آب بیتی الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ -01- ۔۔۔ آغاز سخن ۔۔۔ بقلم : عبد المتین منیری


جنوبی ہندکی ریاست کرناٹک کے قصبے بھٹکل نے اپنے جائے وقوع اور آبادی کی نسبت سے زیادہ شہرت پائی ہے ، گزشت نصف صدی میں اسے برصغیر کے اکابر سے اپنی حیثیت اور وسعت سے زیادہ پذیرائی پائی ہے ۔ یہاں کی جن شخصیات کی قربانیاں اس کا ذریعہ بنیں ان میں اہم ترین نام جناب الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمۃ کا ہے ۔ مرحوم گزشتہ صدی میں چالیس کے عشرے سے مورخہ ۳۰ !اگسٹ ۱۹۹۴ء داعی اجل کو لبیک کہنے تک بھٹکل اور ممبئی میں سرگرم عمل رہے ، ایک ایسے زمانے میں جب ہندوستان سے عازمیں حج بیت اللہ صرف قرعہ نکلنے کے بعد ہی حج پاسپورٹ حاصل کرکے پانی جہاز سے جاسکتے تھے ، ان دنوں آپ صابو صدیق مسافر خانے میں انجمن خدام النبی سے وابستہ رہ کر لاتعدا د لوگوں کی تیس سال سے زیادہ عرصہ تک مدد کی ، اس ذریعے سے آپکے برصغیر کے جملہ اکابر سے برادرانہ تعلقات قائم ہوئے ، اس دوران مولانا قاضی اطہر مبارکپوری علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں البلاغ ممبئی جاری کیا ،۱۹۵۵ء میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں کل ہند تعلیمی کنوینشن ممبئی کے موقعہ پر آپ کا شائع کردہ ضخیم تعلیمی نمبر دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے ۔ بھٹکل کے جملہ سماجی و تعلیمی اداروں میں آپ فعال رہے ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل اور جامعۃ الصالحات بھٹکل آپ کی قائم کردہ یادگاریں ہیں جو آج بھی علاقہ کو علم دین کی روشنی سے منور کررہی ہیں ۔
مرحوم اپنی زندگی کے جو مشاہدات اور تجربات بتاتے تھے وہ بڑے انمول اور موثر ہوا کرتے تھے ، اس ناچیز نے بارہا کوشش کی کہ ان کے مشاہدات کو ریکارڈ کرکے محفوظ کیا جائے ، جس کی کم ہی فرصت ملی ، خوش قسمتی سے آپ کی رحلت سے کچھ عرصہ قبل ۱۹۸۷ء میں نائطی زبان میں آپ کے دو ویڈیو انٹرویو لینے کا موقعہ نصیب ہوا ۔ یہی انٹرویو آب بیتی کی شکل میں اردو زبان میں منتقل کرکے پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں ، ہمیں امید ہے کہ قارئین اسے پسند کریں گے ۔ مرحوم کے حالات زندگی پر مولانا سید ابوالحسن ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل نے ایک خصوصی مجلہ عرصہ پہلے شائع کیا تھا ، لیکن آپ کی ایک مفصل سوانح لکھنے کا قرض ابھی باقی ہے ، دعا کریں اللہ تعالی اس سے سبکدوشی کی کوئی راہ نکالے ۔ شکریہ
عبد المتین منیری ۔ بھٹکل ۔ کرناٹک
ammuniri@gmail.com
واٹس اپ : 00971555636151
خاندانی پس منظر
محترم محی الدین منیری صاحب خاندان منیری کے گل سرسبد تھے ۔ یوں تو عددی لحاظ سے یہ خاندان قبیلہ بہ نسبت چھوٹے خاندانوں میں شمار ہوتا ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ معاشرے میں عزت و احترام سے نوازا ہے ۔ گذشتہ دور میں اس خاندان کے نائطی زبان کے دو شاعر مشہور ہوئے جن کا کلام گھر گھر پڑھاجانے لگا، ان میں سے ایک مولانا اسماعیل منیری ؒ تھے ، جن کا لکھا ہوا مولود نامہ نائطی زبان کے کلاسیکل ادب کا ایک ستون سمجھا جاتاہے ۔ مولانا خواجہ بہاؤ الدین اکرمی ندوی ؒکے بقول آپ کی تصنیف کردہ عربی زبان میں فقہ شافعی کی کتابیں مخطوطات میں پائی جاتی ہیں ۔ آپ کو سلطان ٹیپو کے دربار تک رسائی حاصل تھی ۔ آپ یمن کے بزرگ عالم شیخ محمد علوی جفری کے تین خلفاء میں سے ایک تھے۔ مشہور ہے کہ شیخ جفری نے سلطان ٹیپو شہید کو خلافت سے نوازا تھا اور انہیں ایک تلوار دی تھی ۔
دوسری معروف شخصیت شمس الدین منیری ؒ کی ہے ، آپ کی لکھی ہوئی مناجاتیں شادی بیاہ کے موقع پر عموماً پڑھی جاتی ہیں۔ خاص طورپر آپ کی لکھی ہوئی مناجات
ربا تو کر اپلو کرم + ہیں بے دلاور دم بدم
گناہ امچی سا بخسون + کر تو ایمانے وار ختم
ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذرنے کے باوجود اپنی رونق باقی رکھے ہوئے ہے۔
جدِ امجد محمد امین منیری ؒ ایک سیدھے سادھے بزرگ تھے ، آپ نے اور ان کے ایک فرزند اسماعیل منیری نے الگ الگ اوقات میں حج بیت اللہ کا پیدل سفرکیا تھا۔
سلسلۂ نسب اس طرح ہے ، محی الدین بن محمد امین بن محمد حسن بن محمد امین بن محی الدین بن محمد منیر بن محمد امین بن علی سکری ۔شیخ علوی الجفری علیہ الرحمۃ نے مولانا اسماعیل کو خلافت سے نوازتے وقت جو کتاب عنایت کی تھی ، اس قلمی نسخے پر آپ نے اپنا سلسلہ نسب سکری صدیقی لکھا ہے،جس کا واضح مطلب ہے کہ اس خاندان کا مخدوم فقیہ اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ سے تعلق ہے۔ علی سکری پر منیری خاندان بھٹکل کے اور اہم اکرمی خاندان سے ملتا ہے ، منیری صاحب کے والد اور ان جد اعلی جامعہ مسجد کے قدیم قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔(یہاں سے الحاج محی الدین منیری مرحوم کی زبانی آب بیتی شروع ہوتی ہے ۔ ع ۔ م ۔ م