سفر حجاز ۔۔(02)۔۔۔ بمبئی ۔۔۔ جہاز۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:13PM Fri 4 Jun, 2021

  باب (۰۲)  بمبئی۔۔۔ جہاز

سفر کا ایک اہم جزو، رفقائے سفر ہوتے ہیں، سفرِ حج میں یہ اہم جزو بہت زائد اہم ہوجاتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس سفر نامہ کا پڑھنے والا اس اہمیت کو خاص طور پر ذہن نشین کرلے، اپنا جس وقت سے سفر حج کا ارادہ ہوا تھا، اسی وقت سے شریکِ زندگی بھی آمادہ سفر تھیں، اور آمادگی محض زبان تک محدود نہ تھی، بلکہ اپنا زیور علیحدہ کرکے روپیہ کا بھی انتظام کرلیا تھا، خوشد امن صاحبہ (والدہ خان بہادر شیخ مسعود الزماں بیرسٹر باندہ جو بعد کو ماشاءاللہ خود بھی حاجی ہوگئے، اور اس وقت صوبہ کونسل کے نہ صرف ممبر بلکہ وائس پریسڈنٹ بھی ہیں ۱۹۴۷ء) بھی عرصہ سے تیار تھیں، میرے آرام کے خیال سے انھوں نے ایک مرد ملازم، ہمارے ہی ہاں کا پروردہ ہمراہ لیا، رام پور کی ایک عزیزہ ساتھ چلنے کو کہہ رہی تھیں، میری درخواست پر ان کے حقیقی بھائی جو اب حیدرآباد میں مصنف ہیں، تنگی وقت کے باوجود بڑی تیزی اور مستعدی کے ساتھ آمادہ رفاقت ہوگئے، اس طرح اپنا اصلی قافلہ کل چھ شخصوں کا ہوا، جن کا کھانا پینا ایک ساتھ تھا، لکھنؤ کی ایک اور عزیزہ (بیوہ ڈپٹی نہال الدین احمد مرحوم) بھی مع اپنے بھائی شیخ حیدر علی قدوائی جگوری کے ہمراہ ہوئی تھیں، ان کے علاوہ گدبہ کے مولوی عبدالباری صاحب ندوی (استاد جامعہ عثمانیہ، جو اب ماشاءاللہ مولانا شاہ عبدالباری ہیں، حضرت تھانویؒ کے خلیفہ مجاز اور جامعہ سے پنشن لے چکے ہیں، اس وقت حضرت ؒ پر ایک ضخیم کتاب جامع المجددین کے نام سے تیار فرمارہے ہیں، ۱۹۴۸ء) مع اپنے والدین اور چار اور اشخاص کے ہمراہ ہو لیے جن میں دو مستورات تھیں، اور اسی قافلہ میں مولانا سید مناظر احسن گیلانی (شیخ الحدیث جامعہ عثمانیہ)بھی شامل تھے جن کا تعارف ناظرین سچ سے بالکل غیر ضروری ہے۔

اس طرح کل ملاکر ہم سب سولہ آدمی ساتھ تھے، لیکن میرا اصلی قافلہ وہی چھ آدمیوں کا تھا۔سفرِ حج کا ساتھ بڑا نازک ساتھ ہوتا ہے، اچھے اچھے گہرے دوستوں کی مدۃ العمر کی دوستیاں اس سفر میں ٹوٹتے دیکھی ہیں اور بھائی سے بھائی کو، باپ سے بیٹے کو، پیر سے مرید کو، اس سفر میں چھوٹ جاتے سنا۔ اسی خوف سے شروع ہی سے بڑی احتیاط رکھی گئی کہ قافلہ بہت بڑا نہ ہونے پائے اور جو لوگ ساتھ ہوں بھی وہ حتی الامکان اپنا اپنا انتظام ایک دوسرے سے علیحدہ رکھیں، آئندہ کے تمام عازمین حج کی خدمت میں مخلصانہ گذارش ہے کہ جب تک کسی دوست یا عزیز پر یہ اعتماد نہ ہو کہ وہ غیر معمولی تحمل و بےنفسی اور صفات اطاعت و انقیاد کا مالک ہے، ہرگز اسے شریک قافلہ نہ بنایا جائے، اور کھانے پینے، رہنے سہنے کا الگ الگ انتظام تو واجبات میں سے ہے۔

