مولانا محمد غزالی خطیبی ۔۔۔ امت کا درد جن کا زاد راہ تھا ۔01 ۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

رمضان المبارک کی ۲۳ویں طاق رات ، جس کے شب قدر ہونے کے امکانات روشن ہیں ، شب جمعہ کی جس کے بارے میں صادق و امین نے فرمایا کہ۔﴿ جو شخص جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو فوت ہوتا ہے اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتے ہیں﴿ترمذی﴾ ۔ اس رات کے مبارک ہونے میں اب کیا شک رہ جاتا ہے؟ ۔ اسی بابرکت رات کو تراویح کے بعد مولانا محمد غزالی خطیبی صاحب نے گھر والوں کو جمع کیا ، اجتماعی دعا مانگی ، جس میں عفو در گزر اور معافی کی طلب غالب تھی ، تہجد پڑھی ، سحری کے بعد آنکھ لگی تو سینے میں کچھ درد سامحسوس ہوا، بازو پر نیلاہٹ ابھرنے لگی ، بے چینی میں اہلیہ سے کہا کہ جلدی سے وضو کراؤ ، اذان کا وقت ہوا چاہتاہے ، میں دو رکعت پڑھ لوں ، ابھی وضو کرنہ پائے تھے کہ بلاوا آگیا ، اللہم اغفرلی کہتے ، کلمہ طیبہ پڑھتے ، دیکھتے ہی دیکھتے روح قفس عنصری سے آزاد ہوگئی ۔ اور امت کی فکر میں ساری زندگی بسر کرنے والا، دارین میں ان کی کامیابی کے لئے اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار یہ مسافر ﴿۷۴﴾ بہاریں اس فانی دنیا میں گزار کر اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹ گیا ، اناللہ و انا الیہ راجعون ۔ اس خوش بختی کے کیا کہنے۔ زندگی گزاری تو رضائے الہی کی طلب میں ، فکر تھی تو صرف امت کی ، ایسی بابرکت روحوں کے مالک حقیقی سے ملنے کے لئے ایسے بابرکت لمحات کا انتخاب نہ ہو تو ان خوش نصیبیوں کا حقدارآخر کون ٹہرے گا ؟
سنہ ۱۹۴۴ء میں آپ کی ولادت باسعادت مولانا قاضی ابو بکر خطیبی مرحوم ا﴿اوپا خلفو﴾کے گھر آپ کی دوسری اہلیہ کے بطن سے ہوئی تھی ، قاضی ابوبکر مرحوم کا نسب بھٹکل کے عظیم نائطی بزرگ مخدوم فقیہ محمد اسماعیل سکری علیہ الرحمہ سے جا ملتا ہے ۔ مشہور ہے کہ ۸۵۱ھ میں جب جامع مسجد بھٹکل کی تعمیر نو ہوئی تھی تب آپ اس مسجد کے خطیب مقرر ہوئے تھے ، اس کے بعد سے یہ منصب آپ ہی کی اولاد میں نسلا بعد نسل جاری ساری رہا ،مولانا ابو بکر خطیبی مرحوم اس سلسلے کی آخری کڑی تھے ،۱۹۵۷ء میں ﴿۶۵﴾ سال اس مسجد میں خطابت کی ذمہ داری سنبھال کر قومی وحدت کے لئے آپ نے قربانی دیتے ہوئے خطابت کے اس موروثی منصب سے سبکدشی اختیار کی تھی ۔ مولانا قاضی شریف محی الدن اکرمی علیہ الرحمۃ کی زندگی میں آپ نے نائب قاضی کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی ، ۱۹۶۵ء میںاکرمی صاحب کی وفات سے اپنی رحلت ۱۹۷۴ء تک قاضی جماعت المسلمیں کی حیثیت سے فرائض منصبی انجام دئے ، آپ کی صالحیت شک وشبہ سے بالاتر تھی ، زندگی میں بڑی جفاکشی کی ، قاضی محلہ کی چھوٹی سی مسجد میں امامت کرکے گزر بسر کی، جلانے کے لئے اپنے ہاتھ سے انہیں کلہاڑی سے لکڑی توڑتے ہوئے دیکھنے کا اس ناچیز کو بھی ہلکا ہلکا خیال آتا ہے ۔مرحوم نے اپنے بچوں کی دینی تعلیمی نہج پر تعلیم و تربیت کی ، آپ کی اولاد میں سے مولانا قاضی محمد احمد خطیبی مرحوم نے قاضی شہر کی حیثیت سے نام کمایا ، مولانا عمر خطیبی اللہ آپ کی عمر دراز کرے دارالعلوم دیوبند میں اپنے ہم نام اور نامور مبلغ و داعی مولانا محمد عمر پالنپوری مرحوم کے ہم درس رہے ، محمد حسین خطیبی مرحوم بھی امامت مسجد سے زندگی بھر وابستہ رہے ،آخر الذکرکی زبانی معلوم ہوا تھا کہ محمد علی جناح کے انتقال کے وقت آپ کراچی میں موجود تھے ، تعزیت کے لئے نوابزادہ لیاقت علی خان کی مجلس میں حاضری ہوئی تو وہاں آپ نے شوافع کے یہاں رائج دعائے مغفرت مخصوص لے میں پڑھی تو نوابزادہ پر رقت طاری ہوگئی تھی اور وہ ان سے اسے باربار پڑھنے کی فرمائش کرتے رہے ۔
