ٹک ٹک دیدم ۔ پارٹ 02 ۔۔۔ از : فرزانہ اعجاز

Bhatkallys

Published in - Other

12:00PM Thu 13 Jul, 2017

شکاگو

جب زرا بہتر ہوے تو آہستہ آہستہ گھر سے نکل کر ٹہلنے جانے لگے ، اکیلے جاتے تھے ، شلوار سوٹ پہنے ہوۓ، لیکن کسی قسم کا خوف نہیں محسوس ہوا ، سونے کا زیور بھی پہنے رہتے ہیں ،راستے مین ملنے والے اجنبی مرد عورت سب ہمیشہ مسکرا کر ’وش‘ کرتے ہیں ،ہم نے کسی کی آنکھوں میں نفرت یا لچر پن کبھی نہیں دیکھا ۔اب چونکہ گرمی شروع ہو گئ ہے ،لوگ زیادہ تر ادھورے کپڑے پہنے گھوما کرتے ہیں لیکن کوئ کسی کی طرف ’میلی یا گندی‘ نظرسے نہیں دیکھتا ۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں بوڑھی عورت یا ننھی سی بچی کوئ بھی محفوظ نہیں رہ گئ،اور دعوی۱ ہے کہ ’ہم عورت کو دیوی ماتنے ہیں ۔

اسی درمیان ہمارا شکاگو کا شناختی کارڈ  ختم ہوچکا تھا ، سوچا کہ اعجاز صاحب کی موجودگی سے یہ بھی فائدہ اٹھا لیں کہ نیا  کارڈ بنوالیں ورنہ بیٹے کو آفس کا کام چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا ،یہاں جو شخص جو بھی نوکری کرتا ہے ، پوری محنت اور ایمانداری سے کرتا ہے ۔ہر روز وقت سے آفس آتا اور وقت پورا کر کے ہی جاتا ہے ۔اس لۓآفس سے ذاتی کام کے لۓ نکلنا ممکن نہیں ہوتا ،

 کارڈ یہاں شکاگو  کے میئرکے آفس میں بنتا ہے ، اعجاز صاحب نے سٹی بس کا پاس بھی بنوا رکھا ہے ،انکو اسکی بھی  تجدید کروانا تھی ،جھما جھم برستی بارش میں ہم لوگ ٹیکسی لیکر ڈاؤن ٹاؤن کی عالی شان عمارت میں قائم سرکاری آفس میں پہنچ گۓ۔ بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی ایک گارڈ نے بتایا کہ آپ غلط بلڈنگ میں آگۓ ہیں ، باہر سخت بارش ہورہی ہے ،آپ لوگ انڈر گراؤنڈ راستے سے دوسری بلڈنگ میں چلے جایۓ‘۔بہت لمبی سرنگ سے دیر تک چلتے ہوۓ ہم لوگ میئر کے آفس میں پہنچے ، جہاں راستے میں ہم نے زندگی میں پہلی بار ’سچ مچ کی عدالتیں دیکھیں جہاں الگ الگ قسم کی عدالتی کارؤایئاں ہو رہی تھیں ، ظاہر ہے عدالتوں میں سب اچھے لوگ تو نہیں آتے ہیں لیکن وہاں بھی ایک نظام تھا جس پر سب لوگ عمل کر رہے تھے ۔اس وقت ہم کو لکھنؤ کی کچہری کا خوفناک علاقہ یاد آگیا ۔