بمبئی میں شروع شروع بحمداللہ اپنے کو مخفی رکھنے میں کامیاب رہا لیکن قیام جوں جوں بڑھتا جاتا تھا، اخفاء کا اہتمام دشوار تر ہوتا جاتا تھا۔آخر ایک روز ایک صاحب یہ پیام لے کر آئے کہ انگریزی روزنامہ انڈین ڈیلی میل (اس زمانہ کا بمبئی کا ایک مشہور انگریزی روزنامہ تھا۔) کے نمائندہ صاحب مع کیمرہ کے تشریف لانے کا ارادہ فرما رہے ہیں یعنی میرا بیان شائع کرنے کے ساتھ ہی مجھ عجیب الخلقت کی تصویر سے بھی روشن خیال ناظرین کی ضیافت کی جائے گی گویا اکبر کے اس الہام کی ایک تازہ شرح:

عشاق کو بھی مالِ تجارت سمجھ لیا

اس قہر کو ملاحظہ لِللّٰہ کیجئے

بھرتے ہیں میری آہ کو فونوگراف میں

کہتے ہیں فیس لیجئے اور آہ کیجئے

یہاں بجائے ’’فونوگراف‘‘کے ’’فوٹوگراف‘‘سے کام لیا جانے والا تھا اور پیام کے ساتھ ہی فیس کی جانب بھی اشارہ تھا، جواب میں عرض کیا گیا کہ تصویر کھینچوانا اور اخبار کے لیے بیان لکھوانا الگ رہا، یہاں تو آغازِ سفر سے اخبار پڑھنا بھی ترک کردیا ہے۔ یہاں تک کہ روزنامہ (خلافت) کے دفتر میں رہنے کے باوجود اس اخبار کو آج تک ہاتھ نہیں لگایا ہے اور اپنے خاص الخاص روزنامہ (ہمدرد) کی تو شکل تک بھی نہیں دیکھی! خیر یہ مصیبت تو ٹل گئی لیکن سچ کی محبت اور قدر افزائی جس گروہ کے دل میں اللہ نے ڈال دی ہے، اس کی نظر سے بچا رہنا کیوں کر ممکن تھا۔ بالآخر محبت کرنے والے بھائیوں کی آمدورفت شروع ہوئی، خود اپنے اپنے کاروبار کا ہرج کرکے آتے تھے اور اپنے گھروں پر لے جا کر کھانا کھلاتے تھے، عزیزی معین الدین حارث جامعہ ملیہ کے ایک قابل گریجویٹ ہیں اور اب اپنا ایک روزنامہ اخبار بھی نکال رہے ہیں۔ (حارث صاحب برابر روزنامہ اجمل نکال رہے ہیں اور شاید مسلم سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر بھی ہیں۔) انھوں نے اور میمن برادری کے ایک نوجوان احمد عبداللہ ’’غریب‘‘صاحب (ان ’’غریب‘‘صاحب کے اصل جوہر تو بعد کو کھلتے گئے۔معلوم یہ ہوا کہ یہ انسان کے قالب میں گویا فرشتہ ہے۔کٹلری بازار بمبئی میں ایک معروف دوکان محمد احمد اینڈ برادرز کی ہے۔ان بھائیوں میں سے منجھلے کا نام ہی ’’غریب‘‘ہے، نور کے سانچے میں ڈھلے ہوئے۔ منجھلے بھائی حاجی محمد صدیق ہیں، وہ بھی ان سے کچھ کم نہیں، ایں خانہ تمام آفتاب است۔) نے سادگی و خلوص کے ساتھ دعوتِ شیراز کا نمونہ دکھایا، ان کے ہاں کی سادگی کا پورا مقابلہ حاجی قاسم نور محمد چھاپرا صاحب تاجر چوپ کی ضیافت کے تکلفات نے کردیا۔ حاجی صاحب کو سچ سے خدا معلوم کیوں اتنا حسنِ ظن پیدا ہوگیا ہے۔ پہلے قیام گاہ پر تحائف لے کر آئے پھر اپنے ہاں دعوت دھوم دھام سے کی، اور پھر جہاز پر پھلوں کی بڑی سی ٹوکری خود لےکر آئے، اور ہر موقع پر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنی طرف سے کسی عنایت یا احسان کا احساسِ مطلق نہیں رکھتے بلکہ ان خدمت گزاریوں کو اپنے لیے باعث فخر و سرمایہ سعادت سمجھ رہے ہیں۔

