محسن کتابیں 02 تحریر: مولانا عبید اللہ سندھی

Bhatkallys

Published in - Other

01:16PM Mon 13 May, 2019

اس کے بعد میری محسن کتابوں میں ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ہے،جس کے زور سے میں قرآن سمجھا،حدیث سمجھا،فقہ سمجھا۔حجۃ اللہ کو میں ایک مرکزی حیثیت سے اپنی محبوب کتاب مانتا ہوں،ورنہ شاہ صاحب کی ہر سطر میری محسن ہے۔حجۃ اللہ کے بعد شاہ صاحب کی کتابوں میں سے ’’الفوز الکبیر‘‘، فتح الرحمٰن،بدور بازغہ کی بہت زیادہ اہمیت میرے دماغ میں ہے۔

            محسن کتابوں کے سلسلے میں اگر میں ان دو کتابوں کے بعد کوئی کتاب لکھوا سکتا ہوں،تو وہ مولانا شہیدؒ کی عبقات ہے،جس نے حجۃاللہ کے مقدمے کا کام دیا۔

شاہ صاحب کی تصنیفات کے مطالعے کی ترتیب اور ان کے مقدمات:

            جس نے’’سلّم‘‘ کی شروح پڑھی ہوں،اس کا درجہ آج وہی ہے،جو پہلے شرح مطالع پڑھنے والے عالموں کا تھا۔ایک ذکی نوجوان طالب علم جب اس درجے سے فارغ ہوجائے،تو اس کو سب سے پہلے شاہ رفیع الدین صاحبؒ کی ’’تکمیل(صناعۃ )الأذھان‘‘ پڑھنی چاہئے،اس کے بعد عبقات،اس کے بعد ’’سطعات‘‘، اس کے بعد ’’البدور البازغۃ‘‘،مگر مقدمہ چھوڑ کر،اس کے بعد حجۃ اللہ البالغۃ،اس کے بعد الفوز الکبیر، اس کے بعد فتح الرحمٰن،فتح الرحمٰن پڑھتے ہوئے تمام تفسیریں ، جو ممکن ہوں سامنے رکھ لی جائیں،ان کا جو فائدہ غریب اور عام مفسرین سے ایک علاحدہ سی بات معلوم ہو،اس کو خاص طور پر قابل توجہ سمجھا جائے،اس نکتے پر تمام تفسیریں مطالعہ کی جائیں،اس کے بعد یہ معین کرنا ہوگا کہ کیا راز تھا کہ شاہ صاحب نے عام مفسرین کا مسلک ترک کردیا،جو چیز سمجھ میں آجائے،اس کو مستقل محفوظ کرلیا جائے،کبھی کسی مخالف کی کوئی بات نہ مانی جائے۔

            اس سلسلے میں مولانا محمدقاسمؒ کی کتابیں بھی ہمارے نزدیک ان حضرات کی کتابوں کی طرف تقریب کرنے والی ہیں،ایک کالج کا طالب علم پہلے یہی کتابیں زیادہ دیکھے،اور جو اسے اجنبی حصے معلوم ہوں،انہیں چھوڑتا چلا جائے،اور بار بار دیکھے،تو وہ شاہ صاحبؒ کی تصنیفات سمجھنے کی استعداد پیدا کر لے گا۔آخر میں ’’تفہیمات الہیہ‘‘دنیا کے مختلف معرکۃ الآرا مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک اہم تصنیف سمجھنی چاہئے،مگر اس وقت ذہنیت اتنی وسیع ہو کہ شیطان سے بھی حکمت سیکھ سکتا ہو۔

شاہ صاحب کا سیاسی مسلک اور ازالۃ الخفاء:

            ہم نے سب سے پہلے’’ازالۃ الخفاء‘‘میں اس آیت کی تفسیر بڑے غور سے پڑھی ’’ھوالذی أرسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون.‘‘شاہ صاحبؒ کی کتابوں میں ہم نے جتنا زیادہ غور کیاہے،یہی تفسیر ان کی ساری حکمت سیاسی کا مرکزی نقطہ معلوم ہوا۔

            شاہ صاحب کی ازالۃ الخفاء میں فاروق اعظمؓ کے مذہب کا جو رسالہ ہے،وہ ایک بے نظیر کتاب ہے،میں صحاح ستہ میں سے پانچ کتابوں کو مؤطا کی شرح بناتا ہوں،اس کے بعد مؤطا کو اس فاروق اعظمؓ کے مذہب کی شرح بناتا ہوں،اس سے میرے تمام شکوک حل ہوگئے،اور قانون کے مختلف زبانوں میں تبدیلی کی ضرورت صاف ہوگئی۔

