محسن کتابیں۔۔۔01۔۔۔ تحریر: مولانا مناظر احسن گیلانی

Bhatkallys

Published in - Other

04:16PM Mon 20 May, 2019

مولانا سید مناظر احسن گیلانی

            ولادت:استھانوں(ضلع پٹنہ) جو مولانا کا ننھیال تھا۔

        مورخہ۹ربیع الاول  ۱۳۱۰ھ ،مطابق ۲  اکتوبر  ۱۸۹۲ء

            عالم باعمل،فاضل بے بدل،حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی،اپنے گوناگوں کمالات اور متعدد صفات کی وجہ سے دور حاضر میں برصغیر کے ان علماء میں سے تھے،جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے،بقول مولانا دریابادیؒ:دور حاضر کے طبقہ علماء کے خواص میں نہیں،بلکہ اخص الخواص میں تھے۔

            آپ گیلانی (ضلع نالندہ ،بہار)کے مشہور خاندان سادات حسینیہ واسطیہ کے فرد فرید تھے۔گھر پر ابتدائی عربی تعلیم کے بعد ٹونک کے مشہور معقولی عالم مولانا سید ابوالبرکات ٹونکی سے معقولات کی اعلی تعلیم حاصل کی،پھر دیوبند جاکر حدیث کی تکمیل کی۔اس کے بعد مختصر مدت کے لئے دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دی۔اور اسی زمانے میں دارالعلوم دیوبند سے نکلنے والے دونوں رسالوں،القاسم اور الرشید کی ادارت کے فرائض بھی انجام دئے۔۱۹۲۰  ء میں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے وابستہ ہوئے۔اخیر میں کئی سال شعبۂ دینیات کی صدارت کو زینت بخش کر ۱۹۴۹  ء میں وظیفہ پر سبکدوشی حاصل کی،اور اپنے وطن گیلانی میں مقیم ہوگئے۔

            حضرت شیخ الہندؒ سے بیعت تھے،مگر ان کی اسارت مالٹا کی وجہ سے اس سلسلے میں استفادے کا موقع نہیں ملا،قیام حیدرآباد کے  زمانے میں شیخ حبیب العیدروس سے سلسلۂ قادریہ میں تربیت حاصل کی،اور خلافت سے سرفراز ہوئے،پھر حیدرآباد ہی کے ایک اور بزرگ مولانا محمد حسین ساحب سے سلسلۂ چشتیہ میں خلافت پائی۔

            مولانا کو تفسیر،حدیث،فقہ تمام علوم شرعیہ میں پورا  ادراک تھا۔نیز وہ معقولات کے دقیق النظر عالم تھے،اور تاریخ پر بھی وسیع نظر رکھتے تھے۔ساتھ ساتھ وہ ایک حقیقت پسند و باخبر عالم دین، اور عہد حاضر اور نسل جدید کے نبض شناس تھے۔مولانا کو اللہ تعالی نے عجیب نکتہ رس اور نکتہ آفریں دماغ،اور درد مند اور پرمحبت دل عطا فرمایا تھا۔ان کی نکتہ آفرینی اور دقیقہ سنجی قرآنی موضوعات میں سب سے نمایاں تھی۔مولانا کا اسلوب نگارش نرالا تھا،ادبی بانکپن اور سوز دروں کا آمیزہ،کہ پڑھنے والا اکثر وبیشتر جھوم اٹھتاہے،نثر کی طرح نظم پر بھی پوری قوت حاصل تھی۔

            آپ کی مشہور کتابوں میں النبی الخاتم،ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت،تدوین حدیث،ابوذر غفاریؓ،اسلامی معاشیات،تذکرہ شاہ ولی اللہؒ،امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی اور سوانح قاسمی وغیرہ ہیں۔

            وفات: گیلانی،۲۵ / شوال ۱۳۷۵  ھ ،مطابق /۵ جون  ۱۹۵۶  ء

            مدفن: گیلانی

            خاکسار کا خاندان چند پشتوں سے مولویوں کا خاندان ہے۔میرے جد امجد مولانا محمد احسن گیلانی مرحوم، صوبۂ بہار کے مشہور معقولی مدرس تھے۔والد مرحوم تو نہیں،لیکن میرے عم مغفور مولانا حکیم حافظ سید ابوالنصر گیلانیؒ ،درس نظامیہ کے عالم تھے،درس وتدریس کا مشغلہ تو ان کاکم تھا،لیکن مطالعے مین مسلسل منہمک رہتے تھے۔ اس زمانے کے عام مولویوں کے اعتبار سے ان کے مطالعے کا دائرہ وسیع تھا،عربی،فارسی کے ساتھ ساتھ اردو کی علمی کتابوں کا پڑھ لینا اپنی کسر شان نہیں سمجھتے تھے ،اس لئے مولانا شبلی،سرسید،حالیؔ،ڈپٹی نذیر احمدؔ وغیرہ جیسے لوگوں کی کتابوں تک کا مطالعہ بہ شوق کرتے تھے،اگرچہ ان لوگوں کے مستغربانہ میلانات سے متفق نہیں تھے۔میں نے ان ہی کے آغوش تربیت میں آنکھیں کھولیں،چوں کہ خود  لاولد تھے،اس لئے بجائے بیٹے کے مجھے مانتے تھے اور چاہتے تھے۔تین ہی سال کی عمر میں جب الفاظ کے تلفظ پر زبان گونہ قادر ہو چکی تھی،سینکڑوں فارسی کے الفاظ مجھے یاد کرا دیے تھے۔یہ واقعہ ہے کہ ایک زمانے تک کتے کو  ’’سگ‘‘ کے سوا میں نہیں جانتا تھا کہ کچھ اور بھی کہتے ہیں،بعض دفعہ گھر کی عورتوں کو میری اس فارسی دانی سے کافی مشقت میں مبتلا ہونا پڑا۔٭(اپنی ننھیال موضع استھانوں میں تھا،عورتیں کسی تقریب میں باہر گئی ہوئی تھیں،اکیلا میں ہی گھر میں تھا،یا اور کوئی کھلائی بھی ہو،بہر حال میں نے باورچی خانے میں کتے کو جاتے دیکھا،عورتیں جب آگئیں،تو میں نے اپنی نانی صاحبہ کو مخاطب کر کے کہنا شروع کیا’’سگ آیا تھا بھات کھا گیا‘‘وہ بیچاری حیران کہ سگ بھات کو کھا گیا،کیا مطلب ہے!والدہ مرحومہ میری اصطلاحوں سے واقف تھیں،جب وہ آئیں مسئلہ حل ہوا)۔اسی زنمانہ میں دادا مرحوم کے ایک پنجابی شاگرد ملا عبداللہ مرحوم میرے گاؤں میں توطن پذیر  ہوگئے تھے،اور مختلف مؤثرات کے تحت دہلی جاکر مولانا نذیر حسین مرحوم کے حلقے میں پہنچ کر حنفی مسلک کو چھوڑ کر عمل بالحدیث یا غیر مقلدیت کا مسلک اختیار کر لیا تھا،چچا مرحوم سخت غالی حنفی تھے۔ملا عبداللہ سے حالاں کہ انھوں نے کچھ پڑھا بھی تھا،لیکن مقلدیت و غیر مقلدیت کی بحث میں الجھ کر دونوںمیں مختلف کلی اور جزئی مسائل کے تحت رات دن مباحث کا بازار گرم رہتا تھا،خصوصاً طلاق ثلاثہ مجلس واحد مغلظہ ہے یا یارجعی،اس نزاع میں تو رسالہ بازیوں تک کی نوبت آئی،طرفین سے متعدد رسالے تھوڑے تھوڑے وقفے سے شائع ہوتے رہتے تھے۔