تبصرہ کتب۔۔۔02۔۔۔ تحریر : عبد الصمد تاجی

مجلہ:سالانہ ’’بنیاد‘‘ لاپور
(7)
مجلہ دراسات اردو گرمانی مرکز زبان و ادب مہمان مدیر: ڈاکٹر نجیبہ عارف مدیر منتظم:ذی شان دانش صفحات:603، قیمت درج نہیں برائے رابطہ: لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS)، بالمقابل سیکٹر ’’یو‘‘ ڈی ایچ اے لاہور کینٹ 54792 فون نمبر: +92-42-111-115-867 ای میل bunyaad@lums.edu.pk ناشر: گرمانی مرکز زبان و ادب LUMS زیرنظر شمارہ ساتواں ہے اور 2016ء کا ہے۔ سات حصوں میں منقسم ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ سابقہ شماروں کا تعارف ہم فرائیڈے اسپیشل میں کراچکے ہیں۔ تحقیق و تنقید ’’نوآبادیاتی مسلم ہندوستان میں قدیم و جدید علوم کی آویزش: پس منظر اور پیش منظر‘‘ معین الدین عقیل۔ ’’باغ و بہار کے دو بہترین تدوینی نسخوں کے مقدمات کا تقابلی مطالعہ‘‘ مظہر محمود شیرانی/ طارق علی شہزاد۔ ’’سندھ کے خانقاہی ادب میں سیرت نگاری: محرکات اور اسالیب کا جائزہ‘‘ ذوالفقار علی دانش۔ ’’ماریشس میںاردو‘‘ زاہد منیر عامر۔ ’’نسائی شعور کا قضیہ‘‘ نجیبہ عارف مکاتیب ’’مکاتیبِ ندوی فضلا (سید سلیمان ندوی، سید ابوالحسن علی ندوی، مسعود عالم ندوی) بنام مولانا غلام رسول مہر‘‘ محمد ارشد۔ اردو زبان: مسائل اور امکانات ’’اردو لغت نگاری کے بعض مسائل‘‘ شمس الرحمن فاروقی۔ ’’قاموس الہند: پچپن جلدوںپر محیط اردو کا نادر لغت۔ تعارف اور چند مغالطوں کا ازالہ‘‘ رؤف پاریکھ۔ ’’پاکستانی زبانوں کی لسانی و صوتیاتی خصوصیات اور اردو کی تدریس‘‘ عبدالستار ملک اردو شاعری: عصری تناظر ’’مرزا غالب اور دانشِ حاضر‘‘ ابوالکلام قاسمی۔ ’’اکیسویں صدی، وجودی بنیادیں اور نئی نظم کے تشکیلی زاویے‘‘ سعادت سعید۔ ’’مقامی شعری اصناف میں مظفر علی سید کی تخلیقی امنگ‘‘ خالد محمود سنجرانی۔ ’’اردو شاعری میں تحسینِ منٹو‘‘ طارق محمود ہاشمی۔ ’’مجید امجد کی شاعری: پنجاب کے ثقافتی تناظر میں‘‘ نبیل احمد نبیل اردو فکشن: بازیافت ’’بابو گوپی ناتھ: قحبہ خانوں کا راہب‘‘ تبسم کاشمیری۔ ’’ایامیٰ: مساوات اور بیانیہ‘‘ محمد نعیم۔ ’’پنجاب کا جاگیردارانہ سماج اور طاہرہ اقبال کی افسانوی دنیا‘‘ لیاقت علی۔ ’’عبداللہ حسین کے ناولوں میں طبقاتی شعور‘‘ روبینہ الماس ترجمہ اور اس کا فن ’’شاعری بطور عملِ تاریخ‘‘ مینوکال/ محمد عمر میمن۔ ’’علمِ ترجمہ سے متعلق رجحانات کا اجمالی جائزہ‘‘ محمد سلمان ریاض۔ ’’ترجمہ: عمل اور روایت‘‘ سہیل محمود انگریزی مقالات Beginning of Oriental Learning in British India (According to the Report, 17th January 1824) M. Ikiram Chaghtai. Reception and Experimentation of the Urdu Literary Forum: The Case of the Ghazal in America Muhammad Safeer Awan / Khadeeja Mushtaq مہمان مدیرہ ڈاکٹر نجیبہ عارف اداریے میں تحریر فرماتی ہیں: ’’اردو میں تحقیق کی روش نئی تو نہیں، لیکن بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں، جامعاتی مطالبات اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قواعد و ضوابط نے اس میں ایک نیا ابال پیدا کردیا ہے۔ تحقیقی مقالات لکھنے کی دوڑ سی لگ گئی ہے اور نئے نئے تحقیقی مجلات منصۂ شہود پر نمودار ہورہے ہیں۔ ان تحقیقی مجلات کی اپنی ایک دنیا ہے جس کے اپنے دستور اور اپنے رسم و رواج ہیں۔ ان مجلات کی اشاعت کے نتیجے میں امید کی جاتی ہے کہ یہ روزافزوں تحقیقی کاوشیں ہمارے نوجوانوں کو سوچنے اور لکھنے پر مائل کریں گی، اپنی فکر کو مرتب کرنے کا سلیقہ سکھائیں گی اور تخلیقِ علم کا راستہ ہموارکریں گی۔ تاہم ہمارے عہد کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ جب کسی عمل کی افادیت کا یقین ہوجائے تو جہاں عمل پیرا ہونے والے زیادہ ہوتے ہیں، وہاں محض رسمی کارروائی پوری کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہماری معاصر علمی دنیا میں جہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ تحقیقی مجلات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، نوجوان محققین سوچنے، سمجھنے اور غوروفکر کرنے کے بعد اپنی رائے قائم کرنے اور اس کا مرتب و منظم اظہار کرنے پرآمادہ ہیں، وہاں یہ امر تشویش ناک ہے کہ ’’تحقیق نمائی‘‘ کا رجحان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس نمائشی تحقیق کے نتیجے میں دو طرح کے مقالات سامنے آتے ہیں، ایک تو وہ جو ’’فاضل‘‘ محققین سے مالی یا کسی اور قسم کی معاونت کے بدلے لکھوائے جاتے ہیں، ان مقالات میں زبان و بیان کے مسائل کم ہوتے ہیں مگر یہ عموماً چلتے ہوئے موضوعات پر سطحی سے بیانات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دوسری قسم ان مقالات کی ہے جو جلد بازی میں کسی فوری ضرورت کے پیش نظر یا محض تعداد پوری کرنے کے لیے لکھے جاتے ہیں اور موضوع کے بارے میں ناگزیر مطالعے، مطلوبہ علمی و لسانی صلاحیت، دقت نظری اور فکری پختگی سے محروم ہوتے ہیں۔ ایسے مقالات عموماً دیگر کتب اور مقالات کے اقتباسات پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان اقتباسات کے درمیان ربط پیدا کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی جاتی۔ اس کے باوجود ہمیں اگر امید ہے تو انہی محققین سے جو ناپختہ سہی، مگر خود اپنی کاوش پر بھروسا کرتے ہیں اور علمی خیانت کے مرتکب نہیں ہوتے۔ ان کی تحقیقی صلاحیتوں کو جِلا دینے کے لیے جامعات کے اساتذہ اور مجلات کے مدیرانِ کرام کی ذمے داریوں میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے۔ تحقیقی مجلات میں جہاں پختہ کار محققین کے مقالات کی اشاعت ضروری سمجھی جاتی ہے وہاں نوجوان محققین کی تربیت کا سامان فراہم کرنا بھی لازم ہے۔ یہ عمل اکہرا نہیں، کثیر جہتی ہوتا ہے۔ مقالات کے ابتدائی انتخاب سے لے کر ان کی اصلاح و تہذیب کے عمل تک ان مدیرانِ کرام کا اوّلین فریضہ یہ ہے کہ ذاتی پسند و ناپسند اور تعصبات سے بالاتر ہوکر فیصلے کریں۔ مجلات میں شائع ہونے والے مقالات جن ماہرین کو بھیجے جاتے ہیں وہ بھی اس صورتِ حال کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ نوجوان محققین کا اپنا مثبت رویہ بھی اہم ہے۔ تنقید کو عناد یا توہین سمجھنے کے بجائے اصلاح و تربیت کا ذریعہ سمجھنا پختہ فکری کی علامت ہے۔ ’’بنیاد‘‘ کا ساتواں سالانہ شمارہ پیش خدمت ہے۔ اس شمارے میں شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر معین الدین عقیل، پروفیسر محمد عمر میمن، پروفیسر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر اکرام چغتائی، پروفیسر ابوالکلام قاسمی اور پروفیسر سعادت سعید جیسے جید علما کے مقالات شامل ہیں۔ یہ اصحابِ علم و فضل بلاشبہ اردو زبان و ادب کی آبرو ہیں، ان کے علاوہ پروفیسر مظہر محمود شیرانی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر محمد ارشد، پروفیسر محمد سفیر اعوان، ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی، ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی اور ڈاکٹر لیاقت علی جیسے پختہ کار محققین نے بھی اپنے مقالات ارسال کیے ہیں جو اس شمارے میں شامل ہیں۔ حسبِ روایت نوجوان محققین اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے مقالات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ مجلّہ بڑی محنت سے ترتیب دیا گیا ہے اور گراں قدر مقالات کا مجموعہ ہے۔ خوب صورت طباعت اور سرورق سے مزین ہے۔ ۔ ۔ ۔ ٭۔ ۔ ۔ نام مجلہ: سالانہ ’’بنیاد‘‘ لاہور
(8)
مدیران: معین نظامی، یاسمین حمید مدیر منتظم: ذی شان دانش صفحات: 599 زیر نظر شمارہ آٹھواں ہے اور 2017ء کا ہے جو چھے حصوں میں منقسم ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے: تحقیق و تنقید: ’’پاکستانی کتب خانوں میں ترکی مخطوطات‘‘ عارف نوشاہی۔ ’’سرسید احمد خاں کی قومی خدمات کا جوہر‘‘ سعادت سعید۔ ’’واجد علی شاہ کی ایک کمیاب مثنوی: دریاے تعشق‘‘ خالد محمود سنجرانی۔ ’’اردو میں تثنیہ کا وجود‘‘ ارشد محمود ناشاد۔ ’’تاریخ ادبِ اردو (انگریزی) مصنفہ علی جواد زیدی کا تحقیق و تنقیدی جائزہ‘‘ صائمہ ارم۔ ’’اردو کا صحافتی ادب: تعریف، تشکیل، روایت‘‘ رفاقت علی شاہد۔ ’’اردو اور ہندی کی صرف و نحو اور بنیادی ذخیرۂ الفاظ: لسانی وحدت کے پہلو‘‘ محمد خاور نوازش شاعری: تجزیہ و مطالعہ ’’فیض صاحب کی ہمہ گیر مقبولیت‘‘ شمس الرحمن فاروقی۔ ’’جدید اردو غزل میں ہندی زبان کے اثرات: ایک جائزہ‘‘ صائمہ علی۔ ’’شعریاتِ اختر الایمان: عصری شعور اور بیانیے کا تفاعل‘‘ احتشام علی۔ ’’سید وارث شاہ کا پنجابی ترجمہ قصیدہ بردہ شریف: تعارف، تجزیہ اور تقابلی مطالعہ‘‘ زاہد حسن۔ ’’بھرے بھڑولے: پنجابی صوفی شعری روایت کے تناظر میں‘‘ ذی شان دانش اردو فکشن: بازیافت ’’فکشن کی سیاسی و سماجی جہات کا مطالعہ‘‘ نجیبہ عارف۔ ’’منٹو کے چند غیر مدوّن خطوط‘‘ محمد سعید۔ ’’مصر کا منٹو‘‘ عبدالقدیر۔ ’’ابن الوقت: ثقافتی شناخت کی تشکیل‘‘ محمد نعیم۔ ’’پی ٹی وی لاہور مرکز کا اردو ڈراما: تاریخ اور تقابلی مطالعہ‘‘ محمد سلمان بھٹی۔ ’’فسانۂ عجائب: مابعد الطبیعیاتی مطالعہ‘‘ محمد رفیق الاسلام۔ ’’افتخار جالب اور اردو افسانے کی نئی لسانی تشکیلات‘‘ طاہرہ صدیقہ۔ ’’انتظار حسین کے دو نایاب اردو اسٹیج ڈرامے‘‘ محمد نوید عالمی ادب ’’شہری کلچر میں بڑھاپے کی تصویریں: بودلیئر کی شاعری کے تناظر میں‘‘ ایم خالد فیاض۔ ’’آرمینیس ویمبری: انیسویں صدی کا ایک مستشرق‘‘ خالد امین ترجمہ ’’اقبال کا تصورِ وحدت الشہود/ہمہ از اوست‘‘ رابرٹ سی وٹمور/ احمد بلال انگریزی مقالات Confessions: Abd al-Majid Daryabadi's Autobiogrphical Account of his Spiritual Basit Bilal Koshul / Ahmed Journey ----Afzaal Muqaddama-i Hukama Singh A Persian Transcript of the Sikh Era ----Kanwal Khalid معزز مدیران اداریے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’گرمانی مرکزِ زبان و ادب، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے علمی و تحقیقی مجلے ’’بنیاد‘‘ کا آٹھواں سالانہ شمارہ پیش خدمت ہے۔ امید ہے کہ اسے ملک اور بیرونِ ملک کے علمی و تحقیقی حلقوں میں حسبِ سابق توجہ اور پذیرائی حاصل ہوگی۔ ’’بنیاد‘‘ نے اپنی سعیٔ پیہم اور احساسِ ذمے داری کی بنا پر چند ہی برسوں میں پاکستانی دانش گاہوں سے شائع ہونے والے مجلات میں جو نمایاں مقام حاصل کیا ہے، وہ اہلِ نظر پر عیاں ہے۔ ہمارے سنجیدہ حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث چلا آتا ہے کہ ان مجلات کا معیارِ تحقیق اور پیمانۂ نقد و نظر کیسا ہے، ان کے مشمولات، علوم و معارف میں حقیقی ثروت مندی کا کہاں تک باعث بن رہے ہیں، اور ان کے مطالب میں بین العلومی رجحانات اور عالمی ادبی بیانیوں کی کتنی جھلک دکھائی دیتی ہے؟ یہ تمام سوالات بجا ہیں۔ ’’بنیاد کی شکل میں ہماری یہ کاوش دراصل انہی مطلوبہ معیارات تک رسائی کا ایک اہم مرحلہ ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر نجیبہ عارف کا دلی شکریہ واجب ہے جو چار سال (2013ء تا2016ئ) تک مہمان مدیر کے طور پر بے حد قابلِ ستائش انداز میں ’’بنیاد‘‘ کی ادارتی ذمے داری نبھاتی رہیں۔ ان کے زیر ادارت اس کا تحقیقی و تنقیدی معیار بلند تر ہوا اور اس کے صوری و معنوی خدوخال اور قدو قامت میں خاطر خواہ بہتری ہوئی۔ چنانچہ رسالے کی علمی متانت اور تحقیقی وقار کے پیش نظر پاکستان ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) نے اسے وائی (Y) درجے میں منظور کیا۔ ہم محترمہ نجیبہ عارف کے لیے سراپا سپاس ہیں۔ زیر نظر شمارے میں، اس سے پہلے شماروں کی طرح متنوع موضوعات پر مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ تحقیق و تنقید کے حصے میں پاکستان کے کتب خانوں میں ترکی مخطوطات سے متعلق معلومات سے لے کر اردو زبان کے قابلِ توجہ پہلوؤں پر تحریریں موجود ہیں۔ جہاں خالص تحقیقی نوعیت کی تحریروں کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے وہاں تنقیدی مطالعات بھی تحقیق کے لیے نئے راستے فراہم کرسکتے ہیں۔ بعض تنقیدی جائزے نئے زاویوں سے پرانے طے شدہ معیارات پر نظرثانی کرتے ہیں اور مزید مطالعے اور تحقیق کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔ شاعری اور فکشن کے حصے میں بعض مضامین پڑھنے والوں کے لیے یقینا اس لحاظ سے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ ایک مضمون سید وارث شاہ کے قصیدہ بردہ شریف کے پنجابی ترجمے پر ہے جو اب تک کیے جانے والے پنجابی تراجم سے تقابلی سطح پر مختلف ہے۔ مصر کے افسانہ نگار احسان عبدالقدوس کی حیات اور تخلیقات کا منٹو کی زندگی اور تخلیقی موضوعات سے حیرت انگیز مماثلت پر مبنی جائزہ بھی پڑھنے والوںکے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔ دو اہم تراجم بھی اس شمارے میں شامل ہیں۔ ایک ترجمہ اقبال کے تصورِ وحدت الشہود پر وٹمور کے مضمون کا ہے۔ یہ اس مضمون کا پہلا مکمل ترجمہ ہے جو مترجم کے حواشی کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ اس شمارے کے کُل پچیس مضامین میں سے دو مضمون انگریزی زبان میں بھی ہیں جن میں سے ایک عبدالماجد دریابادی کی خودنوشت کے ایک اہم حصے کا ترجمہ ہے۔ یہ ان کے روحانی سفر اور ارتقا کی روداد ہے۔