مولانا غزالی صاحب کی ابتدائی تعلیم وتربیت اسی دینی ماحول میں ہوئی تھی۔ پھر آپ نے انجمن حامی مسلمین کے ماتحت اسکول میں داخلہ لیا ، ابھی دسویں جماعت( میٹرک) میں زیر تعلیم تھے کہ بھٹکل میں ایک دارالعلوم کے قیام کی تحریک اٹھی اور ۱۹۶۲ء میں جامعہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا ، مولانا محمد اقبال ملا اور مولانا محمد صادق اکرمی صاحبان نے اسکول کی تعلیم منقطع کرکے ہراول دستے کی حیثیت سے یہاں پر داخلہ لیا ، لیکن مولانا غزالی صاحب میٹرک (گیارہویں کلاس) پاس کرکے اس قافلے میں شریک ہوئے ، اس طرح استاد الاساتذہ ومعتمد جامعہ مولانا عبد الحمید ندوی علیہ الرحمہ کے زیر اہتمام جامعہ کے پہلے درجے نے تعلیمی سفر شروع کیا ، مولانا ان نونہالوں میں جامعہ کا مستقبل دیکھ رہے تھے ، لہذا ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ مرکوز کی ، اور عربی کے چھ درجات کی تعلیم چار سالوں میں مکمل کی ، ۱۹۶۶ء میں اس درجے کے طالب علموں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے درجہ ہفتم عربی میں داخلہ لیا اور دوسال رہ کر ۱۹۶۷ء میں یہاں سے عالمیت کی سند اعلی درجات سے پائی ، مولانا صادق صاحب نے مزید دو سال وہاں رہ کر دستار فضیلت سے خود کو مزین کیا۔ مولانا عبد الحمید ندوی علیہ نظر بڑی دور رس تھی ، جامعہ کو گروہی اور جماعتی عصبیتوں سے بلند ہوکر اسے متحدہ پلیٹ فارم بنانا اور قوم کے سبھی طبقات اور نظریات کے افراد کے لئے اسے قابل قبول کروانا اور اسے معاشرے میں ا تحاد کی ایک علامت بنانا آپ کا مقصد تھا ، لہذا آپ نے جامعہ کے اسٹاف سے باہر وقت کے ایک مشہور عالم دین مولانا قاضی محمد اسماعیل اکرمی علی الرحمۃ کی خدمت میں اپنے ان نونہالوں کو فیض پانے کے لئے بھیج دیا ۔ مولانا اسماعیل اکرمی خلیفہ جماعت المسلمین کے قاضی ، مولانا شاہ عبد العلیم میرٹھی کے مرید اور شیخ شرف الدین یحیی منیری علیہ الرحمۃ کے سلسلہ فردوسیہ کی آخری خانقاہوں میں سے ایک کے سجادہ نشین تھے ۔
مولانا غزالی صاحب کے زمانے کا دار العلوم ندوۃ العلماء طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے زیادہ بڑا نہیں تھا ، لیکن اس زمانے میں کئی اکابر علماء مولانا اسباط ، مولانا عبد الحفیظ بلیاوی ، شیخ الحدیث مولانا محمد اسحاق سندیلوی ، شیخ التفسیر مولانا اویس نگرامی علیہم الرحمۃ وغیرہ اس ادارے کی مسند تدریس پر فائز تھے ، اسی طرح شمالی ہند میں اس وقت کئی ایک اسلاف کے نمونے بقید حیات تھے ، اس زمانے کے طلبہ میں اکابر سے تعلق ان کی خصوصی مجالس میں حاضری اور ان سے استفادہ کرنے کی تڑپ عموما پائی جاتی تھی ، اب یہ شوق و ذوق طلبہ سے ختم ہوتا جارہا ہے ، اب کسی میں عوامی اور جذباتی تقاریر میں شرکت کا شوق پایا جائے تو اسے ہی بہت سمجھا جاتا ہے ، لہذا اسلاف کی زندگیوں کے تجربات نئی نسلوں میں منتقل ہونے کے بجائے ، جذباتی نعرے بازیاں دلوں میں گھر کر رہی ہیں ، اب اگر علمی ذوق زوال پذیر ہوتو پھر تعجب کیوں ہونے لگے ؟
