا محمد اقبال ملا  ندوی جیسے افراد کو دینی تعلیم مکمل کرنے کے لئے ندوۃ العلماء لکھنو جانے کی ترغیب دی اور اس کے لئے سہولتیں فراہم کرنے کا یقین دلایا۔