            فاروق اعظمؓ کے زمانے کی جو چیز تھی،اسی نے بنی امیہ کے آخر دور میں مؤطاکی شکل اختیار کرلی،اور مؤطا عباسیوں کے دور میں بخاری،مسلم،ابوداود اور ترمذی کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ہم ان چار حدیث کی کتابوں کو چار انجیلوں کی طرح’’صحف الہیہ‘ میں شمار کرتے ہیں،وہ تو رات کی تشریح کرتی ہیں،یہ قرآن کی تشریح کرتی ہیں،مگر اس میں احتیاط کی ضرورت ہے کہ حجۃ اللہ کے قاعدے پر تلقی کے دونوں طریقوں کو ہر روایت میں جمع کرلیا جائے،اس کے بعد فقط مستفیض اور متواتر کو سند بنایا جائے،آحاد خبروں کو رائے کے درجے پر چھوڑ دیا جائے اس میں تبدیلی بقدر ضرورت آسانی سے ہوسکتی ہے۔

            ازالۃ الخفاء میں شاہ صاحبؒ نے قرون ثلاثہ کی جو تفسیر کی ہے،ہم نے آج تک دوسرے عالم سے یہ تفسیر نہیں سنی،ہم اس کو شاہ صاحبؒ کے بہت اعلیٰ علوم میں شمار کرتے ہیں۔

            مجھ سے یورپ میں بارہا سوال کیا گیا کہ قرآن کا آپ کے نزدیک کیا مطلب ہے؟یعنی  میں اپنے فلسفی انداز میں کس طرح تفسیر کرتا ہوں؟میرا جواب یہ تھا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت تک جو کچھ مسلمانوں کی جماعت نے کیا (رسول اللہﷺ کے زمانے تک)وہ قرآن کا مقصد ہے،اس کی تشریح میں جس فلسفے سے چاہوں کرسکتا ہوں،متن یہ ہے،قرآن کا مقصد یہ ہے۔

            شاہ صاحبؒ نے اپنے زمانے کی ردو  دیکھ کرشیعہ سنی کا مسئلہ ہاتھ میں لیا،اور اسی کو اپنی حکمت بیان کرنے کا یک عنوان بنا لیا،وہ کہتے ہیں:شیخینؓ،انبیاء کے بعد سب سے افضل ہیں،اس لئے کے وہ نبی سے بہت زیادہ مناسبت رکھتے ہیں،اب ضرورت پڑی کہ بتایا جائے کہ نبوت کیا کرتی ہے،اور انہوں نے کیا کیا؟تو حکمت کے دونوں باب حل ہوگئے۔نبوت کا مطلب بھی معین ہوگیا،اور خلافت راشدہ کا مضمون بھی صاف آگیا۔

            شاہ صاحبؒ کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابوبکرؓ کے دور کو عمرؓ کے دور کی تمہید سمجھتے ہیں،اور عثمانؓ کے دور کو اس کا نتیجہ یا تکمیل۔اب اس تمام خلافت میں وہ اصلی چیز فاروق اعظمؓ پر توجہ کرتے ہیں،اور فاروق اعظمؓ نے چونکہ کسریٰ قیصر کی حکومت فتح کرکے ایک حکومت بنائی تھی،جو شاہ صاحبؒ کی تفسیر میں مقصد تھا نزول قرآنی کا،تو فاروق اعظمؓ کے کام کو وہ نبوت کے بعد قرآن کا بہترین مصداق مانتے ہیں،اور اسی پر وہ ساری قوت صرف کردیتے ہیں،چونکہ وہ فاروقی ہیں،اس لئے وہ پوری ہمت سے اس مسئلے کو واضح کرنے کی طبعی استعداد رکھتے ہیں،اور جب ایک صدیق اعظمؓ کی سیرت ایک صدیق لکھ دے،تو پھر نبوت کے بعد بزرگوں کے معیار سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

            شاہ صاحبؒ کی کتابوں میں صاف نمایاں نظر آتا ہے،کہ جس قدر  وجدانی فیوض اپنے والد ماجد کے ذریعے ان کو حاصل ہوئے،ان میں زیادہ تر حضرت علی کرم اللہ وجھہ کا واسطہ ہے،اس لئے وہ ائمۂ اہل بیت سے قلبی محبت صحیح معنی میں رکھتے ہیں،مگر ان کے طریقے کو جس قدر تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت تھی،ادھر وہ متوجہ نہیں ہوئے۔میں نے شاہ صاحبؒ کے تتبع میں اس حصہ کو پورا کرلیا ہے اور وہ میرے خواص علوم میں سے ہے۔

دو اور محسن کتابیں:

            میری ایک محسن کتا ب’’ ۔۔احکام القرآن‘‘ابوبکر رازی ہے۔اسلامی سیاست اجتماعی کے بعض ایسے مسائل جو حجۃ اللہ میں رہ گئے تھے،میں اسی کتاب سے حاصل کرسکا۔

            یورپ میں میری سیاحت کے لئے مولوی الیاس صاحب برنی کی ’’علم المعیشت‘‘ بھی ایک محسن کتاب ہے۔اگر یہ کتاب مجھے نہ ملتی ،تومیں کسی یوروپین کے اقتصادی پروگرام کو سمجھنے کے قابل نہ ہوتا۔