میں نے جب ہوش سنبھالا،اور چچا مرحوم ہی سے مکتبی تعلیم کا آغاز ہوا،تو میرا علمی ماحول یہی تھا،ابن حجر،ابن قیم،ابن تیمیہ،شوکانی ان باتوں کی بار بار تکرار سے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ ہم ان ہی لوگوں میں پیدا ہوئے ہیں،اور جب ان لوگوں کی یہ حالت تھی ،تو پھر بخاری، مسلم، امام ابوحنیفہ،ابو یوسف،ابو ہریرہ، ابن عمر کے متعلق اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا حال ہوگا!۔اس مکتبی دور میں مجھ پر سب سے زیادہ کس کتاب کا اثر پڑا،وہ عجیب ہے!فطرتاً میں سخت بد شوق بچوںمیں شمار ہوتا تھا۔چچا مرحوم نے مارمار کر میری کھال تک بعض دفعہ ادھیڑ دی،لیکن پڑھنے کی چوری سے کبھی باز نہ آتا تھا۔اتفاقاً ایک اردو کی کتاب جس کے ابتدائی صفحات غائب تھے،کہیں گھر میں مل گئی،یہ کسی انگریزی کتاب کا ترجمہ تھا،اب بھی نہیں معلوم کہ ا سکا نام کیا تھا،لیکن اس کا اثر اب تک تازہ ہے!قصے کی کتاب تھی،پوراقصہ تو اب یاد نہیں رہا،لیکن اتنا یاد رہ گیا ہے کہ ایک پادری اپنے باغ میں رہتا تھا،بچوں کو کچھ پڑھاتا بھی تھا،اور نجاری وغیرہ جیسی بعض صنعتیں بھی سکھاتا تھا،طلبہ کو اپنے باغ کے میوے رس بھری وغیرہ کھلاتا تھا،بچوں میں ہری اورٹامی نامی دو خاص کیریکٹر کے لڑکے تھے،ان میں ہری سعادت کا اور ٹامی شقاوت کا نمونہ تھا،ہری کے جوحالات اس کتاب میں درج تھے،ان سے غیر شعوری طور پر میرا دل متأثر ہوا،اور اس کی زندگی کا جو نقشہ پیش کیا گیا تھا،ایسامحسوس ہوا کہ کاش!یہی زندگی مجھے بھی میسر آتی!اور اب مجھ میں کچھ پڑھنے کا شوق گدگدی لینے لگا،چچا مرحوم کی بدگمانیوں کا شکار تھا،پٹائی کا سلسلہ مسلسل جاری تھا،اور اب اس کے بعد میرے لئے یہ ماردھاڑ،بجائے نفع کے،باعث نقصان بنتی چلی جارہی تھی۔اسی عرصہ میں چند دوستوں نے مجھے’’داستان امیر حمزہ‘‘ دکھائی،اس کی دل چسپیوں نے مجھے ہوش ربا کے طلسم میں گرفتار کردیا۔مجھ پر تو جو گزرنی تھی گزر گئی،لیکن’’عبرۃ لأولی الأبصار‘‘ میں ان نتائج کا اظہار،ثواب سمجھتا ہوں،جو اس طلسم میں گرفتاری کے بعد مجھ پر طاری ہوئے۔میری عمر اس وقت غالبا ًدس گیارہ سال کی ہوگی،جب اس مرض میں گرفتار ہوا۔گاؤں کے ایک رئیس بابو ظہور محسن مرحوم کو بھی قصہ کہانیوں کی کتابوں سے حدِ اغراق تک دلچسپی تھی ،میری بدقسمتی تھی کہ انھوں نے نول کشور پریس کے ان سارے خرافات کو جن کا داستان امیر حمزہ سے تعلق ہے،منگوالیا تھا،کوچک باختر،بالا باختر، ہفت پیکر،نور افشاں،ایرج نامہ،اور خدا جانے کیا کیا،اب تو سب کے نام بھی یاد نہیں،ہر ایک کتاب تک میری رسائی بآسانی ہورہی تھی،متعلقہ مکتبی اسباق سب بالائے طاق  ہوگئے،صرف  ان ہی داستانوں میں غرق ہوگیا۔