مولانا غزالی صاحب نے اس زمانے کے بزرگان دین کے ساتھ عموما نیازمندانہ تعلق رکھا ، بھٹکل میں بزرگان سے تعلق کے کئی ایک نمونے پائے جاتے ہیں ، ان تعلقات کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں ، لیکن نیازمندانہ تعلقات میں بھٹکل کے مرحوم بزرگ ڈاکٹر علی ملپا صاحب کے تعلقات سے آپ کو تشبیہ دینا زیادہ قرین قیاس لگتا ہے ، زمانہ طالب علمی میں آپ کے روابط جن بزرگان دین سے رہے ،اور جن کی مجالس میں تعلیمی زندگی کے قیمتی اوقات آپ نے گزارے ان میں سے لکھنؤ کے مولانا عبد الباری ندوی صاحب خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانوی علیہ الرحمۃ اور بھوپال کے حضرت مولانا محمد یعقوب مجددی عرف ننھے میاں علیہ الرحمۃ کی شخضیات اہم ہیں ، اول الذکر ندوے کے سپوت اور شبلی کے شاگر د تھے ، ثانی الذکر اپنے دور کے عظیم اہل دل شمار ہوتے تھے ، تصوف کو خالص تزکیہ نفس اور اتباع سنت کی نظر سے دیکھنے والے اہل اللہ میں سے ایک ،مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ جیسی شخصیات آپ کی گرویدہ تھیں حضرت مولانا نے مولانا مجددی علیہ الرحمۃ کے ملفوظات صحبتے بااہل دل کے نام سے مرتب کرکے ان مجالس کو دوام بخشا ہے ۔مولانا غزالی کا حضرت مجددی سے بیعت و ارشاد کا تعلق تھا ، مجددی علیہ الرحمہ کی قبولیت دعا کے بارے میں ہمارے تایا الحاج محی الدین منیری مرحوم کا روایت کردہ یہ واقعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ، مرحوم بیان کیا کرتے تھے کہ :
﴿۱۹۵۷ء میں بھوپال میں ایک تبلیغی اجتماع منعقد ہورہا تھا ، جس میں شرکت کے لئے بمبئی سے انجمن خدام النبی کے ذمہ دار احمد غریب سیٹھ مرحوم وغیرہ احباب جارہے تھے ، انہیں چھوڑنے کے لئے میں ریلوے اسٹیشن گیا ، میرا ارادہ ان کے ساتھ سفر کا نہیں تھا ، لیکن ان حضرات نے زبردستی مجھے پکڑ کر ٹرین پر بٹھادیا ، اور میرا ٹکٹ کاٹ دیا ، اب اپنے بد ن ہی کے کپڑوں ہی پر رخت سفرپر مجبور ہوناپڑا ، علاوہ ازیں حسب عادت سفر کے بارے میں اپنی والدہ کو بھی خبر نہیں دی جاسکی ، بھوپال پہنچنے پر مجھ پر اچانک دل کا دورہ پڑا، سب پریشان ہوگئے ، احمد غریب مرحوم بڑے بارسوخ آدمی تھے ، انہوں نے اپنے دور کے مشہور ترین معالج امراض قلب مسیح الملک مسعود الحسن سے رجوع کیا ، ان سے وقت لینے میں ہفتوں لگتے تھے ، ڈاکٹر صاحب نے ان کی جانچ کرکے فرمایا کہ غصے سے فرمایا ابھی لائے ہو انہیں، ان کے تو چل چلاؤ کا وقت ہے ، بچنے کی کوئی کرن باقی نہیں بچی ہے ۔ یہ سن کر سٹھی گم ہوگئی ، سب رونے لگے ، اس وقت وہاں پر موجود لوگوں نے بتایا کہ بھوپال میں ایک بزرگ پائے جاتے ہیں ، ننھے میاں صاحب ، مغرب کی نماز میں ان سے مسجد میں ملاقات ہوسکتی ہے ، ان شاء اللہ ان کی دعا سے شفایابی ہوگی ، مولانا سے مغرب کی نماز کے بعد ملاقات ہوئی ، بڑی شفقت سے ملے ، اور فرمایا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور فرمایا صبح و شام تین دفعہ، ﴿بسم اللہ الذی لایضرہ مع اسمہ شئی فی الارض ولا فی السماء و ہو السمیع العلیم﴾ ۔ ،پڑھا کریں ۔ منیری صاحب نے فرمایا کہ چند روز کے بعد ہم ممبئی لوٹے تو ایک روز کے اخبار ات کی شہ سرخی تھی کہ امام الھند مولانا ابو الکلام آزاد کا انتقال ہوگیا ، اور دوسرے روز کی خبر تھی کہ مسیح الملک مسعود الحسن کا حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوگیا ، اس واقعہ پر تیس سال سے زیادہ عرصہ گزررہا ہے ، بھٹکل میں جو بھی بیماری نئی نئی آتی ہے تو پہلے پہل میرے گھر آکر پوچھتی ہے کہ کیا میں آپ کے یہاں پہلے آچکی ہوں؟ ، لیکن اتنی ساری بیماریاں بھگتنے کے باوجو ہمیں د دوبارہ دل کی بیماری کی کوئی شکایت نہیں ہوئی ، یہ ننھے میاں کی دعا کا اثر تھا ﴾مولانا غزالی صاحب نے ننھے میاں کی رحلت کے بعد حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمۃسے سلسلہ بیعت و ارشاد قائم کیا تھا ۔
whatsapp:+971555636151