بمبئی میں قیام بارہ دن کرنا پڑا، جہاز کی روانگی کی روز امید بندھتی تھی، مگر ہر صبح کی خبر شام کو غلط نکلتی تھی، یہ بارہ دن کی مدت ضروریاتِ سفر کی فراہمی اور سامان کی خریداری میں گزری، حجاز میں اب ہر قسم کی چیزیں ملنے لگی ہیں، جہاز پر بھی کھانے کا فی الجملہ انتظام ہوگیا ہے۔ (اس کے چند سال قبل تک ہر حاجی جہاز پر اپنا اپنا کھانا پکاتا تھا، جہاز کی طرف سے پکے پکائے کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔) اس لیے سامان بجائے زیادہ لے جانے کے کم سے کم لے جانا چاہیئے۔ ورنہ ایک تو بار برادری میں خرچ  بہت بڑھ جاتا ہے، دوسرے اس کی حفاظت و نگہداشت کی فکر میں قلب کو ہر وقت تشویش رہا کرتی ہے، اور پھر چیزوں کے ٹوٹنے پھوٹنے سے نقصان الگ ہوتا رہتا ہے، چنانچہ یہی ارادہ تھا کہ سامان بہت مختصر اور ہلکا لیا جائے گا، اور اسی ارادہ سے بمبئی کے بازاروں میں خریداری کے لیے نکلے لیکن پھر بھی سولہ آدمیوں کی ضرورتیں پیش نظر تھیں، ہوتے ہوتے کل سامان کا انبار اچھا خاصا ہو گیا، بستر، کپڑوں کی کئی کئی جوڑئے (اگر ایک آدھ رنگین جوڑا بھی ساتھ رہے تو گردوغبار سے محفوظ رہنے میں بہت آسانی رہتی ہے) اور پیچش، بدہضمی، بخار وغیرہ کی مجرب دوائیں گھر سے لےکر نکلے تھے، (حکیم محمد مصطفےٰ صاحب بجنوری مرحوم و مغفور اس زمانہ کے ایک بڑے حاذق طبیب تھے۔ ان کا تیار کردہ بکس شفاء الحجاج (جو متعدد ضروری دواؤں کا مجموعہ ہے) بڑے کام کی چیز ہے۔ ہر حاجی کو حتی الامکان اسے ساتھ رکھنا چاہیئے۔ پتہ یہ ہے: دواخانہ مصطفائی، کرم علی اسٹریٹ، شہر میرٹھ یو، پی) باقی سامان بمبئی میں خرید کیا، ہر شخص کی ضروریاتِ سفر دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، تاہم حسبِ ذیل سامان بمبئی سے خرید کرنا، علی العموم مفید ثابت ہوگا:

احرام کی چادریں (یاتولیے) ڈک چیر (کرمچ کی کرسی)، تھرماس (برف اور چائے رکھنے کے لیے)، چٹائی (فرش کے بہت کام آتی ہے)، ٹارچ (چور بتی)، لالٹین، ہینڈ بیگ، انگیٹھی، کوئلہ کیتلی، ٹین کا پیپا (پانی رکھنے کے لیے)، مشکیزہ، منجمد دودھ، دلیا، ستو، کھچڑی، چائے اور پھل اور جن کو فرش پر سونے میں زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہو، وہ سفری چارپائیاں بھی خرید لیں، اس سارے سامان کی فراہمی میں بہت زیادہ مدد سیٹھ محمد روشن صاحب (تاجر چوب) اور ان کے صاحبزادے میاں سراج احمد سے ملی، جنھوں نے اپنے وقت اور اپنے موٹر کو کئی دن، کئی کئی گھنٹے ہم غریب الوطنوں کی خدمت کے لیے وقف رکھا، اور جن کی رہبری سے ہر سودے میں بڑی کفایت رہی۔

حج اور سفرِ حج صحیح معنی میں ایک مجاہدہ ہے، خودی پر ضرب پوری قوت و شدت کے ساتھ پڑتی ہے اور بندہ کو عملی طور پر بندگی پوری طرح سکھائی جاتی ہے۔ اس کا ایک کرشمہ یہ بھی ہے کہ بندہ کا ارادہ قدم قدم پر توڑا جاتا ہے اور کوئی نقشہ اوقات (پروگرام) خواہ کتنے ہی غوروفکر کے بعد تیار ہوا ہو، سالم و ثابت نہیں رہنے دیا جاتا۔ دریا باد سے قصد یہ تھا کہ موٹر لاری پر روانگی ہوگی اور راستہ میں بانسہ کی مشہور درگاہ (بانسہ ایک چھوٹا سا قصبہ بارہ بنکی کے ضلع میں ہیں، یہاں کے سجادہ نشیں سید ممتاز احمد مرحوم میرے عزیز قریب اور خاص مخلصوں میں تھے، صاحبِ مزار سید شاہ عبدالرزاق بانسویؒ (متوفی ۱۳۶۰ھ) کا شمار بھی میرے خاندانی بزرگوں میں ہوتا ہے۔) پر حاضری دیتے ہوئے لکھنؤ پہونچیں گے۔ لاریاں دریاباد سے روزانہ ایک نہیں تین تین روانہ ہوتی رہتی ہیں (یہ سب ذکر ۱۹۲۹ء کا ہے، ۱۹۴۸ء میں یہ قصہ کہانیاں ہیں) مگر اس روز ہر امکانی تلاش و کوشش کے باوجود ایک بھی نہ مل سکی۔مجبوراً ٹرین سے روانہ ہونا پڑا تھا، گاڑی اس قدر لیٹ آئی کہ راستہ میں بانسہ حاضر ہونے کا وقت باقی نہیں رہا۔ یہ سب کچھ تو عین آغازِ سفر کے وقت پیش آیا تھا۔ لکھنؤ سے ۳ شوال کو شب کے وقت روانگی کا قصد مصمم تھا۔ ۲/کی سہہ پہر کو بمبئی سے تار پہونچا کہ ’’جہاز ابھی نہیں جارہا ہے۔ چند روز کے لئے ارادہ ملتوی کرو‘‘ اسی وقت جوابی تار دے کر مزید تفصیل دریافت کی۔ ۳/کی دوپہر تک کچھ جواب نہ ملا، دفتر خلافت کو ٹیلیفون کرنا چاہا، معلوم ہوا کہ ٹیلی فون کا سلسلہ ٹوٹا ہوا ہے، غرض روانگی سے چند گھنٹے قبل تک تذبذب و تردد ہی رہا تھا۔ یہی صورت بمبئی میں بھی قائم رہی۔ ہر روز جہاز کے دفتر ہی سے مستند و معتبر اطلاعیں موصول ہوتی تھیں لیکن ہر پچھلی اطلاع پہلی اطلاع کو غیر مستند و غیر معتبر ثابت کردیتی تھی! انسانی خودی کا سب سے بڑا مظہر اس کا ارادہ ہوتا ہے، اسی ارادہ کو چکنا چور کیا جاتا ہے۔مغرور و نادان انسان حج کے قصد سے نکلا ہے۔ پھر بھی اپنے ہی ارادہ کو غالب و حاکم رکھنا چاہتا ہے! اپنی بےبسی کے اعتراف اور اپنی ہیچ مائگی کے اقرار کو اٹھا ہے پھر بھی اپنے ہی کو اختیار و قدرت و الاثابت کرنا چاہتا ہے! عبودیت و بےچارگی، بندگی و بیکسی کا سبق لینے کو چلا ہے پھر بھی اپنی ہی خدائی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ انکسار و افتقار اور ماندگی و شکستگی کی تعلیم اگر اس سفر میں بھی نہ ملے تو آخر کب ملے گی؟

بارہ دن تک ہماری پوری پارٹی دارالخلافہ میں مہمان رہی، مہمانی کے یہ معنی نہیں کہ اتنے روز تک ہم سب کا بار خلافت فنڈ پر پڑتا رہا۔اس کے برعکس ہم سب کے کھانے پینے کے بل برابر تیار ہوتے رہے اور چلتے وقت ہم سب اپنے حسابات آنہ پائی سے بیباق کرکے آئے۔ بلکہ اکثر مہمانوں نے اصلی حساب سے زائد ہی خلافت فنڈ کی خدمت میں نذر کردیا، جس قدر کفایت یہاں ٹھہرنے میں ہوئی، بمبئی کے کسی ہوٹل میں ممکن نہ تھی اور جس قدر آرام یہاں ملا، یہ بھی اتنے خرچ میں بمبئی کے کسی ہوٹل میں ممکن نہ تھا۔ مولانا شوکت علی ہر وقت جس طرح خاطر داریوں میں لگے رہتے تھے اور ان کی وجہ سے ہر معاملہ میں جتنی سہولت رہی۔اس کا شکریہ الفاظ کے ذریعہ سے ادا کرنا دشوار ہے۔عزیزی زاہد علی خاں سلمہ، جو ’’زاہد‘‘ خشک نہیں، اس باب میں شاید باپ سے بھی کچھ قدم آگے ہیں اور ’’اگر پدر نہ تو اندپسر تمام کند‘‘ کے مصداق۔مولانا عرفان (ناظم مالیات خلافت)، قمر صاحب (ایڈیٹر روزنامہ خلافت)، مولانا عزیزالرحمٰن صاحب دہلوی، ان سب کی کوششیں اور عنایتیں رسمی شکریہ کے حدود سے بالاتر ہیں۔ (مولانا محمد عرفان اور مولانا عزیز الرحمٰن تو اب مرحوم ہوچکے، قمر احمد صاحب بی، اے، ایل، ایل، بی (علیگ) ماشاءاللہ بہ خیریت ہیں، البتہ بمبئی کی سکونت مدت ہوئی ترک کرکے اپنے وطن غازی پور میں اب مقیم ہیں۔)۔

