اکتوبر 01 :-: نامور شاعر اور نغمہ نگار مجروحؔ سلطان پوری کا یومِ ولادت ہے

از: ابوالحسن علی بھٹکلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول‘‘ جیسے گانوں کے خالق مجروح سلطان پوری کا اصل نام اسرارالحسن خان تھا۔ وہ یکم اکتوبرسنہ1919 کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد سب انسپکٹر تھے۔ مجروح نے صرف ساتویں جماعت تک اسکول میں پڑھا پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور سات سال کا کورس پورا کیا۔ درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے، جس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔
مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں ہوتا ہے۔ جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔ مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت ’غم دئے مستقل ۔۔۔‘ 1945ء میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔ اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔ پھر مجروح کا یہ فلمی سفر پانچ دہائیوں تک چلتا رہا۔ البتہ مجروح کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی شاعری کو فلم یا فلمی دنیا کے حوالے سے جانا جائے۔ وہ اپنی شاعری کو معاشرے میں پھیلی منافقت کا ردّعمل باور کرتے تھے۔
فلمی دنیا کی مقبول نغمہ نگاری اور اردو شاعری کی لازوال خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مجروح کو بھارت کے دو عظیم فنی ایوارڈوں ’’اقبال سمّان ایوارڈ‘‘ اور ’’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘‘سے نوازا گیا۔
بعض ناقدین کے بقول مجروح ادبی شاعری پر توجہ دینے کے بجائے فلمی دنیا کی نذر ہوگئے۔ ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔ ان کے فلمی نغموں کی مقبولیت آج بھی اسی طرح ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے فلم شاہ جہاں کے گیت لکھے جن کی ہر طرف دھوم مچ گئ ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے:
کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا ۔۔۔ ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
مجروح کا گیت:جب دل ہی ٹوٹ گیا۔۔۔ ۔بے حد مقبول ہوا۔ اس گیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کے۔ ایل۔ سہگل کے جنازے کے ساتھ بجایا گیا۔
ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔
مجروح نے پچاس سال فلمی دنیا کو دیئے۔ انھوں نے300 سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے۔ ان کے سینکڑوں نغمے آج بھی ان کے شیدائیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔
اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول۔۔۔ ہمیں تم سے پیار کتنا۔۔۔ ان کے چند مشہور گیتوں میں سے ہیں۔
اردو غزل کا یہ البیلا شاعر 24 مئی 2000 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیےٴ ہیں ہم نے عزیزو، چار گریباں تم سے زیادہ
چاکِ جگر محتاجِ رفو ہے، آج تو دامن صرف لہو ہے
ایک موسم تھا ہم کو رہا ہے شوقِ بہاراں تم سے زیادہ
عہدِ وفا یاروں سے نبہائیں، نازِ حریفاں ہنس کے اُٹھائیں
جب ہمیں ارماں تم سے سوا تھا، اب ہیں پشیماں تم سے زیادہ
جاؤ تم اپنے بام کی خاطر، ساری لوویں شمعوں کی کتر لو
زخم کے مہر و ماہ سلامت، جشنِ چراغاں تم سے زیادہ
ہم بھی ہمیشہ قتل ہوئے اور تم نے بھی دیکھا دور سے لیکن
یہ نہ سمجھنا ہم کو ہوا ہے جان کا نقصاں تم سے زیادہ
زنجیر و دیوار ہی دیکھی تم نے تو مجروح، مگر ہم
کوچہ کوچہ دیکھ رہے ہیں عالمِ زنداں تم سے زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دُور دُور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے
ہر قدم ہے نقشِ دل، ہر نگہ رگِ جاں ہے
بن گئی ہے مستی میں دل کی بات ہنگامہ
قطرہ تھی جو ساغر میں لب تک آ کے طوفاں ہے
ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اِک سجدہ
سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے
میرے شکوۂ غم سے عالمِ ندامت میں
اُس لبِ تبسّم پر شمع سی فروزاں ہے
یہ نیازِ غم خواری، یہ شکستِ دل داری
بس نوازشِ جاناں، دل بہت پریشاں ہے
منتظر ہیں پھر میرے حادثے زمانے کے
پھر مرا جنوں تیری بزم میں غزل خواں ہے
فکر کیا انہیں جب تو ساتھ ہے اسیروں کے
اے غم اسیری تُو خود شکستِ زنداں ہے
اپنی اپنی ہمت ہے، اپنا اپنا دل مجروحؔ
زندگی بھی ارزاں ہے، موت بھی فراواں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا
سوزِ جاناں دل میں سوزِ دیگراں بنتا گیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
دھیرے دھیرے نغمۂ دل بھی فغاں بنتا گیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغرِ ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیرِ مغاں بنتا گیا
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا
شرحِ غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور
لفظ جو منہ سے نہ نکلا داستاں بنتا گیا
دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا