ٹک ٹک دیدم ۔ قسط 01 ۔۔۔ از :فرزانہ اعجاز

Bhatkallys

Published in - Other

08:00PM Tue 4 Jul, 2017

ویسے تو کئ بار یہاں آنا جانا ہوتا رہا ، لیکن اس بار حالات زرا مختلف تھے، کیونکہ سلطنت آف مسقط و عمان میں اپنی زندگی کے بہترین پینتیس سال گزارنے کے بعد اب پھر سے کسی دوسرے ملک میں آشیانہ بنانا پڑ رہا تھا ،ابھی تک تو ہندوستان میں آتے جاتے موسموں کی طرح ہم بھی تین تین ماہ کے لۓ امریکہ آتے جاتے رہتے تھے ،کبھی گرمی میں کبھی سردی میں اور کبھی بہار میں ، اور ہمیشہ یہی  ہوتا تھا کہ ادھر ہمارا سوٹ کیس کھلا اور ادھر ’بند ‘ ہونے کی باری آگئ۔لیکن اس بار یہ پروگرام زرا زیادہ ’لمبا ‘ ہونے والا تھا ، سو، بجاۓ اپنے دو سوٹ کیسوں کے ،ہم نے پوری گرہستی کا سامان باندھنا شروع کر دیا ، ابھی تک ہر بار مسافروں والا ’ہیلتھ انشورنس ‘ لیکر آتے تھے مگر اسے استعمال کرنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی ،الحمد للہِ، اچھے بھلے رہے ۔،تھے ، یہاں کے ’گرین کارڈ ‘ رکھنے والے اگر تین سال یہاں اپنی رہائش مکمل کر لیں  توانکو مڈیکل کی فری سہولیات مل سکتی ہیں ،۔ ہمارے بیٹے نے اس کے لۓ درخواست بھی دے دی تھی ۔جوسہولیت یکم جولائٔ سے شروع ہونے جا رہی تھں ۔ ہمارا بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ پیرس گھومنے گیا تھا ،ہم کسی نجی کام کی وجہ سے یہیں رکے تھے ِکچھ ’لکھنا لکھانا ‘ بھی تھا ۔سوچا آرام سے کام مکمل کر لیں گے ،لیکن انسان سوچتا کیا ہے اور ہوتا کچھ اور ہی ہے ، اچانک طبیعت خراب ہو گئ ۔بیٹے کے آتے ہی اسپتالوں اور ڈاکٹروں کا لمبا چکر شروع ہوگیا ، اور یہ تجربہ ہوا کہ خدا نہ کرےکہ کوئ یہاں  بغیر انشورنس کے آجاۓ اور بیمار پڑ جاۓ۔ پہلے ایک لیڈی ڈاکٹر کو دکھانے گۓ جس نے کئ ’ٹسٹ‘ کرواۓ اور ’کئ ہزار ڈالر‘ کا بل تھما دیا اور ساتھ ہی فوری آپریشن کے لۓ سرجن کے پاس روانہ کردیا ۔ اسکا کہنا تھا کہ چونکہ ہم دل کے مریض بھی ہیں  اس لۓ کسی ماہر سے رجوع کیا جاۓ۔ ہماری بہو خود ڈاکٹر ہے لیکن بچوں سے متعلق ۔بیٹا بہو اب اسی کھوج میں لگ گۓ کہ کس اسپتال میں اور کس اچھے ڈاکٹر کے پاس جایا جاۓ۔ ہم بالکل بے دست وپا تمام پریشانی اور کاروائ دیکھتے رہے ، نہ دل قابو میں تھا نہ دماغ ۔تمام اسپتال محض آپریشن اور دو روز اسپتال میں قیام کا خرچ کم از کم  پچاس  ہزار ڈالر بتا رہے تھے ۔ایک یہ بھی پروگرام تھا کہ بہتر ہے انڈیا چلے جایئں  لیکن ہماری حالت ایسی نہیں تھی کہ اتنا لمبا سفر ہم اکیلے کر سکیں ،ہمارے شوہر اعجاز صاحب بھی ایمرجنسی میں شکاگو آچکے تھے ، اب دلی جانے کا مطلب تھا کہ تین لوگ جاتے  اور محض جہاز کا کرایہ ہزاروں ڈالر میں ہوجاتا ،ہمارا بڑا بیٹا جو خود ڈاکٹر ہے ،لکھنؤ سے تمام انڈیا کی معلومات کر بتا رہا تھا ،وہ خود بہت پریشان تھا ، کاش وہ بھی ہمارے پاس ہوتا تو ہمارے دل کو اور سکون رہتا ، یہی بات ہم نے یہاں اس امریکن ڈاکٹر لڑکی سے کہی جو ہمارا ’چیک اپ‘ کر رہی تھی ، ہماری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس نے برجستہ کہا ۔۔۔۔ ’کوئ بات نہیں ،آپ ہم کو اپنی بیٹی سمجھ لیجیۓ ،ہم آپ کے پاس رہیں گے ،ـ تشکر سے ہماری آنکھیں اور چھلک پڑیں ۔ اس درمیان وہ تمام ٹسٹ ہوتے رہے جنکی مشینیں دیکھ کر ہی ہم لرز جاتے تھے ،  عجیب ’چہ کنم ‘ کی کیفیت تھی ۔اسی درمیان کئ ڈاکٹروں نے جو کہ ہمارے بیٹوں اور بہو کے جاننے والے تھے مشورہ دیا کہ بجاۓسرکاری اسپتال ’ کک کاؤنٹی‘جانے کے کہ جہاں علاج تقریبن مفت ہوتا ہے لیکن آپریشن کی تاریخ بہت دیر میں ملتی ہے ، سو دوسرے پرائیویٹ اسپتال َ’سویڈش کونینٹ اسپتال ‘[سویڈش فلاحی اسپتال ‘] جایا جاۓَ جو کہ عیسائ مشن اسپتال ہے ۔فلاحی اسپتال سن کر ہم ڈرے کہ کہیں خراب حالت میں نہ رہنا پڑے لیکن اسپتال کی میلوں پھیلی عمارت اور اسکا انتظام دیکھ کر ہم حیرت زدہ رہ گۓ، جہاں سرجن ڈاکٹر سے بات کی ۔بیٹے اور اعجاز صاحب نے مسٔلہ بتایا ۔ڈاکٹر نے بتایا کہ اس آپریشن کا کل خرچہ کم از کم  چالیس ہزار ڈالر ہوگا ۔ جس میں دوسرے تمام ٹسٹوں کی ہزاروں ڈالر کی فیس شامل نہیں تھی۔ انہیں ڈاکٹر نے بتایا کہ اسی اسپتال کے انتظامیہ سے بات کر لی جاۓ تو خرچ میں سہولیت بھی مل سکتی ہے ۔اور ہماری حیرت اور خوشی کی حد نہ رہی کہ کیا کوئ ادارہ اتنی بڑی حد تک رعایت بھی کر سکتا ہے۔اور یہ کمی ڈاکٹر اپنی فیس معاف کرکے،اسپتال اپنا خرچ کم لےکر اور فی سبیل للہ کام کرنے والے عیسائ ادارے پورا کرتے ہیں ، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مریض کس ملک ، مذہب اور کس رنگ کا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ اسپتال کسی طور بھی کسی بڑے اسپتال سے گھٹیا یا معمولی درجے کا ہو۔

