محسن کتابیں۔۔۔02۔۔۔ تحریر: مولانا مناظر احسن گیلانی

Bhatkallys

Published in - Other

08:20PM Sun 26 May, 2019

اس ہوش ربائی داستان سرائی کی طوالت سے میں نے قصداً کام لیا ہے،کیونکہ اپنے ان ہی ذاتی تجربات کی بنیاد پر ،میں ان مسموم ادبی کتابوں اور رسالوں کو نوخیز بچوں اور نوجوانوں کے لئے سم قاتل قرار دیتا ہوں،جو حشراتی کیڑوں کی طرح آج آسمان و زمین سے ہر ہر گھر میں برس رہے ہیں،بچوں سے آگے بڑھ کر ،بچیوں تک کی تباہی و بربادی میں ،بے پناہ طوفانوں کاکام کر رہے ہیں،نسلیں برباد ہورہی ہیں، اور گھرانے اجڑ رہے ہیں،مگر اس شکل میں کہ ان کاغذی سانپوں اور بچھوؤںسے،ماں باپ بخوشی اپنے بچوں کوڈسا رہے ہیں،حکومت مدد کر رہی ہے،قوم کے لیڈر ایجوکیشن ،سویلیزیشن اور خدا جانے کن کن مشنوں سے ،زہر کے یہ پیالے قوم کے ان نونہالوں کو بلیغ تقریروں اور فصیح’’اسپیچوں‘‘کے ذریعے پلا رہے ہیں،فانا للہ وانا الیہ راجعون!کہ تباہی کے اس طوفان کے انسداد کے سارے وسائل ختم ہوچکے ہیں،اور ایسامعلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے،وہ ہو کر رہے گا،ماقدر اللہ فسوف یکون!’’وازا أراد اللہ بقوم سوئً فلا مرد لہ وما لھم من دونہ من وال‘‘۔

