محسن کتابیں۔ قسط : 02 ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

08:04PM Sun 14 Apr, 2019

اب دل مسلمان صوفیہ کے اقوال واحوال میں بھی لگنے لگا تھا،کشف وکرامت کے ذکر پر اب یہ نہ ہوتا کہ بے ساختہ ہنسی  آجاتی،بلکہ تلاش اس قسم کے ملفوظات و منقولات کی رہنے لگی۔فارسی اور اردو کتابیں بہت سی اس سلسلے میں پڑھ ڈالیں۔مسلمان تو اب بھی نہ تھا،لیکن طغیان اور عداوت کا زور ٹوٹ چکا تھا،محسن کتابو ں کے سلسلے میں محسن شخصیتوں کا ذکر یقیناًبے محل ہے،لیکن اتنا کہے بغیر آگے نہیں بڑھا جاتاکہ اس دور میں دو یا تین زندہ ہستیاں بھی ایسی تھیں جن سے طبیعت رفتہ رفتہ اور بہت تدریجی رفتار سے سہی،لیکن بہرحال اصلاحی اثر قبول کرتی رہی،ایک اردو کے مشہور حکیم وظریف شاعر اکبرؔالہ آبادی ہیں،دوسرے ’’کامریڈ ‘‘کے ایڈیٹر ،اس وقت کے مسٹر اورا سی درمیان مولانا ہوجانے والے محمد علی ،ان دو کے بعد ہلکا ہلکا اثر مولانا حمید الدین مفسر قرآن کا بھی پڑتا رہا۔

 سنہ ۱۹۱۹ء قریب ختم تھا،کہ ایک عزیز کے پاس مثنوی معنوی(کانپوری ایڈیشن)کے چھ ضخیم دفتر دکھائی دئے(اللہ کی رحمت اللہ رعدؔ کی تربت پر اپنی رحمت کے پھول برسائے) کاغذ،کتابت، طباعت کے یہ جملہ محاسن ظاہری سے آراستہ،حاشیہ نہایت مفصل۔چند سال ادھر توجہ بھی نہ کرتا،لیکن اب زمین پوری طرح تیار ہوچکی تھی،معدہ کو غذا گھنٹہ اور منٹ کی پابندی کے ساتھ ٹھیک وقت سے ملی،مطالعہ ذوق و شوق سے شروع کیا،اور ہر ہر قدم پر شوق کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔الفاظ ملنے مشکل ہیں،جن میں اس ذوق و شوق کی کیفیت بیان کی جائے۔فارسی استعداد واجبی ہی تھی،سلوک ومعرفت کے نکات و اسرار الگ ہی رہے،ظاہری لفظی معنی بھی صدہا ہزارہا اشعار کے سمجھ میں نہ آئے،لیکن انہماک کا یہ عالم کہ ایک شعربھی چھوڑنے کو جی نہ چاہتا،اور دل بے اختیار یہ چاہتا کہ جس طرح بھی ممکن ہو سارے دفتروں کو ایک دم سے چاٹ جاؤں،کھانے پینے،ملنے جلنے تک کا ہوش نہ رہا۔طبیعت بے قرار،کہ کمرہ بند کئے بس اسی کو شروع سے آخر تک پڑھے چلا جاؤں،ہر ہر شعر تیر ونشتر بن کر دل کے اندرپیوست ہوتا جاتا،اور تشکیک،ارتیاب’’عقلیت‘‘ ولا ادریت کے بادل ایک ایک کر سب چھنٹتے چلے جاتے،حاشیے علمی رنگ کے دل کو زیادہ نہ بھاتے،خصوصاً شیخ ابن عربی کے نظریات جہاں آجاتے ،وہاں تو دم الجھنے لگتا،کہ تو پھر وہی افلا طون وغیرہ کے طرز کی باتیں آگئیں،جن سے گھبرا کر اور اکتا کر،میں بھاگا تھا،حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے چھوٹے سادے پر مغز حاشیے،جہاں نظر پڑجاتے، طبیعت پھڑک جاتی،اور دل گواہی دے اٹھتا کہ بے شک یہ قول سچے ہی کا ہوسکتا ہے۔

