محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبد الباری ندوی- 01-

Bhatkallys

Published in - Other

02:31PM Mon 22 Apr, 2019

مولانا عبدالباری صاحب ندویؒ

            ولادت:گدیا۔ ضلع بارہ بنکی ،یوپی

           مورخہ ۱۴ذی الحجہ ۱۳۰۶  ھ،مطابق ۱۱  اگست ۱۸۸۹  ء

            آپ بارہ بنکی کے ایک خوشحال اور دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے والد حکیم عبدالخالق صاحب  اپنے وقت کے مشہور شیخ طریقت، اور حضرت مولانا محمد نعیم فرنگی محلی کے خلیفۂ مجاز تھے۔والد صاحب نے حصول علم کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل کیا،ندوہ ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا،والد صاحب کو وہاں کی تعلیمی و تربیتی حالت سے اطمینان نہ ہواتومولانا ادریس صاحب نگرامی کی خدمت میں نگرام بھیجا،وہاں ایک سال سے کم قیام رہا۔پھر جب علامہ شبلی نعمانی نے ندو ہ کا تعلیمی نظام اپنے ہاتھ میں لیا،تو دوبارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل کئے گئے،آپ پر علامہ شبلی کی خاص توجہ تھی۔طالب علمی ہی سے معقولات کی طرف رجحان تھا،چنانچہ فلسفۂ قدیم کے ساتھ ساتھ فلسفۂ جدید سے بھی گہری واقفیت پیدا کی۔ندوہ کی تعلیم کے زمانے ہی میں انگریزی میں اتنی مہارت بہم پہنچائی تھی کہ فراغت کے بعد جب دکن کالج پونا میں آپ کا تقرر ہوا توفلسفہ جیسے دقیق فن کا انگریزی زبان میں درس دے کرطلبہ کو پوری طرح مطمئن کرلیا۔کئی سال تک آپ نے وہاں فلسفے کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا،پھر گجرات کالج احمد آباد میں آپ کا تبادلہ ہوا۔اس کے بعد عرصے تک جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں شعبۂ فلسفہ کے صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔آپ مولانا مدنیؒ سے بیعت تھے،حضرت تھانویؒ نے تربیت فرمائی اور اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔آپ دینی معاملات میں انتہائی سخت تھے،رواداری کا آپ کے یہاں بالکل گزر نہیں تھا،ا س سلسلے میں کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے،یہاںتک کہ آپ کے شیخ مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا:’’مولانا عبدالباری صاحب چاہتے ہیں کہ شیطان مرجائے، اور یہ ممکن نہیں‘‘۔

            مشہور کتابوں میں مذہب و عقلیات،مذہب اور سائنس،جامع المجددین،(تجدید دین کامل)،تجدید تصوف وسلوک،تجدید تعلیم وتبلیغ،تجدید معاشیات،تفسیر سورہ عصر(نظام صلاح و اصلاح)،حدیقۂ نفسیات،نظام تعلیم واصلاح،علم اخلاق،عملی نباتیات وغیرہ ہیں۔یہ سب کتابیں پہلے چھپی تھیں۔ان میں سے بہت سی کتابوں کو صاحب زادگان نے از سر نو شائع کیا ہے،(باری پبلی کیشنز،باری ہاؤس،سیتا پور روڈ ،لکھنؤ،۱۹۹۳  ء)۔

            وفات:لکھنؤ، ۱۸  محرم  ۱۳۹۶  ھ، مطابق  ۲۰ جنوری ۱۹۷۶  ء

            مدفن:قبرستان ڈالی گنج،لکھنؤ

مولانا عبدالباری صاحب کا یہ مضمون دراصل ان کا ایک مکتوب ہے،جوانھوں نے مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو ان کے سوال کے جواب میں لکھا تھا۔چناں چہ مدیر’’الندوہ‘‘ کی حیثیت سے مولانا نے مضمون سے پہلے یہ عبارت لکھی ہے :ہم نے اس سلسلے میں مخدوم محترم مولانا عبدالباری صاحب ندوی کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی،مولانا نے ہمارے اس سوال کا جو جواب دیا ہے،وہ ان کے عنایت نامے سے نقل کیا جاتا ہے۔ فیصل

************************************************************

            کچھ طبیعت کی افتاد اور کچھ قلت استعداد سے،اولاً تو کتابیں کم کیا،اتنی کم پڑھیں ہیں کہ آپ یقین فرماسکیں تو نہ پڑھنے کے برابر ہیں۔ان میں بھی کسی ’’مردہ کتاب‘‘ کا کم ازکم شعور کے کسی گوشے میں اتنا اجاگر کوئی نقش نظر نہیں آتا جو لائقِ ذکر ہو،البتہ ذہنی زندگی کے قریب قریب ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی زندہ انسان ضرور کھڑا نظر آیا۔

            حافظے کی زیادہ تلاشی لینے سے صرف ایک چھوٹی سی کتاب یاد آئی،جوکوئی چوتھائی صدی قبل پڑھی تھی،برکلے کی ’’پرنسپلس آف ہیومن نالج‘‘جس کا نام لینا بھی غالباً آپ پسند نہ فرمائیں،اسی زمانے میں’’مبادیِ علم انسانی‘‘کے نام سے اس کا ترجمہ بھی کیا تھا۔اس کا اولین اثر تو میری روایتی ارتیابیت کی توثیق تھی،مگرپھر اسی نے حقیقت علم کے سوال کی طرف متوجہ کر کے حقیقی علم و یقین (ایمان)کا راستہ صاف کیا،بلکہ اور آگے چل کر اسی کتاب کے نظریات ودلائل نے علم و یقین کے اصل سر چشمہ(قرآن)کے بعض اہم حقائق وغوامض کی فہم و یافت میں مدد دی۔بعد میں الحمدللہ کہ ان کی خود اپنے بہت سے اکابر کے ہاں تصدیق پاکر مزید اطمینان قلب اور شرح صدر نصیب ہوا۔

            اصل میں طالب حق کے لئے کلی اصول ایک ہی ہے:’’الذین جاھدو ا فینا لنھدینھم سبلنا‘‘صدق طلب شرط ہے،پھر مجاہدہ کی کوئی راہ بھی حق رسی کا بہانہ بن جاتی ہے۔۔’’سبل‘‘ کی جمع میں بھی اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ بظاہر اگر کوئی گمراہی کے راستے پر بھی پڑگیاہو،تو وہ بھی اپنی ہی راہ سے’’سبلنا‘‘کی طرف مڑ جاتا یا موڑ لیا جاتا ہے۔مجھ کو تو خود اپنے اور اپنے ایک سے زائد احباب میں اس کا مشاہدہ ہوا۔طلب صادق واخلاص کی بڑی قیمت ہے،پیاس ہو تو پانی کی کیا کمی   ؂

            آب کم جو تشنگی آور بدست                                        تاکہ آبت جو شد از بالا و پست

البتہ جھوٹی پیاس استسقا کی ہلاکت ہے۔

            یہ تو ماضی تھا، حال یہ ہے کہ’’ذلک الکتاب‘‘کے سوا کوئی کتاب ،کتاب ہی نہیں معلوم ہوتی۔دعا فرمائیے کہ جو کچھ بھی زندگی رہ گئی ہے،اسی زندہ کتاب اور اس کے زندہ (حی لایموت) مصنف کے آستانے پر ختم ہوجائے۔

            چوں کہ یہ عریضہ آپ کے لئے ہے،اس لئے اس عجیب کتاب کے بھی عجیب تجربات،اس خیال سے آپ کی خدمت میں عرض کردینے کو جی چاہتا ہے کہ اگر کسی کی توثیق ہوگئی ،تو مزید تشفی کا باعث ہوگی۔

جاری

www.bhatkallys.com/ur/