امریکہ میں  کوئ بھی ڈاکٹر اس وقت تک مریض کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا جب تک اس کے بتاۓ سارے ٹسٹ نہ کرالیۓ جائیں ۔سرجن ڈاکٹر ایرانی نژادمسلم امریکی سرجن تھا اور اپنے فن کا ماہر تھا ،ہم کئ ماہ سے بہت تکلیف میں تھے سو اعجاز صاحب نے کہا کہ جتنی جلدی ممکن ہو آپریشن کردیا جاۓ۔ ہمارے مڈیکل انشورنس میں ابھی بھی ڈیڑھ ماہ باقی تھا ، آخر آخر ۹ جون کو آپریشن ہوا ، ڈاکٹروں کی ٹیم ،نرسوں اور اسپتال کے عملے کا ہمدردانہ رویہ ،انکی اپنے اپنے کام میں مہارت اور مریض اور اس کے متعلقین کے ساتھ انکا برتاؤ،کھانا پینا ، باتھ روم کی صفائ ،ایک ایک بات حیران کر دینے والی تھی ،ٔسرجن ماہر تھا لیکن اسپتال کا تمام عملہ بھی اتنا ہی سدھا ہوا تھا ، مریض کو نہلانے دھلانے والی لڑکیاں بھی ویسی ہی ہمدرد تھیں جیسا انکا ہر ڈاکٹر تھا ۔ یہاں نرس کو نرس کہتے ہیں ’سسٹر‘ نہیں ،عورت مرد دونوں نرس ہوتے ہیں ، ’سسٹر‘ شاید اس وقت کہتے تھے جب زیادہ تر نرسنگ اسٹاف ’ننز‘ پر مشتمل ہوتا ہوگا ، یہاں نرس کی اہمیت ڈاکٹر کے برابر ہی ہوتی ہے ،اسپتال سے رخصت ہوتے وقت ۔ہیڈ نرس ‘ آئ ہم کو ’وش‘ کیا اور اپنی ماں کی بنائ ہوئ ایک خوبصورت شال دی ۔ شاید وہ ہر مریض کو کچھ نہ کچھ تحفہ دیتی ہو ، کچھ بھی ہو، ہم کو اس کی یہ بات بہت اچھی لگی ۔

