محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبد الباری ندوی۔ 02-


ابتدا میں شب سے زیادہ موحش،اس کتاب کا بظاہر بے ربط اسلوب بیان رہا،لیکن اب تلاوت کرتا ہوں،تو جو چیز اس کے لفظ لفظ کو اور حرف حرف کو ’’کلام اللہ‘‘ ثابت کرتی ہے،وہ سب سے زیادہ عین یہی اسلوب بیان’’اسٹائل‘‘ہے۔کسی طرح یہ بات تصور میں نہیں آتی کہ کوئی انسان بھی ،انسانی دل ودماغ اور بشری نفسیات کے ساتھ اس طرح بہ تکلف دو چار آیات بھی بول سکتا ہے،جس طرح یہ کتاب ابتدا سے انتہا تک بے تکلف ایک فوق البشری انداز بیان میں ناطق ہے۔حد یہ ہے کہ لفظی غیر لفظی کوئی ترجمہ خود اسی کتاب کا ،جب کسی دوسری زبان میں پڑھتا ہوں توصاف امتیاز ہونے لگتا ہے،کہ ترجمے کے اندر پھر انسان شریک ہوگیا،تفسیر وغیرہ کا ذکر ہی کیا۔اپنا حال تو یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ خود کسی طرح میرے ہاتھ میں ایک کتاب رکھ دیتے اور فرماتے کہ یہ’’بین الدفتین‘‘جو کچھ ہے،لفظ لفظ،حرف حرف میرا کلام ہے،تو بھی میرا شکی اور احتمال آفریں ذہن اس کے کلام اللہ ہونے پر شاید ہی اتنا یقین کرسکتا،جتنا اس عجیب وغریب اسلوب بیان کی بنا پر حاصل ہے،مجھ کو تو اس انداز بیان کا نام ہی بجز’’کلام اللہ‘‘کے کچھ سمجھ نہیں آتا!
جو لوگ ا س کتاب پر ایمان نہیں رکھتے،کاش!ایمان اور عدم ایمان دونوں سے اپنے ذہن کوایک مرتبہ خالی کرکے،بلا ترجمہ وتفسیر،ممکن بے تعصبی کے ساتھ،خود اس کتاب کا مطالعہ کچھ دن جاری رکھ سکیں ، تو ان شاء اللہ ان کی سب بحثیں اور اعتراضات از خود ہی ختم ہوجائیں گے!اگر آدمی اتنی عربی جانتا ہو کہ عربیت کے تحت صحیح معنی سمجھ لیتا ہو،تو پھر ایک ہی ترجمہ وتفسیر کی ضرورت رہ جاتی ہے،کہ انسانی فطرت اور انسانی زندگی کے تحت پیش آنے والے واقعات وتجربات اور ان کی مشکلات و مہمات میں ،ان کی تفسیر تلاش کرے ، تو مومن تو مومن ،غیر مومن کو بھی یہ اذعان حاصل ہوکر رہے گا،کہ انسانیت جہاں کہیں اور جس حال میں بھی پائی جاتی ہو ،اس کی سیدھی راہ وہی راہ ہے،جس کی طرف یہ کتاب رہنمائی کرتی ہے۔ان ربی علی صراط مستقیم۔
غم وغصہ دونوں،زیادہ مسلمانوں کے حال پر آتا ہے،جو اس زندہ کتاب پر ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں ،اور پھر زندگی کا راستہ دوسروں سے پوچھتے ،اور ادھر ادھر ڈھونڈھتے پھرتے ہیں،!ان کو تو صرف اس کی ضرورت تھی کہ اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کے ہر شعبہ میں ،بس اسی کتاب کو بطور ایک زندہ کتاب کے استعمال کرتے۔
کہنے کی بات نہیں،لیکن آپ سے کہہ دینے کوجی چاہتا ہے،کہ میرا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ لغت اور زبان کے اعتبار سے معانی سمجھ لینے کے بعد،یا اگرواقعہ طلب شے ہو،توواقعے کو سمجھ لینے کے بعد،جہاں اور جس مقدار میں ،اس کلام اللہ کے ساتھ تفسیر وغیرہ کی صورت میں،کلام الناس کو شریک کیا،اسی قدر ہمیشہ نہیں،لیکن زیادہ تر ایسامعلوم ہونے لگتا ہے،کہ جو روشنی ملی تھی،اس کی جگہ پھر تاریکی چھانے لگی،بس’’ماینطق عن الھویٰ‘‘میں،اپنا یا پرایا،جتنا ہوائی علم مل جاتا ہے،شاید اتنا ہی خالص وحی کے علم کا حجاب بن کر اس کے فیضان کو روک دیتا ہے،اس لئے میرے نزدیک تو مفسر کے علم و تقویٰ کو معلوم کئے بغیر ہر تفسیر کو پڑھنے لگنا، بہت خطرناک ہے،الا آں کہ کسی کا علم و تقویٰ خود کافی محافظ ہو،اور آج کل تو ہر شخص مفسر ہے، اور ہر اخبار و رسالہ اس کی تفسیر شائع کرنے کے لئے کھلا ہوا ہے!