            بہرحال،یہ میری جاھلیت کا دور تھا،جو ٹونک پہنچنے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا،اب واقعی علوم و فنون کا شوق مجھ پر مسلط تھا،شوق کی یہ حد تھی کہ باوجود مطبوع ہونے کے،میں نے شدت ذوق میں منطق کی بعض کتابیں خود اپنے قلم سے لکھ لکھ کر پڑھیں،اور ان ہی دنوں میں ایساغوجی قلمی پر اپنے استاد کی تقریروں کو اردو میں بطور حاشیے کے لکھتا جاتاتھا،جو اب تک میرے کتب خانے میں بطور یادگار کے محفوظ ہے۔مولانا برکات احمد پر مولانا عبدالحق خیر آبادی کے رشید شاگردوں میں ہونے کی وجہ سے خیر آباد ی اسکول کے اثرات غالب تھے،منطق وفلسفہ ان ہی دونوں علوم کاا ن کے حلقۂ درس میں غلبہ تھا،مجھ پر بھی ان کا تسلط قدرتی طور پر ہونا چاہئے تھا،سو ہوا،لیکن اسی کے ساتھ یہ چچا مرحوم کی ترکیب تھی کہ خطوط میں بعض خاص علمی و ادبی رسائل واخبار کے مطالعے کی تاکید فرماتے رہتے،اور گو برکاتی ماحول اس مذاق سے قطعاً نا آشنا بلکہ مخالف تھا،لیکن اس عرسے میں میرا یہ مشغلہ برابر جاری رہا۔چچا مرحوم نے اب کے ’’الندوہ‘‘ کو میرے نام جاری کرادیاتھا،اورا سی بنیاد پر علامہ سید مجھے ندویوں میں شریک فرماتے ہیں،کہ درساً نہ سہی،قلماً میں ندوہ کا شاگرد رہا ہوں،ایک حیثیت سے سیدصاحب کا یہ خیال درست بھی ہے۔مولانا برکات احمد کو میری اخبار بینی اور رسائل خوانی کا اگر کبھی علم ہوجاتا تو بہت برہم ہوتے، اور فرماتے:ان ’’سطحیات‘‘کے دیکھنے سے تو اپنی استعداد بگاڑ رہا ہے،لیکن’’چندانکہ مرا شیخ ابوالفرج ابن جوزی‘‘کا جو قصہ سعدیؒ نے گلستاں میں لکھا ہے،میرا وہی حال تھا۔تین چار سال تک اس عرصے میں مجھے کسی مصنف یا کسی تصنیف سے کوئی خاص لگاؤ پیدا نہیں ہوا،البتہ جب شرح عقائد شروع ہوئی تو میرے ایک پنجابی ملتانی استاد مولانا محمد اشرف مرحوم نے شرح عقائد کی ایک گمنام شرح کا پتہ دیا،اس کا نام’’نبراس‘‘ہے،اور اب بھی لوگ اس سے ناواقف ہیں،یہ ملتان ہی کے ایک غیر معروف بزرگ مولانا عبدالعزیز کی تصنیف ہے، اور ملتان ہی سے شائع بھی ہوئی ہے،کتاب منگائی گئی،واقعہ یہ تھا کہ اس کتاب میںعام درسی مذاق سے زیادہ مفید چیزیں ملنے لگیں، اور اس کے مطالعے میں زیادہ لذت ملنے لگی۔میں اس کا اعتراف کرتا ہوں کہ علم کلا م کا تصوف کے نظری حصے سے جو تعلق ہے،سب سے پہلے اس کا سراغ مجھے ’’نبراس‘‘ ہی کے چراغ کی روشنی میں ملا،اس میں کتابی الجھنوں سے زیادہ،واقعات سے دماغوں کو قریب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اسی عرصے میں جلالین شروع ہوئی،چچا مرحوم نے لکھ بھیجا کہ جلالین کے ساتھ رازی کی تفسیر کا مطالعہ جاری رکھو۔تفسیر کبیر نے میری آنکھیں کھول دیں،اور مدرسے کے عام طلبہ میں حاشیہ و شروح کے دور از کار نکات کے حل کرنے کا جو عام مزاق پایا جاتا تھا، اور میں بھی اس مزاق میں مبتلا تھا،اس سے رہائی میسر آئی،حاشیہ نگاروں ،شرح بازوں کی وقعت نگاہ میں کم ہونے لگی۔امام رازی میرے پہلے رہنما ہیں،جنہوں نے مجھ میں علم کا صحیح مذاق پیدا کیا،لیکن اس وقت تک صرف دماغی راحت کے سامان کی تلاش میں رہتا تھا،دل اور دل کی غذاؤں کا نہ شوق تھا،نہ کسی نے ادھر توجہ دلائی تھی،چچا مرحوم پر بھی مولویانہ مذاق غالب تھا،اور گو مولانا برکات احمد پر تصوف کا اچھا خاصا رنگ تھا،لیکن ان کا درس اس رنگ سے بیگانہ تھا،اس لئے مجھ تک ان کے تصوف کا اثر منتقل نہ ہورہا تھا،کہ اچانک بلقان کی جنگ چھڑی،ندوہ کے ایک عالم نے ٹونک میں چندہ کی ایک تحریک کی،غالباً سید محمد رائے بریلوی نام تھا،بیچارے کی طرف کسی نہ توجہ نہ کی،متعدد مجمعوں میں ان کا وعظ ہوتا تھا،لیکن صحرا کی صدابن کر رہ جاتا تھا۔مجھے ایک دن کچھ غیرت سی آئی،اور افسوس بھی ہوا،اس زمانے میں الھلال نکل چکا تھا،ٹونک میں سب سے پہلا پرچہ اس کامیں نے ہی منگایا تھا،ایک جماعت کے ساتھ الھلا ل کے دل دادوں میں تھا،مولانا ابوالکلام کے الفاظ،طرز بیان کی نقل اتارنے کی صلاحیت محسوس کرکے،میں اچانک پہلی دفعہ پبلک کے سامنے تقریر کے لئے کھڑا ہوگیا۔ٹونک کی تاریخ میں وہ یادگار دن تھا،جامع مسجد بھری ہوئی تھی’’وامتازواالیوم ایھا المجرمون‘‘کے ساتھ میری کڑکتی ہوئی تقریر کا  آغاز ہوا،  جو جہاں تھا،تھرا کر رہ گیا،پھر مجھے خود نہیں معلوم کے کیا کہا!پندرہ بیس منٹ کے بعد ہوش آیا،تو دیکھتا ہوں کہ خود رو رہا ہوں اور ساری مسجد میں کہرام برپا ہے،روپے کا ڈھیر میرے قدموں کے سامنے ہے!لوگ واقعتا کپڑے پھاڑ رہے تھے،بال نوچتے تھے،منہ پر تھپڑ مارتے تھے،ساری مسجد دیوانی ہورہی تھی،میں خود حیران تھا کہ قصہ کیا ہے؟اور آج تک اس کی توجیہ میری سمجھ سے خارج ہے،شاید میرے دبے دبائے جذبات یکایک بھر پڑے،یا کیا میں تقریر بھی کرسکتا ہوں!نہ صرف دوسروں کو،بلکہ خود مجھے پہلی دفعہ اس کا علم ہوا۔اتفاق سے حضرت الاستاذ ٹونک میں نہیں تھے،رہتے تو روک دیا جاتا!مجھے کھلا میدان ملا،عوام نے مجھے اپنا واعظ بنا لیا،اور اب ہر ہر محلے میں جلسے ہونے لگے،اور مجھے تقریر پر مجبور کیا جانے لگا،دو تین تقریروں تک تو دماغی مواد سے کام لیتا رہا،لیکن اس کے بعد ذخیرہ ختم ہوگیا،بنی ہوئی بات بگڑتی نظر آئی،مجبوراً خیال ہوا کہ وعظ کی کوئی کتاب دیکھوں،خدا کی شان!اس راہ میں پہلی نظر امام غزالی کی احیاء العلوم پر پڑی،اب تک جو رازی کو دنیاکا خاتم العلماء سمجھتا تھا،چند ہی ابواب کے بعد میرا حال ہی دوسرا ہوگیا،دوسروں کو وعظ سنانے کے لئے کتاب کھولی تھی،لیکن معاملہ دوسرا ہوا،غزالیؔکی ہر سطر مجھ پر تیر ونشتر کا کام کرنے لگی، اور

