مولانا محمد غزالی خطیبی۔۔۔ امت کا درد جن کا زادر راہ تھا۔۔02۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

فراغت کے بعد ۱۹۶۸ء میں آپ نے چند ماہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریسی خدمات انجام دیں ، اس وقت آپ کے مربی اور استاد مولانا عبد الحمید ندوی علیہ الرحمۃ جامعہ سے سبکدوش ہوکر اپنے وطن لوٹ چکے تھے، اور جامعہ کے تعلیمی درجات جامع مسجد میں لگا کرتے تھے ، شاید آپ کے ذہن میں اعزازی طور پر دین کی خدمت کرنے کا جذبہ کارفرما تھا ، لہذا آپ تلاش معاش کے لئے مدراس (چنئی ) بھٹکل والوں کے مشہور فرم مولانا کمپنی سے وابستہ ہوئے ، جہاں تلاش معاش کے ساتھ اپنے دینی و معاشرتی ذمہ داریوں کی بھی فکر کرتے رہے۔ یہاں آپ نے ہفتہ وار درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا ، اور اصلاح معاشرہ کی بھی کوششیں کرتے رہے ، اس زمانے میںچنئی میں کئی ایک اہل علم اور بزرگ پائے جاتے تھے ، ان میں خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے سپوت مولاناقاضی محمد حبیب اللہ علیہ الرحمۃ ، جامع مسجد پریمیٹ کے قندھاری امام و خطیب مولانا عبد العلی صاحب جو کہ شیخ الھند مولانا محمود الحسن علیہ الرحمۃ کے شاگرد رشید اور شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مولانا فخر الدین علیہ الرحمۃ کے رفیق درس بھی رہے تھے ، اس طرح مولانا عبد الوہاب بخاری مرحوم سابق پرنسپل نیو کالج و جمالیہ عربک کالج اور حضرت حکیم الامت کے ایک عزیز مولانا محمد عمر تھانوی وغیر ہ شخصیات قابل ذکر تھیں جن سے مولانا غزالی صاحب کے مراسم تھے ، لیکن یہاں کے علماء میں آپ کا سب سے زیادہ تعلق مولانا عبد الباری حاوی معدنی علیہ الرحمۃ سے تھا ، جو اس وقت جمالیہ عربک کالج کے صدر المدرسین تھے ، آپ وانمباڑی سے تعلق رکھتے تھے، جہاں پر قائم مدرسہ معدن العلوم کے بانی اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ مولانا مفتی عبد اللہ پنگنوری علیہ الرحمۃ کے آپ شاگرد رشید اور خلیفہ تھے۔ مولانا حاوی کے بھٹکل کے منیری صاحب سے بھی بڑے گہرے مراسم تھے ، تاج کمپنی کراچی آزادی سے قبل جب ممبئی میں تاج آفس کے نام سے قائم ہوئی تھی اس زمانے سے آپ کے اس ادارے سے ربط تو تعلق تھا ، تقسیم کے بعد ہندوستان میں اس کی ایجنسی آپ کو حاصل تھی ، جو ۱۹۶۵ء کی جنگ تک رہی ، مولانا حاوی کی تاج بکڈپو کے نام سے پیریمیٹ مسجد کے احاطے میں ان کی کتابوں کی ایک دکان تھے۔ منیری صاحب کے توسط سے وہ تاج کمپنی کراچی کے مصاحف کے تقسیم کار تھے ۔ ۱۹۷۲ء میں سفر حج بیت اللہ کے دوران جدہ سے مکہ مکرمہ روانگی کے دوران مر الظہر ان میں بارگاہ خداوند ی سے آپ کا بلاوا آگیا ، مولانا غزالی صاحب ان سے شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ کی کتاب حجۃ اللہ البالغۃ کا خصوصی درس لینے جاتے تھے ، ۱۹۷۰ء میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے تین طالب علموں مولوی نور الامین منیری ، مولوی مشتاق احمد ملا ، اور اس ناچیز پر مشتمل جماعت کو جمالیہ عربک کالج میں داخلہ کا امتحان لینے کے لئے مولانا غزالی خود اپنے ساتھ ان کے پاس پیریمیٹ لے گئے تھے ، جس پر آپنے موطا امام محمد کا ایک قدیم نسخہ کھول کر اس کی عبارت خوانی کو کہا تھا ، اس امتحان میں یہ ناچیز سب سے نکما نکلا تھا ۔