اکثر حاجیوں کے سامنے ایک سوال، روپیہ کے رکھنے کا ہوتا ہے، نقد روپیہ سب اپنے ساتھ رکھیے تو خواہ مخواہ ایک بار اور ہر وقت کی فکر حفاظت کا اضافہ ہوتا ہے۔ ہندوستان میں متعدد کمپنیاں اور ایجنسیاں ایسی ہیں جہاں روپیہ بآسانی جمع ہوجاتا ہے اور حجاز میں بحفاظت تمام مل جاتا ہے۔ دہلی کے حاجی علی جان مرحوم کی کوٹھی، اس بارے میں قدیم اور سب سے زیادہ مشہور ہے۔ان کا کاروبار بڑے پیمانے پر ہے اور مکہ و مدینہ دونوں جگہ ان کے معزز و دیانت دار کارکن موجود ہیں، ہم لوگوں کو اس توسط کی ضرورت نہیں پڑی، ہم نے اپنا بیشتر روپیہ بمبئی کے مشہور سیٹھ محمد عمر بھائی چاند بھائی (ناگ دیوی اسٹریٹ) خازن جمعیتہ خلافت کے حوالہ کردیا اور جدہ، مدینہ منورہ، مکہ معظمہ میں ان کے ایجنٹوں کے نام چٹھیاں لے لیں، تھوڑا سا روپیہ شیخ ابراہیم عبداللہ الفضل (نیو کوئنس روڈ چوپاٹی) کے پاس جمع کرادیا، یہ ذریعہ بھی بہت معتبر ہے۔ شیخ عبداللہ الفضل نجدی الاصل ہیں اور سلطان ابن سعود کے خاص مقربوں میں ہیں، ان کے ایک بھائی شیخ عبدالرحمٰن الفضل جدہ کے مشہور تاجر ہیں اور دوسرے بھائی محمد الفضل مکہ معظمہ میں نائب گورنر ہیں۔ (افسوس کہ الفضل کا یہ سارا خاندان مدت ہوئی بمبئی چھوڑ کر چلا گیا اور اب ان میں سے اکثر صاحبان غالباً اس عالم میں موجود بھی نہیں۔)۔

الفضل صاحب سے بمبئی میں ملاقات بھی ہوئی اور اب کی سال یہ بھی عازمِ حج ہیں اور مجھ سے چند روز کے بعد روانہ ہوں گے۔ جہاز پر جو لوگ چاہیں کپتان کے پاس بھی اپنا روپیہ امانت رکھا سکتے ہیں۔