                        شد غلامے کہ آب جو آرد                                         آب جو آمد و غلام بہ برد

              اور دل جو اب تک گونگا بہرا بنا ہوا ،سینے میں سویا ہوا تھا،تڑپ اٹھا۔میر زاہد،سید شریف،ملا باقر،ملا محمود اور آخر میں امام رازی تک نظروں سے اوجھل ہوگئے،اب مجھ پر امام غزالی سوار تھے،وہی دورہ جو طلسم ہوش ربا کے مطالعے میں ابتدائی زندگی میں پڑا تھا،اور سخت پڑا،اب تک گیلانی کی زندگی جاہلیت معلوم ہوتی تھی،لیکن اب ٹونک کا عہد بھی قریب قریب اسی شکل میں نظر آنے لگا،معقولات کا نشہ اتر گیا،زندگی اور معمۂ زندگی کے حل کا سودا سر پر سوار ہوا۔کچھ دن اس کے بعد جبراً قہراً میں نے ٹونک میں گزارے،فرطِ جنون میں ایک دفعہ ہر چیز سے الگ ہوکر ،اجمیر شریف بھاگ گیا!خدا غریق رحمت کرے مولانا معین الدین مرحوم کو،میری اس حالت کو دیکھ کر ان کو ترس آیا،اور خاص ترکیبوں سے انھوں نے پھر ٹونک واپس کردیا،مگر جی نہ لگا،اور دوسرے سال وطن سے بجائے ٹونک کے ،اس آخری قتل گاہ میں پہنچ گیا،جہاں میری شہادت مقدر تھی، یعنی دیوبند پہنچ گیا،دیوبند جس لفظ کو’’سطحیت‘‘ کے مرادف خیال کرتا تھا،اب حقیقت کی تلاش میں اسی دیوبند کی طرف                    میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا۔۔۔۔ جاری

http://www.bhatkallys.com/ur/author/imrankhan/