مڈیکل انشورنس میں گھر آجانے کے بعد بھی اگر مریض کو ضرورت ہوتو مکمل تربیت یافتہ نرس گھر پر بھی آسکتی ہے اور دیکھ بھال کر سکتی ہے ، کیونکہ یہاں گھر کا ہر فرد کام پر جاتا ہے سو مریض اکیلا پڑ جاتا ہے، چونکہ ہم مکمل طور پر بستر پر تھے ،ہل جل تک نہیں سکتے تھے اس لے ٔ چاہتے تو کوئ نرس مل سکتی تھی لیکن اعجاز صاحب جیسا شفیق ساتھی جس کو میسر ہو اس کو دوسرے مدگار کی کیا ضرورت ۔ چھ ہفتے کے مسلسل بیڈ ریسٹ میں  اعجاز صاحب نے نرمی سے اور کبھی ڈانٹ کر طاقت کی چیزیں ،دوا کھلائ اور ساتھ ہی ہاتھ پکڑ کر چہل قدمی بھی کرواتے رہے، ساتھ تمام گھر لگا رہا ، اعجاز صاحب نے کسی نرس کی ضرورت کو یکسر مسترد کر دیا ۔لیکن ہم نے دوسرے کئ لوگوں کو دیکھا ہے جن کو  مڈیکل انشورنس  ہی مدد فراہم کرتی ہے۔اپنے بستر پر لیٹے لیٹے ہم یہی سوچا کرتے تھے کہ ہماری اپنی حکومت ایسا نظام کیوں نہیں بنا سکتی ، کیوں اسپتالوں کے باہر مریض دم توڑ دیتے ہیں ِ، اسپتالوں کے بستر  کیوں ’مردہ خانوں کے گھناؤنے بستر لگتے ہیں ، مریض کو اسپتال کا عملہ کیوں بھوکے گیدڑوں کی طرح کھسوٹنے کو موجود رہتا ہے ، آپریشن کرتے وقت ڈاکٹر مریض کے پیٹ میں خطرناک اوزار کیسے چھوڑ دیتے ہیں ،مریض کے رشتہ دار ، ڈاکٹروں کی یا اسپتال کے عملے کی ’دھنائ‘ کیوں کردیتے ہیں ؟افسوس کہ آج ہی لکھنؤ کے ایک  اخبار میں تصویر دیکھی کہ جس میں ’ایمبولینس کا ڈرایئور ،ایک بری طرح جھلسے ہوۓ لڑکے کی پریشان ضعیف ماں سے لڑکے کے جسم سے رستے مواد اور خون کو صاف کرنے پر مجبور کر رہا تھا اور بیچاری تڑپتی ماں ’اس بد بخت ڈرایئور کے نادر شاہی حکم کی تعمیل کر رہی تھی ‘۔ ہم خدا معلوم ذلالت کے کس بد ترین اور نچلے درجے پر ہم اب گر چکے ہیں۔