حج کا سفر۔۔۔ جہاز کی روانگی (03)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:53AM Sat 16 Jul, 2022

معلوم ہوا کہ مولانا سید محمد شاہد فاخری ایم ایل سی(یو-پی)ممبرِحج کمیٹی ہمارے جہاز کے امیر الحج بنائے گئے ہیں اور اوپر کیبن نمبر ایک ان کو ملا ہے، اپنے تہ خانے سے نکل کر ان کی تلاش میں گئے تو اور کئی واقف کار بھی ملے، جن میں شیخ ظہور الحسن (سابق سکریٹری محکمہ مال یوپی) لکھنؤ کے کارپوریٹر حاجی غلام حسنین کے بڑے بھائی حاجی غلام اشرف، پھر اپنے درجے والوں میں عارف خیر آبادی عرف ملّا میاں(لکھنؤ) قاری محمد ثاقب(لکھنؤ) محمداصغر علی انصاری(لکھنؤ) حاجی اشتیاق حسین(کانپور) وغیره۔

 حاجیوں کے جہاز کا یہ بھی قاعدہ ہے کہ اگر گنجایش سے زیادہ مسافر سوار ہوں تو ممنوع جگہوں پر بھی انہیں پڑ رہنے کا موقع مل جاتا ہے، اور یوں بھی حاجیوں کے جہاز پر بے ضابطگی کو عموما نظر انداز کیا جاتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے درجۂ اول کے سامنے والے برآمدے تیسرے درجے کے مسافر وںکی چٹائیوں سے بھر گئے، والدہ، پھوپھو جان اور ممانی کے لئے زنانے اسپتال کے سامنے والے برآمدے میں چٹائیاں بچھادیں اور ہم نے اپنا بچھونا امیر الحج کے کیبن کے سامنے والے برآمدے میں جو نسبتاً خالی تھا بچھالیا، اگر کیبن کلاس کے مسافر معترض نہ ہوں تو ان کے برآمدے میں جہاں ہوا خوری کے لئے کرسیاں پڑی ہوتی ہیں دو ایک مسافر بستر جما سکتے ہیں، شاہد میاں کے معترض ہونے کا سوال ہی کیا تھا، جس قدر ہم خوش تھے ان کی معیت پر اس سے زیادہ وہ اپنی خوشی ظاہر کر رہے تھے، وہ بھی پہلی ہی بار حج کو جا رہے تھے، اس پہلو سے ہم دونوں ایک ہی کشتی کے مسافر تھے، اسی قطار میں حاجی غلام اشرف کے دو کیبن تھے، اور ایک کیبن میں مسٹر مناظر الحسن ڈویژنل مجسٹریٹ (پٹنہ) اپنی والدہ کے ہمراہ تھے، ان سے بھی تعارف میں دیر نہیں لگی، اس طرح اس قطار کا پورا بر آمدہ جاننے والوں ہی کا تھا، ہمارے بستر لگانے پر کسی کو شکایت نہیں ہوئی، پورا سفر وہیں رہ کر طے کیا، سب سے بڑی سہولت باتھ روم کی ہاتھ آ گئی، ہر کیبن سے ایک باتھ روم بھی وابستہ ہوتا ہے، کیبن والا اپنا ہو تو پھر کیا زحمت ہوسکتی ہے۔

 5بجے سہ پہر کو جہاز نے لنگر اٹھایا، دیکھتے دیکھتے بمبئی ہم سے دور ہو گیا اور ہم مغرب کے وقت بیچ سمندر میں تھے جہاں سے بمبئی کی صرف روشنیاں نظر پڑتی تھیں، تھوڑی دیر بعد وہ بھی اوجھل ہوگئیں۔ اب صحیح معنی میں وطن سے دور ہو چکے تھے، اور وادئ غربت میں چل رہے تھے کسی شاعر نے کہا تھا؂

   ہم نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا

   دور تک یاد وطن آ ئی تھی سمجھانے کو

 ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی سمجھانے و بجھانے والا دور نزدیک کہیں نظر نہیں آیا، شاید وادئ غربت میں یاد وطن سمجھانے آتی ہو، سمندر میں اس کی ضرورت نہ سمجھتی ہو۔

  اصل یہ ہے کہ خالق اوطان اور مالک بحر و بر کے گھر کی طرف جانے والے اگر اپنے اپنے گھروندوں کی یاد سے چمٹے رہے تو پھر مالک کا حق کیا ادا کیا انہوں نے۔؟

   جہاز کو چلے بمشکل آدھ گھنٹہ ہوا ہوگا کہ مسافروں کو دورانِ سر محسوس ہونے لگا، تجربہ کاروں کی ہدایت کے مطابق بیشتر مسافر اپنے اپنے بچھونوں پر دراز ہوگئے، کچھ تو لیٹتے ہی سوگئے اور کچھ دوران سر کے آگے والی منزل متلی کا انتظا رکرتے رہے۔

   ”اگر یہ کیجئے تو متلی نہیں ہوگی“ وہ کھالیجئے تو قے نہیں ہوگی“ ہر ایک اپنا تجربہ بلا معاوضہ پیش کر رہا تھا، مگر تجربے سے ہر تجربہ محدود نظر آیا، ایک کے لئے جو کامیاب تجربہ تھا دوسرے کے لئے وہ بالکل ناقص ثابت ہوا، سچ یہ ہے کہ کوئی عالم گیر تجربہ اس سلسلے میں اب تک سامنے نہیں آیا۔

۹۵  فی صدی حاجی دورانِ سر میں مبتلا نظر آئے، ان میں ہمارے امیر الحج بھی تھے اور ۲۰، ۲۵ فی صدی متلی بھی کر رہے تھے، چاروں طرف یہ عالم دیکھ کر محسوس ہونے لگا کہ ہمارا سر بھی چکرا رہا ہے، لیکن یہ صرف واہمہ تھا، ان پانچ فیصدی مسافروں میں ایک ہم بھی تھے کہ سوائے وہم کے ہمارے اوپر سمندری بیماری کا کوئی اثر نہیں ہوا، متین میاں، امی، پھوپھو جان سب اس بیماری سے پریشان ساتھ کی دوائیں اور پھر ڈاکٹر کی دی ہوئی دوائیں استعمال کر رہی تھیں، اچھوں کا فرض ہوجاتا ہے کہ بیماروں کی مدد کریں، متلی، قے ہم سے دیکھی نہیں جاتی، اس لئے بیماروں کی مدد سے ہم بھی قاصر تھے، اس طرح ہم بھی باوجود اچھے خاصے ہونے کے بستر پہ دراز پڑے رہے، پہلی رات گزار کر صبح آئی تو اکثروں کی طبیعتیں بحال تھیں، یعنی دوران سر ختم ہو چکا تھا، لیکن جن کو متلی شروع ہو چکی تھی وہ دو ایک دن اس میں مبتلا رہے۔

     متین میاں سے جب صبح چائے کے لئے پوچھا تو انہوں نے اطلاع دی کہ وہ روزہ سے ہیں، ”یہ کیا کیا جناب ! دورانِ سر اور متلی کا علاج ایک ہی بتایا جاتا ہے کہ معدہ خالی نہ ہو، آپ نے روزہ رکھ کر بیماری کو خود دعوت دی ہے، خدا جانے نذر کا روزہ تھا یا نفل کا بہرحال انہوں نے توڑا نہیں اور شوقِ عبادت میں بد احتیاطی کا نتیجہ دن بھر انہوں نے بھگتا، روزہ کھول کر جب پیٹ میں کچھ پہونچا تب ان کی طبیعت چاق ہوئی۔

 پیش کش: حذیفہ رحمانی