مولانا غزالی کو اپنی کمپنی کے بعض معاملات میں دینی نقطہ نظر سے شبہ پیدا ہوا ، اور آپ نے ۱۹۷۲ء میں یہ ملازمت ترک کی ،یہاں سے آپ عرب ممالک ، حبشہ وغیرہ افریقی ممالک میں ڈیڑھ سال کے تبلیغی دورے پر روانہ ہوئے ، پھر تادم آخری اسی دعوت ہی کے ہوکر رہ گئے ، اس محنت میں آپ نے تسلسل کے ساتھ ا﴿۴۶﴾ سال گزارے ، جن میں سے نصف عرصہ آپ نے حضرت جی مولانا انعام الحسن کاندھلوی علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں رہے ۔ حضرت جی علیہ الرحمۃ آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے ، لہذا اس طویل عرصہ میں باہر ملکوں سے آنے والی مہمان جماعتوں کا خیال رکھنے ، ان کے سفر و حضر کی ضرورتوں کو پورا کرنے ، انہیں آسانیاں فراہم کرنے ، ان کے انتظامات کرنے کی ذمہ داریاںسے آپ سے وابستہ رہیں، مرکز تبلیغ نظام الدین دہلی میں آپ کے لئے ایک مختصر سا کمرہ تھا جس میں ایک بینچ بچھی ہوئی تھی جو کٹھیا کابھی کام دیتی تھی ، یہی ان کی کل کائنات تھی ، قربانی ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنے لفظی تشریح کے دائرے میں سمو نہیں سکتے ، احساسات کو الفاظ کے دائرے میں کیسے قید کیا جاسکتا ہے ؟ مولانا کی ذات اس کی عملی تصویر تھی ۔ مولانا نے پس منظر میں رہ کر یہاں پر یہ تمام عرصہ گذارا ، آپ کو دینی علوم کے ساتھ اردو، انگریزی ، عربی اور فارسی زبانوں میں افہام و تفہیم کی مکمل قدرت حاصل تھی ، لیکن آپ نے خود کو ظاہری شہرت اور نام و نمود سے بالاتر رکھا ، اسٹیج پر شاذ ونادر ہی نظر آتے، اس ناچیز کو آپ کے مرکز نظام الدین سے وابستگی سے پہلے بھی سننے کا موقعہ ملا تھا ، اس وقت بیان میں قابل ذکر اثر محسوس نہیں ہوتا تھا ، لیکن جب انہیں جماعت میں لگنے کے ایک سال بعد سننے کا موقعہ ملا تو حیرت انگیز تبدیلی کا احساس ہوا ، ایسا لگا جیسے سینے میں ایک آگ دہک رہی ہے ، امت کی فکر اس خاکی انسان کو اندر سے سلگا رہی ہے ، اسی فکر نے آپ کی زندگی کو روشن مینار بنادیا تھا ۔مولانا دعوت دین کے آدمی تھے ، جس کا اہم عنصر اسے آسان زبان میں اپنی بات کو مخاطب تک پہنچانا ہے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لکھنو کے شرافت حسین کی بچوں کو لکھی گئی کتابیں ، اللہ کے رسول ،اچھی باتیں وغیرہ کا سیٹ آپ کو بہت پسند تھا، اسے پڑھتے بھی رہتے اور اسے تقسیم بھی کرتے ۔