خیر،ہمارا تو یہ حال ہے کہ جیسے لوگ غیر ممالک میں خریداری کرتے وقت اپنے ملک کی کرنسی سے وہاں کی کرنسی کا مقابلہ کیا کرتے ہیں ،ہم ہر جگہ کی اچھی باتوں کا موازنہ اپنے ملک سے کرنے لگے ہیں ۔خیر،  ہم نے سوچا تھا کہ کافی دیر لگے گی سرکاری مشینری ویسے ہی سست رفتاری سے کام کرتی ہوگی،   لیکن یہاں بھی ہم غلط ثابت ہوۓ ،کاؤنٹر کلرک نے مسکرا کر بات کی اور ایک ننھا سا فارم دیا نہ کوئ سوال نہ جواب ،بس چونکہ بیٹے نے گھر تبدیل کیا ہے تو پتہ بھی بدلا ہے، شکاگو کے شناختی کارڈ میں پتہ بدلوانا تھا تو تبدیلی کے ثبوت کے طور پر ہم اپنے نام  ڈاک سے آیا ایک لفافہ بھی لے گۓ تھے لیکن کلرک نے محض ہماری بات پر یقین کیا اور پتہ نیا لکھ دیا ، ہم کو بلاوجہ ہراساں کرنے کے لۓ مشکوک نظروں سے نہیں دیکھا ، بس   ، پانچ منٹ میں تصویر کھنچوائ  اور کارڈ ہمارے حوالے کر دیا ، نہ ایکسٹرا پیسے مانگے ’چاۓ کے لۓ نہ بلاوجہ بٹھاۓ رکھا ،اب جو کارڈ بنا وہ تا حیات یعنی ’آخری سانس ‘ تک کے لۓ ہے۔ ہم کو اپنا لکھنؤ سٹی بس کا پاس بنوانا یاد آگیا ،جو ابو کے کوئ جاننے والے بنوا لاتے تھے ، لیکن ہماری سہیلی دفتر دفتر بھاگتی رہتی تھی اور جب تک پاس نہیں بن جاتا تھا تب تک غریب لڑکی بس کا پورا کرایہ دیا کرتی تھی۔  تہہ خانے میں بنی سرنگ میں بہت سے سرکاری آفس ہیں ساتھ ہی کئ ’چاۓ اور ناشتے کی مشہور ریسٹوراں بھی ، لیکن کہیں بھی ناگوار بدبو یا کچرا نظر نہیں آیا ، کسی کسی جگہ پانی سے صفائ کی جارہی تھی تو راہگیروں کی سہولیت کے لۓ بورڈ بھی رکھا تھا اور لکھا تھا ’یہ جگہ گیلی ہے اس لۓ احتیاط سے چلۓ۔‘اگر طلاع نہ لکھی ہو اور کوئ پھسل کر گر پڑے اور چوٹ کھا جاۓ تو وہ صفائ کرنے والی کمپنی یا میونسپلٹی پر مقدمہ دائر کر سکتا ہے اور کافی بڑا ’ہرجانہ ‘ وصول کر سکتا ہے جس میں علاج میں خرچ ہونے والی رقم بھی شامل ہوتی ہے۔ اسی انڈر گراؤنڈ سرنگ میں ریل کا اسٹیشن بھی ہے جہاں سےشکاگو شہر کے  مختلف علاقوں کے لۓ ٹرینیں آتی جاتی ہیں، جگہ جگہ معلومات فراہم کرنے کے بورڈ لگے ہیں ساتھ ہی بوتھ بھی بنے ہیں جو معلومات فراہم کرتے ہیں اور بغیر ناک بھوں چڑھاۓ عوام کی خدمت کرتے رہتے ہیں ،کوئ بوتھ کبھی خالی نہیں رہتا تاکہ مسافروں کو مشکل نہ ہو۔

ہم لوگ بھی معلومات کرتے ’سی۔ٹی۔اے‘یعنی شکاگو ٹرانسپورٹ اتھارٹی‘ کے آفس پہنچ گۓ

‘ ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں لائن سے تین بوتھ بنے تھے اور ان پر ایک دو تین نمبر پڑے تھے ، ساتھ ہی ایک مشین تھی جس کو پنچ کر کے ہر آنے والا ایک پرچی نکال لیتا تھا جس پر ایک نمبرلکھا تھا ، وہی نمبر پکارے جانے پر خالی بوتھ پر جا کر وہاں موجود شخص سے بات کرنا اور ایک فارم بھرنا تھا ،سی ٹی اے ایک سرکاری ادارہ ہے سو یہاں کام کرنے والے ’سرکاری کارندے ‘ ہوتے ہیں جو بہت خوش اخلاق اور مددگار ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ مشین کے پاس ایک لڑکی کھڑی تھی جو سب سے پوچھ رہی تھی کہ کیا وہ انکی کوئ مدد کر سکتی ہے؟یہاں موجود اور برابر آتے جانے والے یا تو وہ مجبور اور بےسہارا لوگ تھے جنکی ساری زمہ داری سرکار کی تھی اور بہت سے ایسے غیر ملکی جو اب گرین کارڈ ہولڈر تھے یا امریکی نیشنل۔کئ لوگ ایسے بھی تھے کہ جو ’وہیل چیئر ‘ پر تھے۔یہاں ایسے لوگوں کو حقارت کی نظر سے نہیں ’پیار‘ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بھرپور مدد کی جاتی ہے ،جیسے وہ سب ’اللہ کے مخصوص بندے ‘ ہوں ۔ بسوں اور ریل گاڑیوں اور ہوائ جہازوں میں انکو زیادہ سہولیت دی جاتی ہے ۔ایک بار ہم نے ایک ایسی لڑکی کو ’بڑے‘ مال میں آٹومیٹک وہیل چیئر پر گھومتے دیکھا جس کے دونوں پیر نہیں تھے اور ایک ہاتھ بھی محض کہنی تک تھا ، وہ ازخود بس سے معہ وہیل چیئر اتری تھی،اور اب تو یہاں ایسی ٹیکسیاں بھی چل گئ ہیں جن میں ’ڈکی‘ کھل جاتی ہے اور وہیل چیئر سمیت انسان آرام سے ٹیکسی میں سفر کر سکتا ہے،حکومت ہر ہر طرح سے ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہے، اگر کسی شخص کے پاس ایک  ذاتی مکان اور استعمال کی ایک کار بھی ہو لیکن کسی وجہ سے  نوکری نہ ہو تو وہ سرکاری مدد کا ’حق دار ‘ ہو سکتا ہے، سرکار اسکو ’کوپن ‘ کی شکل میں مدد دیتی ہے جس سے وہ اپنے کھانے پینے کی ضروریات آرام سے پوری کرلیتا ہے۔ اس کے علاوہ برفیلی راتوں ،قیامت کی بارش میں بھی  پولیس گھوما کرتی ہے کہ کہیں کوئ ’غریب ہوم لیس ‘مل جاۓ تو اس کو ’شیلٹر ‘ مین پہنچا دے ، مختلف عیسائ چرچوں کی بڑی بڑی گاڑیاں گھوما کرتی ہیں جن پر ’اسمبلی آف گاڈ ‘لکھا ہوتا ہے وہ بھی ’فی سبیل للہ‘ یہی کام کرتی ہیں ۔مدد کرنے سے پہلے کوئ ’شناخت  نہیں پوچھتا ۔‘  افسوس کہ ہمارے ملکوں میں سرکاریں مدد کیا کرتی ہیں’ڈھنڈورا ‘ پیٹا کرتی ہیں کہ ہم عوام کی خدمت کے لۓ آئے ہیں لیکن ’جونکیں ‘ بن کر عوام ہی کا خون چوس چوس کر مست پڑی رہتی ہیں اور انکے رشتہ دار اور چمچے عوام کو پاؤں تلے کچلتے رہتے ہیں  اور عوام بے بسی سے بلبلائ پھرتی ہے ۔چونکہ ہمارے زیادہ تر لیڈران ایسے ہی ہیں تو زیادہ تر سرکاری افسران اور بابو لوگ ، معہ پولیس کے عوام کو نوچا گھسوٹا کرتے ہیں ۔

ٹیکسی کی بات ہو رہی ہے تو بتاتے چلیں کہ ابھی حال ہی میں ’کچھ لوگوں نے ’اووبر ‘ نام کی ایک کمپنی بنای ہے جس کے ممبران اپنی ذاتی کاروں کو’پرایئویٹ ٹیکسی کی طرح  چلا رہے ہیں ،آپ کے کال کرنے پر آپ جہاں بھی ہوں ’اووبر ‘ چند منٹوں میں آجاتی ہے اور بہت کم کرایہ چارج کرتی ہے،ایسی صورت حال سے عام ٹیکسی والے بہت ناراض ہیں لیکن عوام بہت خوش ہیں ۔اووبر والے سب پڑھے لکھے مہذب لوگ ہیں ۔اب تو اووبر ابو ظحبی ، ریاظ ،جدہ ،استنبول اور انڈیا کے کئ بڑے شہروں میں بھی آگئ ہے۔

۔ابھی رمضان میں اعجاز صاحب تراویح پڑھنے ’بڑی مسجد ‘ میں گۓ ، سوچا تھا بیٹا لے آۓ گا ،  ،اچانک موسلادھار بارش ہونے لگی ،رات کا ایک بج رہا تھا ، اعجاز صاحب عجلت میں اپنا موبائل گھر پر بھول گۓ تھے ،فکر مند کھڑے تھے کہ مسجد سے ایک جوان لڑکا باہر نکلا جو اعجاز صاحب کے ساتھ بازو میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا ، اس نے پوچھا کہ کیا بات ہے ، بات معلوم ہونے پر اس نے کہا کہ وہ اووبر ٹیکسی چلاتا ہے اور اعجاز صاحب کو گھر پہنچا گیا ، لیکن کسی صورت سے کرایہ نہیں لیا اور کہا ’بس ، دعا دے دیجیۓ۔مسجد کے ساتھی کا بھی کچھ حق ہوتا ہے ، ڈالر تو وہ پھر کما لیگا ، دعا تو کوئ کوئ ہی دیتا ہے ‘۔وہ کسی اچھے گھر کا لڑکا تھا اور شکاگو کی کسی یونی ورسٹی میں اعلا تعلیم حاصل کر رہا تھا ۔