چچا صاحب کو میرے اس انہماک کا احساس ہوا،کچھ نگرانی کرنے لگے،یہ واقعہ ہے کہ بیت الخلاء میں کتاب کو چھپا کر رکھ آتا تھا،اور پھر قضائے ضرورت کے حیلے سے اسی بدبو کدے میں بیٹھا، ان کتابوں کا مطالعہ کرتا رہتا،رات رات بھر میں نے مدتوں یوں گزاری کہ صبح ہوگئی اور میں ہوں اور میری یہ داستان ہے!!خیر!یہ تو چنداں مضر بات نہ تھی،اس سے زیادہ اس کتاب نے ہم پر حملہ کیا،اور طبیعت ان واقعات کی نقل اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کرنے لگی،جن سے یہ کتاب مملو ہے۔کیا کیا لکھوں کہ پھر اس راہ میں مجھ پر کیا گزری!حد یہ ہے کہ عیاری جو اس کتاب کا مخصوص حصہ ہے،اور مکر و فریب،دھوکا،چالاکی بھی اس کا خلاصہ ہے،میں نے مدتوں بطور فضائل کے خود اس کی مشق کی، اور اپنے ہم جولیوں میں جو غریب اس کتاب سے ناواقف تھے،ان کا امام بن کر مختلف طریقوں سے ان عیاریوں کی عملی مشق میں مصروف ہوگیا۔وہ تو خدا کا فضل ہوا کہ پرواز بہ مقدار عمر تھی،گاؤں کے باغ اور کھیت میری اور میرے شاگردوں کی عیاری کی جولان گاہ تھے،غریب رکھوالوں کو طرح طرح سے ستایا کرتا،اور ان کی چیزوں کو برباد کر کے خوش ہوتا کہ عیاری خوب کامیاب رہی!ابھی شباب اور شبابیت سے بیگانہ تھا،اگرچہ بتدریج ان کے آثار چپکے چپکے ابھر رہے تھے،اور شاید میری بربادی یقینی تھی،اگر ٹھیک عنفوان شباب ہی میں قدرت مجھے اپنے دیہاتی ساتھیوں سے الگ نہ کرلیتی!پہلے انگریزی تعلیم کا چچا کوخیال تھا،بھاگل پور اسکول میںنام لکھانے کے لئے بھیجا بھی گیا،انگریزی کی ابتدائی ایک دو کتابیں دیہات ہی میں ختم ہوچکی تھیں،لیکن کسی لطیفۂ غیبی نے میری رفاقت کی،ایسے قدرتی موانع پیش آئے کے یکایک میری تعلیم کا پروگرام بدل گیا،اور اچانک اس طلسمی قید سے نکل کر قدرت نے مجھے بہار سے سینکڑوں میل دور،راجپوتانہ کے ریگستانوں میں پہنچا دیا،یعنی ریاست ٹونک کے مشہور منطقی و معقولی عالم حضرت مولانا برکات احمد بہاری رحمہ اللہ کی خدمت میں،رشتہ داری کے تعلق سے چچا مرحوم نے پہنچا دیا،پھر میں نہیں کہہ سکتا کہ کن نامعلوم اسباب کے تحت،ماحول کے اس انقلاب نے میرے دل و دماغ کو بدل دیا،ہوش ربا کی داستان کا قصہ ختم ہوگیا،جو جادو اس کتاب نے مجھ پر چلایا تھا،اس کے اثر سے خود بخود شفایاب ہوگیا،اب میرا شمار مولانا مرحوم کے شوقین ،محنتی،ذہین طلبہ میں ہونے لگا،حالاں کہ چچا مرحوم کے زدو کوب نے مجھے یہ یقین دلادیاتھا کہ میں سخت کوڑھ مغز واقع ہوا ہوں،ورنہ صبح شام اتنی مار کیوں کھاتا!اس سلسلے میں داستان امیر حمزہ کے عیبوں کے ساتھ اس کے ایک ہنر کا بھی ذکر نہ کرنا،ناشکری بھی اور شاید گونہ حق پوشی بھی ہوگی۔داستان کے اس طویل سلسلے کا اگر تجزیہ کیا جائے،تو کل تین اجزاء پر ساری کتابیں مشتمل نظر آئیں گی:(۱)ایک تو وہی عمر و عیار اور انکے تلامذہ کے عیارانہ کرتب،(۲)امیر حمزہ اور ان کے احفاد واولاددر اولاد بلکہ عیاروں کے حسن و عشق کے افسانے،(۳)فرضی کفار کے مقابلے میں فرضی مسلمانوں کا فاتحانہ استیلاء،جیسا کہ میں نے عرض کیا،کہ پہلے جز کے ساحرانہ نتائج کا تو میں شکار ہوہی گیا،خود بھی ہوا اوراپنے ساتھ کتنوں کو اس فتراک کا نخچیر بنایا،خود تو خیر کم سنی کی وجہ سے صرف باغوں اور کھیتوں تک محدود رہا،لیکن میرے ایک ہم جولی میا ں معین الدین عرف منا،جو گیلانی ہی میں میرے بعد کچھ دن رہے،اور اب تقریباً بیس پچیس سال سے مفقود الخبر ہیں،بعضوں سے معلوم ہوا کہ ڈھاکہ کے علاقے میںپہنچ کر ان پر جذب طاری ہوگیا،اور اب ان کا شمار اس علاقے کے مستجاب الدعوات فقراء میں ہے۔ان بیچارے کو ٹونک سے واپسی کے بعد پایاکہ گاؤں کی مرغیوں اور بکریوں پر اپنی عیاریوں کی مشق کر رہے ہیں۔داستان امیر حمزہ کے شروع میں عمر وعیار کی طرف،مرغی پکڑنے کی جو عیاری منسوب کی گئی ہے،یہ اسی کی تجلی تھی جواس بیچارے کے عمل میں آکر جلوہ گر ہوئی تھی۔رہا دوسرا جز،تو اس وقت ان واقعات سے متأثر ہونے کی پوری صلاحیت ہی نہیں پیدا ہوئی تھی،البتہ تیسرے جز کا اگرچہ بہ ظاہر عملی طور پر مجھ پر کچھ اثر نہ تھا،لیکن واقعہ یہ ہے کہ غیر شعوری طور پر میری طبیعت نے اس کا اثر کچھ ضرور جذب کیا تھا،اور کفر کے مقابلے میں اسلام کے اعتلاء وسربلندی کے جذبے سے،میرا دماغ اگر کبھی خالی نہ رہا،تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں ،اس میں اس داستان کے اس جز کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے،اگرچہ اسی زمانے میں چچا مرحوم کے اصرار سے واقدی کی فتوح الشام ومصر وغیرہ کا بھی میں نے مطالعہ کیاتھا،اور گو آغاز جبراً ہوا تھا،لیکن آخر میں چچا مرحوم کی مرضی کے مطابق کسی چیز کو شوق سے کچھ دن میں نے پڑھا،تو واقدی کی یہی کتابیں تھیں،اور اس جذبے میں ان کتابوں کی تائید بھی ضرور شریک ہے۔یہ بات کہ اردو ادب کے اس طویل سلسلے کے مطالعے نے میری ادبی قابلیت پر کچھ اثر ڈالا یا نہیں،میرے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے کہ اس زمانے میں لکھنے پڑھنے کا مجھ میں کسی قسم کا کوئی سلیقہ پیدا نہیں ہواتھا،اور تھوڑا بہت اگر تھا،تو وہ چچا مرحوم کی جبری تعلیم کا اثر تھا۔---جاری

http://www.bhatkallys.com/ur/author/imrankhan/