سنہ ۱۹۷۹ء میں مہتمم جامعہ مولانا شہباز اصلاحی علیہ الرحمۃ کی سبکدوشی اور ندوے سے آپ کی وابستگی کے ایک عرصے بعد حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ بھٹکل تشریف لائے تھے ، اساتذہ اور شوری کے ایک مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر اہتمام کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے مولانا غزالی کا نام تجویز ہوا تھا ، اس وقت آپ نے اس کا فیصلہ مرکز کے بزرگوں پر چھوڑ دیا تھا ، غالبا حضرت جی علیہ الرحمہ نے انہیں مرکز ہی سے وابستہ رہنے کا مشورہ دیا تھا ۔
مولانا سے ملنے پر ایک اپنا ئیت کا احساس ہوتا تھا ، دہلی جانا ہوتا تو آپ سے ملاقات ایک شرف کی بات ہوتی ، اپنے چھوٹے سے کمرے میں مہمان نوازی کا خاص خیال رکھتے ، انس و شفقت کے جذبات کو لے جب آپ کو الوداع کہنے کا وقت آتا تو جانے والوں پاؤں بوجھل ہوجاتے ، لیکن ضرورت محبت کی یہ بیڑیاں توڑ نکلنے پر مجبور کرتیں ۔ گذشتہ سال دبی میں مقیم بھٹکلی احباب کی جماعت میں آپ کو دعوت دی گئی تھی ، یہ پہلا موقعہ تھا کہ وہ جماعت کے کسی انتظامیہ اجلاس میں شریک ہوئے تھے ، دل کھول کرباتیں اور نصیحتیں کیں اور ایک ماہر زبان دان کی طرح نئی نسل کی سمجھ سے قریب ہونے کے لئے انگریزی جملوں کا موثر انداز میں استعمال کیا ، جو اس بات کا غماز تھا ، کہ دعوت کے جملہ تقاضوں پر آپ کی مکمل دسترس ہے ۔ بہت خوش ہوئے کہ قوم کے نونہالوں کے سامنے واضح انداز میں بات رکھنے کا موقعہ ملا ۔
حضرت جی مولانا انعام الحسن علیہ الرحمۃ کے بعد مرکز تبلیغ میں جو اختلافات رونما ہوئے ، انتشار وہاں پھیلنے لگا اور گروہ بندیاں وہاں پنپنے لگیں تو اس پر وہ بہت کڑھتے. تھے ، یہاں کے نظم و نسق پر حاوی ہونے والی نوجوان قیادت آپ ہی کے سامنے پروان چڑھی تھی ، خاندانی رواداری اور اصولوں کی کشمکش ایک ہیجان پیدا کررہی تھی ، ایسے میں کسی کی طرفداری اور گروہ بندی سے ہٹ کر اپنی راہ بنانا پل صراط پر چلنے کے برابر تھا ، آپ کی روح مرکز دہلی میں اٹکی ہوئی تھی ، اسے چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ،باوجود اس کے مرکز میں رہ کر بھی آپ نے اپنا ہاتھ اختلافات کے کیچڑ سے آلودہ ہونے نہیں دیا ،وہ راہ حق میں نکلنے والوں کی خدمت کے لئے پیدا ہوئے تھے ، جب تک دم میں دم رہا خدمت گزاری میں زندگی کے لمحات کو بسر کیا ، آپ نے جو مشعل راہ روشن کی اس کی روشنی میں بھٹکل کا مرکز اب بھی کام کررہا ہے ۔ جماعتی اختلاف اور گروہ بندی کو ابھی یہاں داخل ہونے نہیں دیا گیا ہے ، حالانکہ ریاست کرناٹک کے صدر مقام بنگلور میں جماعتی اختلاف کی صورت حال کوئی اچھی نہیں ہے ۔
ماہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں آپ کا مالک حقیقی سے بلاوا آگیا ، اور بغیر چون و چرا کئے جانے میں کوئی تاخیر کئے بغیراس دائمی سفر پر روانہ ہوگئے ،شاید قول خداوندی﴿ تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش ﴾ آپ ہی جیسی شخصیات کے حق میں اترا تھا ، آپ نے جیسی پاکباز زندگی گزاری اس سے امید ہے کہ آپ صدیقین اور صالحین کے جلو میں اٹھائے جائیں گے ۔ اللہ آپ کے کے نیک اعمال کو قبول کرے ، اور ان کے درجات بلند کرے ۔ آمین۔