            مولانا نے حضرت رسالتﷺ کے باب میں کہا ہے کہ اس پر کسی معجزہ یا خارق عادت سے دلیل خارجی لانے کے     کیامعنی،پیمبرﷺ کی تو ہر ہر چیز بجائے خود ایک معجزہ ہوتی ہے۔ع

                                                                        روے و آواز پیمبر معجزہ است

            بس اپنا بالکل یہی حال،خود مثنوی سے متعلق تھا۔ہر شعر خود پکار کر شہادت دے رہا تھا کہ میں سچے ہی کی زبان سے نکلا ہوں،کسی اور دلیل اور برہان کی حاجت نہ تھی۔مثنوی کا مطالعہ ہفتوں نہیں مہینوں مسلسل جاری رہا،اور اس ساری مدت میں ایک نشہ سا سر پر سوار رہا۔اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے،چلتے پھرتے بس اسی کی دھن،اسی عالم میں کہیں مرگیا ہوتا تو عجب نہیں کہ نکیرین کے سامنے مذہب کے سوال پر جواب  زبان سے یہی نکلتا کہ’’وہی مذہب ہے جو مولانائے روم کا مذہب تھا‘‘قرآن و رسالت تک پر ابھی ایمان پختہ نہ تھا،بس دلیل سب سے بڑی یہی تھی کہ جب صاحب مثنوی اس پر ایمان رکھتے ہیں،تو کیوں نہ یہ دین سچا ہوگا!

            غالباً اگست ۱۹۲۰  ء تھاکہ ایک عزیز کے پا س مولوی محمد علی لاہوری کا انگریزی ترجمۃ القرآن پڑھنے میں آیا،اور طبیعت نے اس سے بھی بہت گہراا وراچھا اثر قبول کیا۔مغربی راہ سے آئے ہوئے بیسیوں شبہات و اعتراضات ،اس ترجمہ و تفسیر سے دور ہوگئے،اور یہ رائے اب تک قائم ہے۔اس بیس سال کے عرصے میں خامیاں اور غلطیاں بہت سی (بلکہ بعض جگہ تو ایسی جسارتیں،جن کے ڈانڈے تحریف سے مل جاتے ہیں)اس ترجمہ و تفسیر کی ،علم میں آچکیں،لیکن انگریزی خوانوں اور مغرب زدوں کے حق میں اس کے مفید اور بہت مفید ہونے  میں اب بھی ذرا کلام نہیں۔ہدایت کا واسطہ،جب اللہ کی حکمت صریح غیر مسلموں کے کلام کو بنا دیتی ہے،تو یہ تو بہر حال اللہ کے کلام کا ترجمہ و حاشیہ ہے،مترجم کی بعض اعتقادی غلطیوں کی بنا پر ،ان کی ساری کوشش سے بد ظن ہوجانا قرین انصاف و مقتضائے تحقیق نہیں۔

            نیم مسلمان ہوچکنے کے بعد پھر پورا مسلمان بن جانا اور’’ادخلوا فی السلم کافۃً‘‘ کے تحت آجانا،کچھ زیادہ دشوار نہ تھا۔اقبالؒ کی اردو اور فارسی نظمیں،محمد علیؒ کی نظمیں اورتحریریں(خصوصاً زمانۂ نظر بندی ۲۱۔۲۳ء کی)سب اپنا اپنا کام کرتی رہیں،دل میں گھر کرتی گئیں،یہاں تک کہ مکتوبات مجددی نے اس پر پوری مہر لگادی۔مکتوبات کا جو امرتسری نسخہ متعدد جلدوں میں پیش نظر رہا،وہ اپنی صفائی،خوشنمائی اور کثرت حواشی کے لحاظ سے گویا مثنوی ہی کے اسی کانپوری ایڈیشن کی ٹکر کا تھا،اور اثر میں شاید کچھ ہی کم ،مثنوی سے اگر طبیعت میں ایک شورش اور تڑپ پیدا ہوگئی تھی،تواس میں سکون اور ٹہراؤ،مکتوبات ہی کی برکت سے حاصل ہوا۔درمیان میں عطارؒ، سنائیؒ،جامیؒ،شیخ جیلانیؒ،غزالیؒ،سہروردیؒ، وغیرہم اکابر شیوخ کی خدا معلوم کتنی کتابیں نظم ونثر کی نظر سے گزرگئیں،لیکن دل پر نقش انہی دو کتابوں کا سب سے زیادہ گہرا بیٹھا رہا،پہلے مثنوی پھر مکتوبات،حالاں کہ سمجھ میں دونوں کا بڑا حصہ اس وقت تو کیا آتا ،اب تک نہیں آیا!۔