بمبئی اور کراچی میں حاجیوں کی جہازی کمپنیاں تین ہیں۔مغل لائن، نمازی اور شوستری، نمازی اور شوستری مسلمانوں کی ہیں لیکن ان پر مشترکہ کمپنیوں کا اطلاق مشکل ہی سے ہوسکتا ہے خصوصاً شوستری تو بہت ہی چھوٹی ہے۔ (طبع ثانی کے وقت تک نمازی اور شوستری کمپنیاں ختم ہوچکی ہیں اور اب مغل کمپنی کے مقابلہ میں صرف سندھیا کمپنی (حج لائن) کا وجود باقی ہے۔) مغل لائن کسی زمانے میں مسلمانوں کی تھی۔ اب اس پر تمام تر قبضہ اس کے ایجنٹ ٹرنرماریسن اینڈ کمپنی کا ہے، دراصل ان سب کے جہاز مال لادنے کے ہیں، اور سال کے بیشتر حصہ میں یہی کام کرتے ہیں۔ حج کے زمانہ میں انھیں ’’مال گاڑیوں‘‘ کو ’’سواری گاڑی‘‘ بنادیا جاتا ہے اور ان پر بےجان مال و اسباب کی جگہ جاندار حاجیوں کو لادا جانے لگتا ہے۔ ٹرنرماریسن کمپنی کے چھ ڈائریکٹر ہیں، ان میں سے صرف ایک مسلمان ہیں باقی پانچوں انگریز کمپنی کی شاخیں رنگون سے لےکر سوئز تک خلیج بنگال، بحرہند، خلیج فارس بحر عرب، بحر روم میں ۲۳ مقامات پر قائم ہیں، کارکن زیادہ تر انگریز ہیں، لیکن بحرین بندر عباس، بوشہر، جدہ، کراچی، کویت، مکلا وغیرہ میں مسلمان ایجنٹ ہیں، بمبئی کا ایجنٹ براؤن نامی ایک انگریز ہے۔ لوگ اس کے مزاج اور اخلاق کی تعریف کرتے ہیں، اور مولانا شوکت علی کا بیان ہے کہ براؤن بڑا شریف انگریز ہے۔کمپنی آٹھ جہازوں کی مالک ہے۔اور جہازوں کی تعداد نیز عام انتظامات کے لحاظ سے دوسری کمپنیوں سے بڑی اور بہتر ہے۔ (اب اس کمپنی کے پاس اور بھی بہتر جہاز ہوگئے ہیں جن میں بہترین کہا جاتا ہے کہ ’’مظفری‘‘ہے۔)۔

اس کمپنی سے سفر کرنا طے پایا۔ ابتک ایسا ہوتا تھا کہ مقابلہ کی کشمکش کے وقت بعض کمپنیاں اپنا کرایہ گھٹادیتی تھیں۔اب کی یہ صورت اس وقت تک نہ تھی اور نہ آئندہ کبھی اس کی توقع رکھنا چاہیے۔ کفایت کے وہ زمانے اب خواب و خیال ہوگئے ہیں۔ ہر کمپنی کا کرایہ یکساں اور بڑی سے بڑی سرکاری شرح کے مطابق تھا (۱۹۴۸ء کے کرایوں کو ۱۹۲۹ء کے ان کرایوں سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ موجودہ شرح اس وقت سے کئی گنا گراں ہوگئی ہے۔ اب کوئی صاحب ہرگز ان پرانی شرحوں کے بھروسہ پر نہ رہیں۔) یعنی تیسرے درجہ یا ڈک عر شہ جہاز کے لئے۔    ایک سو پچانوے روپے، آمدورفت سیکنڈ کلاس کے لئے چار سو پانچ روپے، آمدورفت (کفایت واپسی ہی کے فرسٹ کلاس) پانچ سو پچاس روپے ٹکٹ میں ہوتی ہے اور واپسی کی مدت اٹھارہ مہینے ہوتی ہے)۔

جہاز کے ٹکٹ کے لیتے وقت وہ منظر پیشِ نظر ہوتا ہے جو کسی نہان یا میلہ کےزمانے میں ہندوستان کے ریلوے اسٹیشنوں پر تھرڈ کلاس کے ٹکٹ گھروں کا ہوتا ہے، وہی ریل پیل، وہی دھکم دھکا، وہی انسانیت کی جگہ حیوانیت کی نمائش اور درندگی کا غلبہ پھر پاسپورٹ حاصل کرنے کا معرکہ (۱) اس پر مستزاد لیکن ہم لوگوں کے حق میں خلافت کمیٹی کا وجود آیۂ رحمت ثابت ہو کر رہا:

  حل ایں نکتہ ہم روئے نگار آخرشد

   مولانا شوکت علی اور دوسرے کارکنانِ خلافت کی نگاہِ توجہ نے اس مشکل کو آسان کر دیا اور گھر بیٹھے ہم لوگوں کو پاسپورٹ اور ٹکٹ حاصل ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) پاسپورٹ، سب سے بہتر تو یہ ہے کہ اپنے ہی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے حاصل کر لیے جائیں ورنہ پھر بمبئی میں بھی تین روپیہ فیس داخل کرنے پر مل سکتے ہیں۔ کراچی تو اب ہندوستان کی حدود سے خارج ہوکر ملکِ پاکستان کی بندرگاہ ہے۔

ناقل: محمد بشارت نواز

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid