جگر مراد آبادی کے خطوط 01- تحریر : مفتی محمد رضا فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

08:11PM Wed 24 Jan, 2018

’ جگر ‘ صاحب [علی سکندر’جگر‘ مرادآبادی ]۔ وفات گونڈہ میں نو ستمبر1960ء مطابق 16 ربیع الاول جمعہ 1380ھ ، کچھ افتاد طبع اور کچھ مشاعروں میں مصروف تر زندگی کی بدولت خط و کتابت کے جھمیلے میں کم پڑتے تھے ، ایسے ضروری خطوط بھی ، جن میں انکی منفعت مضمر ہو ،جواب سے اکثر و بیشتر محروم رہ جاتے تھے ، یہ تو بعض مخلصین کی خیر خواہی تھی کہ ایسے ضروری خط موصول ہوتے ہی وہ جواب لکھوا دیتے یا ان سے پوچھ کر لکھ دیتے تھے ۔

میرے سلسلے میں ایک حسن اتفاق یہ بھی تھا کہ وہ مہینے دو مہینے میں ایک پھیرا لکھنؤ کا ضرور کرتے تھے ،کسی مشاعرے میں جاتے یا  واپس آتے ہوۓ دو ایک دن انکا قیام ’بھوپال ہاؤس [لال باغ] میں نواب سید شمس الحسن خاں [مرحوم ’1985ء] کے یہاں ہوتا اور ’ پوری ملاقات ‘ ہوجایا کرتی تھی ، ’نصف ملاقات ‘ کی ضرورت کم ہی پیش آتی تھی ۔

’جگر ‘ صاحب کو 1936ء سے پہلے بس ایک  مشہور شاعر جانتا تھا ،جو اکثر ’ دوسرے عالم ‘ میں رہا کرتے ہیں ،اور اسی عالم میں دو ایک مقامی مشاعروں میں انہیں دور سے دیکھا اور سنا  بھی تھا ، پہلی بار وہ نواب شمس الحسن صاحب کے ساتھ مولانا مفتی عنایت اللہ فرنگی محلی [م۔1941ء]کی دعوت پر1936ءمیں ہمارے یہاں آۓ، ان دنوں وہ سینے کی تکلیف کی بنا ٔ پر ’تارک ‘ تھے[عارضی طور پر ] اسی لئے انکی طبیعت اس شب بشاش نہیں تھی ، بے کیف طبیعت کے باوجود انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں دو ڈھائ گھنٹے کلام سنایا ،جس کے دوران میں بے کیفی کا ایک مظاہرہ بھی ہو گیا ۔

اپنی شاعری سے زیادہ وہ اپنے والہانہ ترنم سے سماں باندھا کرتے تھے کہ سامعین اس میں گم ہوجایا کرتے تھے ،اگر اس کے خلاف کسی سامع سے کوئی بات ظہور پذیر ہوجاۓ تو جگر صاحب کو بہت کھلتا تھا ، ہوا یہ کہ سامعین میں دو صاحب سرگوشی کے انداز میں کچھ بات کرنے لگے ، اسی وقت جگر صاحب ،جو سنانے میں ہر سمت سر گھما گھما کر ایک متبسم نظر ڈالا کرتے تھے ،ادھر ہی متوجہ تھے ،اچانک ساکت ہو گئے، اور تمام سامعین دم بخود ،اچانک سماں جو ٹوٹا تو وہ دونوں صاحب بھی جگر صاحب کو دیکھنے لگے ،ان سے مخاطب ہوکر جگر صاحب نے ناگواری کے لہجے میں کہا ۔۔

’آپ حضرات گفتگو سے فارغ ہولیں تو میں عرض کروں ۔‘

ان دونوں میں سے ایک عالم فاضل اور شاعر تھے اور دوسرے سینٔر مقامی بیرسٹر وہ بھی شاعر تھے ۔

اس کے ایک ہی آدھ سال کے بعد جگر صاحب ’ تارک شراب ‘ ہمیشہ کے لئےہوگئے۔ یہ انکی  قوت  ارادی کا غیر معمولی کمال تھا ۔جو شب و روز غرق شراب  رہتا ہو،وہ ایک دم ایسا تائب ہوجاۓ کہ محفل میگساراں میں ہوتے ہوۓ بھی جام و مینا کی طرف التفات نہ کرے ۔

ایک عرصہ گزر جانے کے بعد جب میں انسے قریب ہو چکا تھا ،دیکھا کہ وہ سگریٹ پہ سگریٹ پی رہے ہیں اور ہر کش پر خطرے والی کھانسی انکو آتی ہے ، عرض کیا کہ سگریٹ چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟‘

بولے ۔’عادت نہیں ہے ،بس شغل کرتا ہوں ، چھوڑنے کو آپ کہتے ہیں ۔۔۔ مولانا۔۔۔ جب وہ چیز ایک دم ترک کر دی تو اور کسی چیز کے چھوڑنے میں کیا مشکل ہے ۔‘

اپنے یہاں کی محفل میں بھی جگر صاحب سے کوئی خاص تعارف نہیں ہوا ، تعارف ہوا تو ایک انتہائ نازک ماحول میں ،ترقی پسند مصنفین کی تحریک زور و شور سے چل رہی تھی ،جگر صاحب اس کے خلاف تھے ،غزل کے شاعر تھے اس لۓ’مقصدی شاعری ‘ کو شاعری کی توہین سمجھتے تھے ، ادیبوں اور شاعروں کی اس وقت دو حریف صفیں قائم ہو چکی تھیں ، اور جگر صاحب فطری طور پر روایتی ادب والے گروہ کے قائدین میں تھے ۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام 1936ء سے 1941ء  تک دونوں گرہوں میں حریفانہ چشمکیں آۓ دن ہوا کرتی تھیں ،سنجیدہ بھی ، دیوہ میلہ [ضلع بارہ بنکی ]کے ایک مشاعرے میں جگر صاحب نے اپنے عام انداز تغزل  سے ہٹ کر ایک سطحی غزل ’ترقی پسند ادیبوں کی ہجو میں سنائ ۔۔۔

’کھا کے پلاؤ قورمہ بھوک کے گیت گاۓ جا ‘

یہ ہجو ، ’ساغر نظامی ‘مرحوم [م ۔1984ء]نے منتظمین مشاعرہ سے  حاصل کر کے لکھنؤ آکر ماہنامہ ’ نیا ادب ‘لکھنؤ کے ادارے کو دے دی، رکن ادارہ علی سردار جعفری نے اس پر سخت تنقید کی جو ماہنامے میں شائع ہو گئی ۔

کچھ دنوں کے بعد جگر صاحب ایک مشاعرے میں لکھنؤ آۓ ہوۓ تھے ،ڈاکٹر معین احسن ’ جذبی ‘ بھی اسی مشاعرے میں آۓ تھے اور میرے یہاں ٹھہرے تھے ۔دوسرے دن وہ جگر صاحب سے ملنے انکی قیام گاہ بھوپال  ہاؤس گئے،وہاں جگر صاحب نے ان سے ملنے انکی قیام گاہ  آنے کا وعدہ کیا ، ’نیا ادب‘ کا وہ شمارہ  پریس سےاسی دن آیا تھا اور اسی کمرے میں رکھا تھا  جس میں ’جذبی ‘ صاحب ٹھہرے تھے ، جگر صاحب کے آنے کے خیال سے اسے بغلی کمرے میں رکھ کر کپڑوں سے ڈھانپ دیا گیا ،ایک چھوٹا بھائی  بھی اس وقت کمرے میں موجود تھا ،جب جگر صاحب تشریف لاۓ اور انہوں نے پوچھا ۔۔۔ ’سنا ہے نیا ادب کا تازہ پرچہ جو شائع ہوا ہے اس میں میرے متعلق کچھ چھپا ہے ۔؟ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں ـ۔‘

چھاٹا بھائی بول اٹھا ۔۔۔’ جی ہاں ،اور بغلی کمرے کی طرف لپکا ، ’جذبی ‘ صاحب نے کہا ۔۔۔ ’پرچہ ابھی چھپ کر نہیں آیا ہے ‘،اور آنکھوں ہی آنکھوں میں انہوں نے چھوٹے بھائی کو سرزنش کی، معاملہ رفع دفع ہوگیا ۔

جگر صاحب نے اس کے بعد سنایا اور حاضرین نے جن سے کمرہ بھر گیا تھا ، خوب داد دی ،میں اس معاملے میں کچھ پیش پیش رہا کرتا ہوں،جگر صاحب بہت خوش  اور بیحد مطمئن واپس ہوۓ ،ان سے ملنے  دوسرے دن میں بھی بھوپال ہاؤس گیا ، بہت تپاک سے ملے اور ایک دن پہلے کی شعری نشست پر بڑی مسرت ظاہر کی ،اس طرح ان سے مراسم ہو گئے، اب جب بھی وہ لکھنؤ تشریف لاتے اور مجھے پتہ چل جاتا تو میں ان سے ملنے جاتا اور انکے پاس وقت ہوتا تو وہ بھی قدم رنجہ  فرماتے اور کلام سناتے ، آخر آخر تو یہ بھی فرمانے لگے تھے ،’ مولانا ۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ مجھے اپنا کلام سنانے کا شوق نہیں ہے لیکن، آپکے یہاں آکر اندر سے خواہش ہوتی ہے کہ کچھ سناؤں۔‘

پھر انکی خصوصی توجہ برابر بڑھتی رہی ۔

1943ء میں ’ماہنانہ نیا ادب ‘کی جگہ ، جو اکثر ارکان ادارہ کے بمبئ چلے جانے کے ساتھ وہاں منتقل ہو گیا تھا ،میں نے ایک ماہنامہ ’ منزل ‘نکالا ،جو دوسری عالم گیر جنگ میں ’ کاغذ کوٹہ سسٹم ‘کے چکر میں ایک سال نکل کر بند ہو گیا ، جگر صاحب نے اس ماہنامے کو اپنے کلام سے بھی نوازا اور اس کی امداد کے لئے اپنے رسوخ کا بھی استعمال کیا ، اسی سلسلے میں جولائی 1944 ء میں سابق ریاست حیدرآباد دکن میں ’ کل ہند اردو کانگریس‘ میں شرکت کے لۓ مجھے اپنے مصارف سے اپنے ہمراہ لے گۓ۔

جگر صاحب اگر خط لکھتے بھی تھے تو تاریخ وغیرہ لکھنے کی پابندی نہیں کرتے تھے ، ذیل کا خط اتفاق سے تاریخ اور سن سے مزین ہے ۔

۷۸۶

گونڈہ

محبی و مخلصی زاد لطفہ

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

آپکے گرامی نامہ کا جواب کسی قدر دیر سے دے رہا ہوں ،آج ہی ریڈیو اسٹیشن لکھنؤ کو جواب تحریر کر دیا ہے ،عبارت کی نقل حاضر ہے پشت پر ملاحضہ فرمایئں ۔

جلد لکھنؤ پہنچ رہا ہوں ،ایک عجیب دقت یہ واقع ہو گئ ہے کہ جناب پروفیسر رشید احمد صاحب صدیقی کا ، جنہیں میں اپنا بزرگ سمجھتا ہوں ،منشأ ہے کہ انکی معیت میں حیدرآباد روانہ ہونا چاہئے،اگر آپ بھی اس کے لئے تیار ہو جایئں تو سبحان اللہ۔ بہرحال لکھنؤ میں یہ معاملہ طے ہو جاۓ گا ۔

احقر ۔۔ ’جگر ‘ مرادآبادی

 جولائی 10-1944ء

’ریڈیو اسٹیشن لکھنؤ ‘ کے اس وقت کے اسٹیشن ڈائرکٹر جناب جگل کشور مہرا سے بات چیت کے دوران یو پی اور پنجاب کے ادیبوں کے بارے میں  میری کچھ ’آڑی ترچھی ‘ گفتگو ہو گئی تھی ، لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے کچھ دنوں کے بعد مشاعرہ نشر ہونے والا تھا ،جس میں جگر صاحب بھی مدعو تھے ، میں نے اس گفتگو کا حال جگر صاحب کو لکھ دیا اور مشاعرے کی دعوت مسترد کر دینے کی تجویز پیش کر دی ،جگر صاحب نے اس سلسلے میں لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن کو خط لکھا اور نقل مجھے بھیج دی ،جگر صاحب کا خط لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن کے نام یہ ہے جو دوسرے کے قلم سے نقل کیا گیا ہے ۔

بنام ۔۔۔ پروگرم ڈائرکٹر صاحب ریڈیو اسٹیشن لکھنؤ 

جناب من تسلیم 

افسوس کہ کئی دن کے بعد آپ کے مکتوب کا جواب دے رہا ہوں ، رضا صاحب فرنگی محلی ایڈیٹر ’ منزل ‘ میرے مخلص اور محب ہیں ،میں انہیں ایک صادق اور عمدہ انسان سمجھتا ہوں ،انکی زبانی [ زبانی نہیں تحریری ۔۔۔ رضا ]ریڈیو اسٹیشن کے متعلق جو حالات مجھ تک پہنچے  ان سے مجھے سخت اذیت پہنچی ۔

پنجاب اور یوپی کی کش مکش کا مجھے پہلےسے علم تھا جو تعصب اور جنبہ داری صرف کی جا رہی ہے  اس سے بھی میں بے خبر نہیں ۔ اگرچہ میں اسے پسند نہیں کرتا لیکن یقین تھا کہ انکی اصلاح رفتہ رفتہ ہو جاۓ گی ،اور یہ بھی سمجھتا تھا کہ یہ کوئ منظم سازش نہیں بلکہ چند افراد کی تنگ دلی اور تنگ نظری کے وقتی مظاہرے ہیں لیکن ، اب کہ ریڈیو اسٹیشن کی ایک ذمہ دار ہستی برملا یوپی کو برا کہتے ہوۓ زرا بھی نہیں جھجکی ،میرے خیالات شدید طور پر متأثر ہو چکے ہیں ، اور میں اس وقت[ تک ]ریڈیو اسٹیشن کا تعاون روا رکھ سکتا جب تک صحیح معنوں میں روبہ اصلاح نہ ہوجایئں ۔       

’جگر ‘مرادآبادی عفی عنہ

’حالات رو بہ اصلاح ‘بہ ایں معنی ہو گئے کہ مہرا صاحب نے جو بڑے صاف دل اور صاف گو تھے ،مجھ ہی سے کہا کہ’میں تو یہ کہنا چاہتا تھا کہ پنجابی تیز طرار ہوتا ہے اس لئے وہ انٹر ویو میں کامیاب ہو جاتا ہے ،یوپی والا اتنی تیزی انٹر ویو میں نہیں دکھا پاتا ۔۔۔‘مشاعرے میں جگر صاحب نے شرکت فرمائ ۔

اپریل یا مئی 1943ء میں مرادآباد میں ایک مذاکرہ اور مشاعرہ ،ڈپٹی کلکٹر ضیا ٔ الاسلام صاحب کے اہتمام میں ہوا [وار فنڈ کے سلسلے میں ضلع ضلع مشاعرے دوسری عالمی جنگ کے دوران میں  ہوتے تھے ] جگر صاحب بھی تشریف لے گئے جو مستقل گونڈے میں رہنے لگے تھے ، میں دہلی سے مراد آباد آیا اور اپنے خالو صاحب کے یہاں ٹھہرا،جو مراد آباد میں انکم ٹیکس آفیسر تھے ، مذاکرے میں باباۓ اردو مولانا عبدالحق، پنڈت دتاتریہ ’کیفی ‘ڈاکٹر رام بابو سکسینہ ،اور پروفیسر احتشام حسین وغیرہ بھی شریک تھے ۔جگر صاحب نے اس مشاعرے میں جو غزل پڑھی تھی اسکا مقطع تھا ۔۔۔

’احباب مجھ سے قطع تعلق کریں ’جگر ‘

اب آفتاب زیست لب بام آگیا ‘

اس زمانے میں جگر صاحب کچھ علیل اور اس بنا پر کمزور تھے اور آشوب چشم میں بھی مبتلا تھے اس لئے اپنے مسحورکن انداز میں پڑھنے کے بجاۓ کچھ گرفتگی کے ساتھ انہوں نے کلام سنایا ،جب مقطع پڑھا تو سارا مجمع چینخنے لگا ،نہیں نہیں خدا نہ کرے ،

مراد آباد ٹاؤن ہال میں جگر صاحب سے ملاقات ہو گئ ،یہ سب پوچھ کر کہ کب آۓ ، کہاں ٹھہرے ہیں ؟ میری قیام گاہ پر ملنے آنے کا وعدہ کیا ،خالو جان [ مرحوم ] نے کہا ،۔ انہیں کھانے پر مدعو کرنا چاہیۓ تھا ‘میں نے جگر صاحب کو یہ دستی تحریر بھیجی ۔۔

 ’ معظم و محترم دام بالجدوالکرم ،آپ نے شام کو تشریف لانے کا وعدہ فرمایا تھا ،اطلاعاً عرض ہے کہ شام چھہ بجے میں زحمت دینے کے لئے حاضر خدمت ہوں گا ، رات کا کھانا ساتھ ہی نوش فرمانا ہوگا ۔امید ہے کہ مزاج بخیرو عافیت ہوگا ،والسلام علیکم و رحمتہ اللہ ۔

مخلص

محمد رضا انصاری

’جگر صاحب ‘ کے دستخط اور دوسرے کی تحریر میں جواب آیا ۔

محبی و مکرمی زید کرمہ

السلام علیکم ، جناب کے علم میں ہے کہ آجکل میری آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اور آج اور اضافہ ہو گیا ہے ،اطبا ٔ کا قطعی فیصلہ ہے کہ مجھے بالکل حرکت نہ کرنا چاہیۓ ،آپ کی خاطر میں باوجود اس کے بھی برداشت کر سکتا تھا لیکن ، میں اپنے بڑے بھائی صاحب کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کر سکتا ، میں خود اپنی جگہ پشیمان ہوں اگر ممکن ہو تو شام کو یہیں تکلیف فرما یۓ۔

مخلص 

’جگر ‘ عفی عنہ

  بغیر تاریخ کا دستی خط ۔۔

محبی و مخلصی زاد کرمہ 

سلام مسنون السلام ،آپ کے مکتوب کے جواب میں خود لکھنؤ پہنچ گیا ہوں ۔ آج ساڑھے آٹھ بجے شب کو آپ تک پہنچنے کی کوشش کروں گا ، جمال میاں صاحب یقینا ً لکھنؤ ہی میں ہوں گے ،مجھے ان سے ایک ضروری کام ہے ۔کاش ، موصوف بھی آپکے مکان پر موجود ہوں ۔

’جگر ‘

مولانا جمال میاں فرنگی محلی اس وقت تک ہندوستانی تھے اور  ڈھاکہ میں کاروبار کر رہے تھے ، اتفاق  تھا ،میں جگر صاحب کو لیکر انکے گھر چلا گیا تھا ، اب کراچی میں مقیم ہیں ۔

  بغیر تاریخ کا پوسٹ کارڈ

۷۸۶

گونڈہ

’جگر ‘ نواز زادمکرمۃ وعلیک السلام و رحمہ اللہ

اس طرف مسلسل علیل رہا ، 31  کی شام تک لکھنؤ پہنچوں گا ، یکم کو دس بجے صبح آپکا منتظر رہوں گا ۔ ظاہر ہے کہ میرا قیام بھوپال ہاؤس میں رہتا ہے ، امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا ، بچوں کو دعایئں ۔’جگر ‘

پوسٹ آفس کی مہر سے 28/ اکتوبر سن 46ء معلوم ہوتا ہے ۔

خطوط پر تاریخ درج نہ ہونے سے مندرجات کے اجمال کی تفصیل ذہن میں تازہ نہیں ہو پائی، ذیل کے خط میں بھی یہی صورت پیش آرہی ہے ۔