          حال کی انگریزی کتابوں میں ایک قابل ذکر کتاب اور یاد پڑ گئی۔یہ ہے نو مسلم یوروپین لیوپولڈویس محمد اسد کی

 (Islam on the crossroad) 

،دیکھنے میں چھوٹی سی،معنویت کے لحاظ سے بہت بڑی اور گہری ہے،ہر انگریزی خواں کے ہاتھ میں جانے کے قابل۔بڑی مسرت  پڑھ کر یہ ہوئی کہ جو خیالات تہذیب فرنگ واسلام سے متعلق پہلے سے اپنے قائم ہوچکے تھے،یہ مغربی مفکر بھی گویا تمام تر انہیں کی تائید کررہا ہے۔

 سنہ ۱۹۲۷ء تھا کہ ایک دوست کی رہنمائی سے پہلے رسائی مولانا تھانوی مدظلہ (رحمہ اللہ)کے مواعظ اور بعض رسائل سلوک تک ہوئی،اور پھر ۲۸ء میں خود مولانا اور ان کی دوسری تصانیف تک۔اس نے حقائق دینی وعرفانی کا ایک نیا عالم نظر کے سامنے کردیا۔اب ادھر چند سال سے مسلسل مشغلہ،اس بے علم و نااہل کا،خدمت قرآنی کا ہے۔اپنا تجربہ یہ ہے کہ دوسرے حضرات کے یہاں،اکثر اوراق پر اوراق الٹ جانے سے بھی وہ گہرے نکتے نہیں ملتے،جومفسر تھانویؒ کے یہاںچند سطروں کے اندر میسر آجاتے ہیں۔معاصرت کا ابتلا عجیب ابتلا ہے!اللہ سب کو محفوظ رکھے۔جو دیکھنا نہیں چاہتے انہیں آنکھیں چیر کر دکھایا بھی کیسے جاسکتا ہے؟اور یہ صرف تفسیر یا دوسرے علوم ظاہری ہی پر موقوف نہیں ہے،علوم باطنی میں تو پایہ شاید کچھ بلند ہی نکلے۔           ع

                                                            اے لقاے تو جواب ہر سوال

                                                            مشکل از تو حل شود بے قیل وقال

            محسن کتابوںکی تعداد ہے اتنی بڑی کہ سب کی تفصیل لکھی جائے تو بجائے خود ایک کتاب تیار ہوجائے۔مختصر بلکہ مختصر تریہ کہ حدیث میں صحیح بخاری اور اسکی شرح فتح الباری نے آنکھیں کھول دیں،اور فقہ میں شرح صدر کے لئے ائمہ حنفیہ کے اقوال بالکل کافی ثابت ہوئے،فہم قرآنی میں معروف ومتداول تفسیروں کو معین ومفید پایا،ان کی بے وقعتی خود اپنی محرومی کی دلیل ہے۔ان کتابوں کا نام اس بے تکلفی سے لے رہا ہوں،کہ گویاسب کو رواں اور صحت اعراب کے ساتھ پڑھ سکتا ہوں،حالاں کہ یہ ذرا بھی صحیح نہیں ،لغات،شروح ،تراجم کے سہارے کام کسی نہ کسی طرح بس چل ہی جاتا ہے،لغت میں تاج العروس اور پھر لسان العرب کے ساتھ اور لغت قرآنی میں مفردات قرآنی کے ساتھ سب سے زیادہ لگا لپٹا رہتا ہوں۔

            انسانی کتابوں کے ساتھ اور ان کے ضمن میں اللہ کی کتاب کا نام لے آنا، اور دونوںمیں موازنہ و تقابل کی ٹہرانا بڑی ہی بد مذاقی ہے،اور پھر محسن کتابوں میں ’’کتابوں‘‘ (صیغۂ جمع)کا لفظ خود اس پر دلالت کرتا ہے کہ’’الکتاب‘‘ موضوع سے بالکل خارج ہے۔

http://www.bhatkallys.com/ur/author/imrankhan/