ایک بات اور سمجھ میں آتی ہے،کہ لوگ پورا قرآن سمجھنے سمجھانے کی فکرمیں لگ جاتے ہیں،یقیناً سارا قرآن ساری انسانیت کی ہدایت کے لئے ہے،لیکن ہر انسان کے لئے، سارا قرآن ،اسی طرح نہیں جس طرح کرۂ ارض کا سارا رزق ،ساری انسانیت کے لئے ہے لیکن ہر انسان کے لئے نہیں،اگر ہر آدمی’’خلق لکم ما فی الأرض جمیعاً‘‘ کے تحت سارے آدمیوں کا کیا،دو چار کا حصہ بھی ہوس میں آکر کھا جائے ،تواکثر صورتوں میں بدہضمی اور بعض میں ہلاکت یقینی ہے۔ ع
قسمت حق است روزی خواہ نے ہر یکے را سوے دیگر راہ نے
جس طرح ہر جسمانی غذا کا،ہر مزاج وماحول کے انسان کے لئے موافق آنا ضروری نہیں، وہی حال روحانی غذا کا بھی ہے،بلکہ ارواح کے الوان واقتضائات ،اجسام سے بہت زیادہ کثیر ومتفاوت معلوم ہوتے ہیں،ایک شخص دوسرے کا حصہ کیسے پاسکتا ہے!۔
ایک موٹی مثال عرض کرتا ہوں’’ان من أزواجکم وأولادکم عدواً لکم‘‘سے لے کر تغابن کی آخری آیات کا ترجمہ تو ہر شخص ہی سمجھ سکتا ہے،لیکن جو شخص ازدواجی زندگی کے تجربات سے سرے سے نہیں گزرا،یا جس کو ’’عدواً لکم ‘‘سے سابقہ نہیں پڑا،وہ’’فاحذروھم ‘‘کے پرہیز یا ’’وان تعفوا وتصفحوا وتغفروا‘‘ کے علاج کی کیا قدر جان سکتا ہے!اسی طرح’’انما أموالکم وأولادکم فتنۃ واللہ عندہ اجر عظیم‘‘کا تحقیق فہم،اس شخص کو کیسے نصیب ہوسکتا ہے،جو اس فتنۂ اموال واولاد میں پڑا ہی نہ ہو!ذہانت یا دوسروں کے تجربے سے تفسیر بیان کردینا اور بات ہے،لیکن ذاتی تحقیق تو بہر حال ذاتی تجربے کا ہی ثمرہ ہوسکتا ہے،اس یافت و تحقیق کی قائم مقامی، نہ ذہانت کی کوئی مقدار کرسکتی ہے ، اور نہ معلومات کا کوئی وسیع سرمایہ۔
ایک اور ذرا باریک مثال لیجئے:ایک شخص کا دماغ،خالق و مخلوق کے ربط کو سمجھنے کے لئے،سالہا سال عقلی آوارہ گردی میں گرفتار رہا،فلسفہ اور مابعد الطبیعیات کی راہوں میں خاک چھانتا پھرا،اس کے بعد اس کو ’’ھوالأول والآخر والظاھر والباطن وھو بکل شئی علیم‘‘ سے اگر کچھ سمجھ میں آتا ہے،اور اس کی پیا س بجھتی ہے،اور’’بکل شیئٍ علیم‘‘کے ایک اشارے سے خالق کی اولیت و آخریت ،ظاہریت و باطنیت، اور مخلوقات کے ساتھ اس کے ربط وتعلق کی گرہ کھل جاتی ہے،تو جس دماغ میں یہ سوال ہی نہیں ،اس کا جواب کیاملے گا،یا اسکی کیاقدر ہوگی! کیا اس کی کوئی وجہ سمجھ میں آسکتی ہے،کہ ایک فلسفی دماغ کی ہدایت کے لئے قرآن میں کوئی راہ نہ ہو۔
حاصل معروضات یہ ہے کہ مسلمہ عقائد واعمال کی جس مقدارکی تکلیف ہے،اس حد تک تو سب کو تبلیغ وتفہیم ،مساوی ہونے کی بھی تکلیف ہے،باقی قرآن کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا معلوم ہوتا ہے،کہ مختلف الوان واحوال ،یا مختلف ’’سبل‘‘ اور راہوں کے لوگ اپنی اپنی خاص راہ سے ،اس زندہ کتاب کے ذریعے ،اپنے زندہ رب سے ،اپنی زندگی کے سارے کاروبار میں ،زندہ اور شخصی ربط وتعلق پیدا کریں،بغیر اس زندہ ایمان کے نہ عبد ورب میں ،عبدیت و ربوبیت کا ربط قائم ہوتا ہے،نہ ایمان کی حلاوت ملتی ہے،نہ اس کے اعلیٰ ثمرات پیدا ہوتے ہیں۔واللہ اعلم بالحق والصواب۔