آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -02- سفر زندگی کا آغاز ۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری


اپنی ڈائری میں میرے والد مرحوم کی تحریر کے مطابق میں نے مورخہ ۱۸ ربیع الاول ۱۳۳۸ھ اس دنیا میں آنکھیں کھولیں ، اسکول میں یہ تاریخ ۱۷مارچ ۱۹۱۹ء لکھی ہوئی ہے۔
ابتداء میں ہمارے گھریلو معاشی حالات تنگ دستی کا شکار تھے ۔ غربت ہم پر سایہ فگن تھی ۔ حالات ایسے نہ تھے کہ باقاعدگی سے اسکول میں تعلیم جاری رکھ سکتا ، ابھی میں عمر کے دسویں سال میں تھا کہ تلاش معاش کے لئے دوتین سال پڑھ کر مجھے بمبئی کا سفر کرناپڑا، طبیعت میں بڑی چنچلاہٹ تھی ، یکسو ہوکر کام کرنے کی عادت نہ تھی ، لہذا ایک جگہ جم کر نوکری نہ کرسکا، چند دن ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا۔
زند گی میں پہلی بار میں نے بمبئی کولسہ محلہ میں محمد غوث شنگیری مرحوم کے ہوٹل میں بیرے کی حیثیت سے نوکری کی۔ یہاں پر تقریباً آٹھ ماہ تک خدمت کرتارہا، اس ہوٹل کے سامنے بمبئی کے ایک مشہور صاحبِثروت تاجر سلیمان قاسم مٹھا کا تجارتی مرکز چارمنزلہ عالیشان عمارت میں واقع تھا۔ اس زمانے میں اس میں لفٹ لگی ہوئی تھی ۔ اب تو یہ عام ہوگئی ہے لیکن اس وقت خال خال نظر آتی تھی۔ تحریکِ خلافت کے مولانا شوکت علی ؒ بڑی باقاعدگی سے صبح دس بجے اپنی کھلی کار میں یہاں پر تشریف لاتے تھے۔ وہ مجھ سے بڑی محبت سے پیش آتے تھے ، جب بھی ان کی گاڑی آتی، اچھل کر میں اس میں بیٹھ جاتا ، مولانا کو جب بھی چائے یالیمونیڈ کی خواہش ہوتی میرے ذریعہ طلب فرماتے۔ بڑی شخصیات میں میری پہلی ملاقات مولانا شوکت علی ؒ ہی سے ہوئی۔
مولانا کے ڈرائیور کا نام چاند تھا۔ وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ میری بھٹکل واپسی کے وقت آپ نے مجھے ایک شیروانی عنایت کی تھی جسے میں اپنے ہمجولیوں میں بڑی شان سے پہنتا ، یہ کبھی دوستوں پر رعب جمانے کے کام آتی تو کبھی ہنسی مذاق کا بہانہ بنتی ۔
بھٹکل لوٹنے کے ڈیڑھ برس بعد دوبارہ سیکھنے کا شوق دامن گیر ہوا۔ لہذا اسکول میں داخلہ لے لیا۔ لیکن گھر میں آمدنی کی صورت حال خوش کن نہ تھی ، ہمارے ایک بڑے بھائی بمبئی سے آٹھ دس روپیہ کماکر بھیجا کرتے تھے ۔ دوبارہ بمبئی جاکر کمانے کی ضرورت پیش آئی ، وہی بیرے کا کام، وہی بے ڈھب زندگی، کوئی بہتر ملازمت نہ مل سکی ۔ اس زمانے میں پہلوان ابو محمد صاحب کی کھولی ہواکرتی تھی ، انہی کے ساتھ میرا رہنا ہوتا، وہ بڑی محبت کا سلوک کرتے ۔ بمبئی سے ڈیڑھ سال بعد دوبارہ واپسی ہوئی تعلیم کا شوق پھر چرایا۔
اس زمانے میں اردو اسکولوں کے اساتذہ آج کی طرح کے نہیں ہوا کرتے تھے ، ان کے دلوں میں بچوں سے ہمدردی کا جذبہ موجزن تھا، ان کے مستقبل کو سنوارنے کی فکر انہیں لگی رہتی ، سکھانے میں وہ بڑی محنت کرتے ، ہونہار بچوں کی جستجو میں وہ رہتے ،اسکول میں کار وار، سوتگیری کے ایک استاد بڈھن ماسٹر ہوا کرتے تھے ، ان کامکان ہمارے قریب مومن محلہ میں ہی تھا۔ ان کا ہمارے گھر آنا جانا تھا ، انہیں مجھے سے لگاؤ تھا ، والدین سے بات چیت کرکے انہوںنے پھرمیرا داخلہ اسکول میں کروادیا۔ یہ زمانہ سن ۳۱!۱۹۳۲ء کا ہے، جب مولاناعبدالحمید ندوی کا انجمن میں نیا نیا تقرر ہوا تھا ، ماسٹر صاحب کے مولانا ندوی سے گہرے تعلقات تھے ، وہ انہیں میرے حالات سے باخبر رکھتے ، اور میری ان سے تعریف کیا کرتے ، غالباً اس وقت میرا داخلہ اردو تیسری میں ہوا۔
داخلہ کے بعد ماسٹر صاحب نے مجھے ہدایت کی کہ ایک ساتھ دوامتحان پاس کروں۔ ٹھیک طورپر یاد نہیں ،اپنے شعبہ سے اجازت لے کر تیسری اور چوتھی کا یاچوتھی اور پانچویں کا امتحان ایک ساتھ دلوایا۔ جب میں نے امتحان دیا تو آپ نے مولانا ندوی اور دوسرے احباب کو سمجھایا کہ یہ لڑکا ہونہار ہے لیکن بار بار اسکول چھوڑ کر بھاگ جاتاہے۔ اس مرتبہ کسی صورت اسے روک دیا جائے۔ آپ کے ساتھ ایک اور مدرس یوشع صاحب نے بھی میری تعلیم میں بڑی دلچسپی لی ، بالآخر انجمن کی پانچویں کلاس میں میر ا داخلہ ہوگیا اور میری آئندہ تعلیم کا سلسلہ چل پڑا ، جس کے بعد بڑی محنت کرکے انگریزی کی چوتھی جماعت تک تعلیم مکمل کرلی ۔ اس زمانے کے ساتھیوںمیں کوڑاسائب اور احمد حسین دامودی کانام اب بھی ذہن میں تازہ ہے۔
اس زمانے میں انجمن اسکول کے صدر مدرس مرحوم آئی ایس صدیق ہوا کرتے تھے وہ ہمارے لئے بڑی شخصیت کے حامل تھے ، ہماری جماعتوں میں آکر طلبہ کی جانچ وغیرہ کیا کرتے تھے، ان کی بھی مجھ پر نظر عنایت تھی۔