آخری مسافر ۔۔۔ ڈاکٹر علی ملپا صاحب علیہ الرحمۃ ۔ قسط 02۔۔۔ : تحریر : عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

07:48PM Sun 24 Sep, 2017

 ڈاکٹر صاحب کا جنم شوکت علی اسٹریٹ میں اپنے والد ماجد کے رہائشی گھر میں ہوا تھا، پھر یہاں سے آپ تکیہ محلہ میں کاک محی الدینا ہاؤس میں منتقل ہوئے ، ان ایام میں آپ کے بڑے بھائی محی الدین باپصاحب مرحوم نے نوائط کالونی میں تن٘ظیم روڈ پر وہ مکان لیا جو آج کل بجواڑہ ہاوس کے نام سے جانا جاتا ہے۔لیکن چونکہ اس وقت نوائط کالونی شہر سے باہر ایک ویرانہ تھی ، اور یہ نو زائیدہ کالونی میںاکلوتاپختہ مکان تھا، لہذا گھر کی مستورات کو یہاں کی تنہائی راس نہ آئی اور بالآخر باپصاحب مرحوم کو شہر کی آبادی میں واپس لوٹنے پر مجبور ہونا پڑا ۔جس کے بعد ڈاکٹر صاحب شاہدلی مسجد کے پڑوس میں پیشمام ہاؤس میں رہنے لگے ۔ اور ۱۵! اپریل ۱۹۵۴ء کی تاریخ کو قریب ہی تکیہ محلہ کے مرکز میں شیخ صالح تھائیکیا پا علیہ الرحمہ کی خانقاہ اور مزار کے نکڑ پر اپنا دواخانہ کھول دیا ،ہم اس تاریخ کو بھٹکل کی تاریخ کا ایک سنگ میل کہ سکتے ہیں ۔ آپ ۱۹۶۳ء میں شمس الدین روڈ ، نوائط کالونی پر طیبہ منزل میں منتقل ہوئے ، جہاں سے آپ کا جنازہ اٹھا۔ جس زمانے میں آپ کاک محی الدینا ہاوس اور اپنے بھائی کے مکان پر نوائط کالونی میں رہائش پذیرتھے تو اس وقت تک اس ناچیز کا دنیا میں وجود بھی نہیں ہوا تھا ۔ لیکن شاہدلی مسجد کے قریب آپ کی سکونت سن شعور کی بات ہے ،کیونکہ ہمار ی پیدائش بھی تکیہ محلہ کی ہے ، اس حیثیت سے شاید اس دعوے میں مبالغہ نہ ہوکہ آنکھیں کھلتے ہی اپنے گھروالوں کے ساتھ ساتھ جس شخصیت پر بچپن میں نظر پڑی ، تووہ ڈاکٹر صاحب ہی کی شخصیت تھی ، ڈاکٹر صاحب کو بھی یہ بات اچھی طرح یاد تھی ، لہذا ۱۹۹۲ء میں جب آپ کی سفر حج سے واپسی دبی کے راستے سے ہوئی ، اور اس دوران یہاں ایک طویل عرصے بعدکچھ روز ساتھ رہنے کا موقعہ ملا، تو باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ تم منیری منیر ی کیا کہتے ہوں ، منیری نے تو تمہیں سن شعور میں دیکھا تھا ، لیکن جب اس دنیا میں تم نے قدم رکھا اس وقت سے مجھے دیکھنا شروع کیا تھا ، ایک لحاظ سے ان کی یہ بات درست تھی ، کیونکہ ایک تو منیری صاحب کا اس زمانے میں زیادہ تر وقت ممبئی میں گذرتا تھا، اور آمد و رفت کے وسائل کی قلت کی وجہ سے نوائط کالونی ایک طرح سے بھٹکل سے باہر ایک دوسری ہی آبادی لگتی تھی ، اور یہاں آنا جانا چھوٹے موٹے سفر سے کچھ کم نہیں تھا۔واضح رہے کہ الحاج محی الدین منیری مرحوم میرے تایا تھے ، ان کے اس ناچیز پر بڑے احسانات رہے ہیں جن کے تذکرے کا یہ موقعہ نہیں ہے ۔ ایک عظیم مفکر نے لکھا ہے کہ صحابہ کے دور میں جہاں پر اسلامی مملکت کی سرحدیں ختم ہوتی تھیں ، وہ علاقے گمراہ عقیدوں کے گڑھ بن گئے ، اس کی مثال مشرقی سرحد پر سندھ اور گجرات ، شمال میں لبنان ، شمال مشرق میں ایران کا علاقہ آلموت اور مغرب میں مراکش کے بعد کا علاقہ پیش کیا جاسکتا ہے ، یہ وہ علاقے ہیں جہاں اسماعیلی باطنی اور خارجی فرقوں کی جڑیں مضبوط ہوئیں ، دیکھا جائے تو چھوٹے پیمانے پر جہاں شہر اور قصبات ختم ہوتے ہیں وہاں بھی پسماندگی غربت اور جہالت کا راج ہوتا ہے ، آج کے دور میں اگر شہروں اور قصبوں کی مرکزی آبادی جہاں ختم ہوتی ہیں ، ان علاقوں پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیں ، تو واضح طور پر محسوس ہوگا کہ عموما یہ معاشرتی اور اخلاقی بیماریوں کے گڑھ ہواکرتے ہیں ، یہاں بھی یہ تینوں عناصر حاوی ہوتے ہیں ۔ ذرہ آپ آج کے بھٹکل پر نظردوڑائیں اور اپنے دل سے پوچھیں ، کیا آپ کا جواب اس سے مختلف ہوگا؟ اس کا دوسرا اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہی علاقے سرحد کی حیثیت رکھتے ہیں ، سرحد محفوظ تو پورا علاقہ محفوظ ، اگر سرحد غیر محفوظ تو پورا علاقہ غیر محفوظ ۔ لہذا جو شخص ان علاقوں میں اپنی جدو جہد مرکوز کرے ، اپنی کوششوں کا انہیں محور بنائے ، حقیقی معنوں میں قوم کا اصل محافظ وہی ہوا کرتا ہے ، ان علاقوں میںدی جانے والی قربانی کی شہرت نہیں ہوتی لیکن اپنی قدر و قیمت میں یہ انمول ہوا کرتی ہے ۔ ڈاکٹر علی ملپا مرحوم کی زندگی پر بہت کچھ لکھا جائے گا ، بہہت کچھ ان کی تعریفوں میں کہا جائے گا ، اس مدح و ثنا خوانی کے وہ واقعی حقداربھی ہونگے، لیکن ہماری ناقص رائے میں ان کی دعوتی اور اصلاحی زندگی کا روشن ترین پہلو یہی ہے کہ انہوں نے اپنی جدو جہد کے لئے اس وقت بھٹکل کے سرحد ی علاقے کو منتخب کیا ، اور جب تک چلنے پھرنے کے قابل رہے ، انہوں نے اس علاقے کو فراموش نہیں کیا ۔ تکیہ محلہ اور شاہدلی اسٹریٹ اور ان کے قرب وجوارنے آج بھی کوئی ایسی بڑی ترقی نہیں کی ہے ، لیکن نصف صدی پیشتر ہمارے بچپن میں ، اور اس سے نصف صدی پیشتر ڈاکٹر صاحب نے جب آنکھ کھولی تھی اس وقت یہ علاقہ بھٹکل کے آخری کنارے پر واقع تھا ، جہاں تکیہ محلہ ختم ہوتا ہے، وہاں سے قبرستان کی حد یں شروع ہوتی تھی ،آج ہمیں یہ جو تین قبرستان الگ الگ نظر آتے ہیں اور درمیان میں انہیں جدا کرنے والی پتلی پتلی گلیاں گزرتی ہیں ، یہ بعد کے زمانے میں بنی ہوئی ہیں ، ورنہ تکیہ محلے کے پچھواڑ ے میں اور دائیں جانب قاضی محلے تک ایک ہی سالم قبرستان پھیلا ہوا تھا ، اور کوئی پینتالیس سال پہلے تک اس پر چہار دیواری بھی کھڑی نہیں ہوئی تھی ۔ قبرستان کے پیچھے غوثیہ محلہ تھا، اس کی وضع قطع بھٹکل کے پرانے محلوں سے قدرے مختلف ہونے ، اورپرانے محلوں کے برعکس زیادہ تر مکانات جدا جد ہونے کی وجہ سے گمان گزرتا ہے کہ غوثیہ مسجد کے آس پاس شاید دو ایک خاندان قدیم زمانے سے بسے چلے آرہے ہونگے ، ورنہ محلے کا زیادہ تر حصہ بعد میں آباد ہوا ہے ۔ بڑھے بوڑھوں سے سنا ہے کہ قبرستان کو تقسیم کرنے والی گلیا ں جب بنائی جارہی تھیں تو یہاں بہت سی قبریں پائی گئی تھیں ۔ ہم نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ غوثیہ محلہ کے آخری سرے پر واقع ایرا نہر بھٹکل کے مسلم علاقے کو غیر مسلم علاقے سے جدا کرتی تھی ،نہر کے دوسر ے کنارے سے غیرمسلم علاقہ شروع ہوتا تھا ، جس کے آخر میں ساحل سمندر پر نستار کا علاقہ پڑتا تھا ۔ ان علاقوں میں ہندو اور عیسائی مذہبوں کو ماننے والے آباد تھے ، بھٹکل کے مزدور ، معمار، بڑھئی ، مچھلی فروش ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، اور عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھر وں کو تراشنے والے عیسائی مذہب سے ، مسلمان زیادہ تر نوائط برادری سے تعلق رکھتے تھے جوتلاش معاش کے لئے باہر دوسرے بڑے شہروں میں جاتے تھے ، اندازا دس پندرہ فیصد ان میں تجارت پیشہ رہے ہونگے ، ورنہ زیادہ تر ان کا ذریعہ معاش ریسٹورنٹ ، کیفٹیریا اور کپڑوں کی دکانوں میں ملازمت ہی پر منحصر تھا۔چوتنی میں کدرے برپا سے جو سڑک اب منڈلی اور نستار سے ہوتے ہوئے ساحل سمندر کو جاتی ہے۔ اس سڑک کو تعمیر ہوئے کوئی تیس پینتیس سال ہی گزرے ہونگے ، ورنہ نہر پارکرنے کے لئے اس پر بنا ہوا تنگ پل جس پر بیل گاڑی کا بھی گزر نہیں ہوسکتا تھا ، قصبے میں داخل ہونے کی واحد گزرگاہ تھی ، زیادہ ترغیر مسلم مزدور اسی راستے تکیہ محلہ میں داخل ہوتے ، اور شاہدلی اسٹریٹ سے گزرتے ہوئے ، شہر کے پختہ مین روڈ تک پہنچتے ، جہاں سے وہ قصبے میں داخل ہوتے ، یا تلاش معاش میں اڑوس پڑوس کے علاقے میں جانے کے لئے سواریاں پاتے ، شاہد لی اسٹریٹ کا آخری سرا جہاں پر فاروقی مسجد کو تعمیر ہوئے نصف صدی پورا ہونے میں ابھی چند مہینے رہ گئے ہیں ، اور اب مسجد کی نسبت سے فاروقی محلہ مشہور ہواہے ، ہماری یادداشت سے قبل چماروں کا محلہ تھا ، اور اسی نسبت سے چامبراسائیں مشہور تھا ، ہمارے بچپن میں یہاں سے چمار نکل کر مین روڈ کے اس پار وھنڈی کیری میں آباد ہوگئے تھے ، اور وھنڈی کیری پہلے کیا تھی ؟ چھوڑئے ان باتوں کو ، میں بھی آپ کو کن بھول بھلیوں میں لے آیا ۔ ایسی جگہ جہاں غربت عام ہو ، بے روزگاری کا بھی بسیرا ہو، تھکے ماندے مزدور خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں شام کو تھکے ماندے تاڑی پی کر گھر لوٹ رہے ہوں ، تو روزانہ شام گئے کھچ کھچ ، گالی گلوچ ، لڑائی جھگڑے کا ماحول ہو نے لگے تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی ، یہی وجہ ہے کہ سرکاری رجسٹر میں اب بھی اس محلہ کا نام بوبن کیری ، چیخ و پکار والا محلہ ، بوب چیخ و پکار ، کیری محلہ رائج ہے ۔ اس فضا میں بڑھنے والے کیا بچے کیا جوان آخرماحول کا اثر کیوں کر قبول نہیں کرتے ؟ پچاس کی دہائی میں انجمن اور تنظیم کے قیام اور بھٹکل میں تعلیم اور اصلاح معاشرہ کی تحریک شروع ہوئے تین دہے گزررہے تھے ، اب ملک ایک ہیجانی دور میں داخل ہورہا تھا ، ائی یس صدیق صاحب یہاں کی اصلاحی تحریک کے سرخیل تھے، ۱۹۳۴ء کے الیکشن میں کامیاب ہو کر ممبئی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد ان کی گرفت انجمن پر کمزور ہوگئی تھی ،آپ کی جگہ پر صدر مدرسی ایک غیر مسلم مسٹر نائینن کو سونپی گئی تھی ۔ کچھ سال بعد ۱۹۴۶ء میں آپ اللہ کو پیارے ہوگئے ، ۱۹۵۲ء میں آپ کے رفیق کار یم یم صدیق بھی یہ دنیا چھوڑ گئے ، مخلصین سے قصبہ خالی نہیں تھا ، لیکن اصلاح معاشرہ کی رفتا ردھیمی پڑ گئی تھی ۔ مولانا عبد الحمید ندوی اور مولانا قاضی شریف محی اکرمی جیسے اساتذہ بھی اس وقت تک بھٹکل سے نقل مکانی کرچکے تھے ۔اور معاشرے سے جہالت اور دین سے ناواقفیت کے پھوڑے سے پیپ رس رسنا شروع ہوگیا تھا ، ایسا نہیں تھا کہ قصبہ نیک لوگوں سے خالی ہوگیا تھا ، نہیں ، ایسا ہوتا تو اللہ کا عذاب آنے میں کیا دیر لگتی ؟ ایسا نہیں تھا کہ ماضی میں سبھی کچھ اچھا ہی تھا ، بلکہ بات یہ تھی کہ اس معاشرے میں چند اچھائیاں تھی جیسے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد تھے ، دکھ درد میں کام آتے تھے ،آنکھون کا پانی ابھی مرا نہیں تھا، چھوٹوں کے دلوں میں بڑوں کا ادب پایا جاتا تھا ، جب کہ بڑے آج کے مقابلے زیادہ سخت مزاج واقع ہوئے تھے ، معاشرے سے مٹنے والی یہ قدریں ہمیں اب یاد آتی ہیں تو ایک خلا سا محسوس ہونے لگتاہے ، اس معاشرے میں سبھی لوگ خراب واقع نہیں ہوئے تھے ، لیکن اس معاشرے کے بھی چند تاریک پہلو تھے ، ڈاکٹر صاحب بتاتے تھے کہ ان کے لڑکپن میں تکیہ محلے میں شراب کی بھٹی تھی جس میں شراب بنتی تھی ، اس کے مالک ایک مسلمان تھے ، محلے کے لوگوں نے انہیں یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا ، اور انہیں غیر مسلمانوں کا نام دے دیا ، یہ تو بہت پرانی باتیں ہیں ، ہم نے بھی سنہ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں جب کہ ملک میں شراب بندی لاگو تھی ، چند ٹکوں کے لئے اسلامی نام رکھنے والوں کو ایسے کام کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جنہیں سوچ کر گھن سی آنے لگتی ہے ۔ یہ کرنے والے سب لوگ نہیں تھے ، لیکن کیا دودھ کو ناپاک کرنے کے لئے پیشاب کا ایک قطرہ کافی نہیں ؟ بچپن میں دیکھی ہوئی کن کن باتوں کو یاد کرکے شرمندگی کے احساس کوتازہ کیا جائے ۔ڈاکٹر صاحب نے بہت سے اچھے کام کئے ، ان کی زندگی تو نیک نامیوںسے بھری پڑی تھی ، لیکن ہماری نظر میں شہرت اور ناموری کی خواہش سے دور ایک ایسے علاقے کو اپنی جدو جہد کے لئے منتخب کرنا جو بجا طور پر بھٹکل کی سرحد پر واقع تھا ، آپ کی بہت بڑی قربانی تھی ،جو آپ کے دوسرے اچھے کاموں سے قدر و قیمت میں کچھ کم نہیں تھی۔ جب ہم کچھ بڑے ہوئے اور راستوں پر چلنے پھرنے لگے تو ہمارے ماموں محمد قاسم حافظ کی انگلی پکڑکر مسجد اور ڈاکٹر صاحب کے دواخانے جانے لگے ، ماموں جان سولہ سترہ سال کی عمر میں آنکھوں سے معذور ہوگئے تھے ، زیادہ تر ڈاکٹر صاحب کا دواخانہ ہی ان کا ٹھکانہ تھا ، جہاں ڈاکٹر صاحب کے پاس آنے جانے والوں سے باتیں کرتے ان کا دن کٹتا ، وہ آپ کے دواخانے آنے سے قبل اسے کھول کر بیٹھتے، کبھی سودا سلف بھی لاتے ، ماموں جان کے توسط سے ہمیں ڈاکٹر صاحب کو بچپن ہی میں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ۔ ڈاکٹر صاحب کا دواخانہ دل اور جسم دونوں کی اصلاح کا مرکز تھا ، اس زمانے میں لوگوں کے پاس ڈاکٹر وںسے دوا دارو کرنے کی سہولت کہاں میسر تھی ؟ ، محلے میں کبھی کوئی ایلوپیتھک ڈاکٹر اپنی سائیکل پر کسی کے گھر آتا تو سارا محلہ فکر مندہو جاتا کہ آخر اتنا کون بیمار پڑا ہے کہ ڈاکٹر صاحب آئے ہیں ، ڈاکٹر ملپا صاحب کو ہمارے گھر والوں سے بڑا لگاؤتھا ، ہماری نانی جان کا وہ بڑا احترام کرتے ، کہتے کہ جوانی میں یہ بیوہ ہوئیں ، لیکن عزت وآبرو کے ساتھ بقیہ زندگی گزاری ، کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ، ڈاکٹر صاحب ہمارے گھر میں کسی کے علاج کا پیسہ نہیں لیتے تھے ، لیکن یہ بات ہمارے گھرانے تک محدود نہیں تھی ، آنے والے زیادہ تر مریضوں کے ساتھ یہی آپ کا رویہ تھا ، چند آنے پیسے دینے کی ان مریضوں میں سکت نہیں ہوتی تھی ، ان کے پاس صرف دعائیں تھیں ، جو دنیا جہاں میں ڈاکٹر صاحب کو سرخرو کرگئیں ۔ممکن ہے آپ کی درازی عمر میں بھی کہیں ان دعاؤں کی کرشمہ سازی کارفرما رہی ہوگی۔ماموں جان کہتے تھے کہ وہ شام کو ڈاکٹر صاحب کے گھر لوٹنے سے پہلے چند مچھلیاں بازار سے لاکر دیتے ، گھر لوٹتے وقت ان کی جیب میں صرف دو ڈھائی روپیئے کی ریزگاری ہوتی ۔ بھرے پرے گھر کے لئے ان کی یہی دن بھر کی آمدنی ہوتی ، آپ کے مقابلے میںدوسرے ڈاکٹر زیادہ سینیر اور تجربہ کار سمجھے جاتے تھے ، لیکن آپ کی دوائی بھی اثر سے خالی نہیں تھی ، ہمارے ماموں کو یکے بعد دیگرے ڈبل ٹائیفائڈ ہوا ، کوئی علاج کارگر ثابت نہیں ہوا، جینے کی امید کم ہی باقی رہ گئی تھی ، کہنے لگے زندگی نہیں رہی تو غم نہیں ، سب علاج بند کردیں ، مجھے صرف ملپا صاحب کی دوائی پر چھوڑ دیں ، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مکمل شفایاب ہوئے اور پھر دس پندرہ سال تک جئے ، دوا کے ساتھ دعاکا اثر شاید اسے ہی کہتے ہیں ۔ پچاس کی دہائی مسلمانان بھٹکل کی تاریخ کے تاریک ادوار میں شمار ہوتی ہے ، اس وقت جہالت اور دین کی روح سے ناواقفیت اپنے عروج کو پہنچ گئی تھی ، جماعتی اختلافات اس حد تک بڑھے کہ بھائی بھائی کادشمن ہوگیا ، باپ بیٹے کا ،شوہر بیوی کا ، ان ایام میں اللہ تعالی نے ڈاکٹر صاحب کو کلکتہ سے بھٹکل انعام خداوندی کی حیثیت سے بھیجا ، یہاں آپ کے ساتھ قوم کا درد رکھنے والے سعدا محمد جفری صاحب ، عثمان حسن ماسٹر جیسے ساتھی مل گئے ، جن کے ساتھ آپ نے اپنا دکھ درد بانٹا ، اور قوم کی بھلائی کے لئے سوچنے اور غور کرنے لگے ۔ یہیں سے آپ نے شاذلی مسجد میں بعد عصر کتابوں کے درس کا سلسلہ شروع کیا ، جس میں آپ ، زیادہ تر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ علیہم کے مجلہ الابقاء ، شاہ وصی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے مجلہ معرفت حق، مولانا منظور نعمانی صاحب کے الفرقان ، اور صدق جدید کی سچی باتیں یا جزاء الاعمال اور دیگر بزرگان دین کے حالات پر کتابوں سے انتخاب پیش کرتے ، اس درس میں شہر کے مختلف طبقات کے لوگ شریک ہوتے ، اس درس کا ایک حلقہ تھا ، اور سننے والوں کا ایک ذوق بن گیا تھا ، ان میں جو شریک ہوتے وہ بڑی پابندی کرتے تھے ، اس درس کے طفیل بھی دینی مجلات اور کتابوں کے مطالعہ کا ذو ق قصبے میں پروان چڑھا،ہمیں بھی اس کا فائدہ ہوا، ماموں جان خود بھی ڈاکٹر صاحب کی صحبت میں رہ کر اور سن سن کر معلومات کا خزانہ بن گئے تھے ، یہاں سے ہمیں بھی نظام کانپور وغیرہ ایسے مجلات کے شمارے لاکر دیتے جو بعد میں کہیں منیری صاحب کے غریب خانے میں بھی ہمیں میسر نہیں آئے ، ماموں جان کی آواز بڑی پیاری تھی ، بہت سو ز سے آذان کہتے ، جلال کڑپوی کی نعت بہت خوب پڑھتے ، لیکن گانے کے طرز پر ، ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر اس کا آہنگ بدل دیا ،اب تو بھٹکل سے چرندے پرندے غائب ہوگئے ہیں ، ہمارے بچپن میں ایک چڑیا ہوتی تھی جسے پٹاچڑی کہا جاتا تھا ، اس کے کالے پروں پر سفید دھاری نظر آتی، شام کے وقت جب کوکتی تو دور دور تک اس کی آواز گونجتی اور کانوں میں رس گھولتی ، کسی راہ گیر سے ٹکر نہ ہوجائے اس لئے ماموں جان ، اس چڑیا کی ہوبہو نقل کرتے ہوئے کوکو کی آواز نکالتے تھے ، اور دور دور سے لوگ جان جاتے تھے کہ قاسم حافظ یہاں سے گذر رہے ہیں ، ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ چڑیا کی نقالی کے بجائے سبحان اللہ سبحان اللہ کا ورد کریں ۔جس کے بعد مرتے دم تک آپ کی زبان پر سبحان اللہ کا ورد جاری رہا ، اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ آپ کی زبان سے یہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں جو اللہ کا ذکرہوا ہے ، ماموں جان کے ساتھ اس اجر میں آپ بھی شریک ہونگے ،نہ جانے کتنے اور لوگوں نے اس طرح آپ سے فیوض و برکات لوٹے ۔ اصلاحی دروس اور اپنا پیٹ کاٹ کر غریبوں مفت علاج معالجہ اپنا اثر دکھا گیا ، اور یہ علاقہ ایسا بن گیا جس سے نسبت کم از کم اب سبکی کی بات نہیں رہی ، کیونکہ اس محلے کی ڈاکٹر صاحب کی طرف بھی نسبت جو ٹہری۔ 2017-09-14