سفر حجاز ۔۔۔(01)۔۔۔ باب اول ۔ روانگی۔۔۔ بمبئی۔۔۔  تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:23PM Thu 3 Jun, 2021

۔(۰۱)۔۔۔ باب اول ۔ روانگی۔۔۔ بمبئی۔۔۔  تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

 عید ہرسال آتی ہے۔ اب کی عید ہر سال کی معمولی عید نہ تھی، کسی کے آستانے پر ذوقِ جبیں سائی دل کو بتیاب کیے ہوئے تھا۔ کسی کے دربار میں حاضری  کا دن ایک ایک کر کے گنا جا رہا تھا۔ رمضان ختم ہوا عید آئی، انتظار کی گھڑیاں کٹیں، وعدۂ دیدار پورا ہونے کی ساعت آئی، مہجوری کے بعد حضوری، انتظار کے بعد دیدار، پیاس کے بعد سیرابی، جس  کار فرمائے فطرت نے ازل سے یہ قانون رکھ دیا ہے۔ اسی نے ماہ مبارک کا خاتمہ موسم حج کے آغاز پر رکھا ہے۔ (الحج اشھر معلومات) حج  کا مشہور و معروف موسم عین اس وقت شروع ہوتا ہے، جب آخری روزہ اور آخری افطار، آخری تراویح اور آخری سحری سے فراغت ہو چکتی ہے۔ مبارک ہیں ماہ مبارک کی راتوں کی وہ بیداریاں جوکسی کی آرزوئے دید میں بسر ہوں اور مبارک ہیں ماه مبارک کے بھوک اور پیاس، ضعف اور تڑپ والے وہ دن، جن کا خاتمہ کسی کی گلی کے طواف و سعی پر ہو!۔

انبساط عید دیدن روئے تو

عیدگاہِ ماغریباں کوئے تو

صد ہزاروں عیدقربانت کنم

اسے ہلال ماخمِ ابروئے تو

سفر سیر و تفریح کے لیے نہ تھا، تحصیل ’’علوم‘‘ و تکمیل ’’فنون‘‘ کے لیے نہ تھا، علمی و ادبی ’’تحقیقات‘‘، تاریخی داثری ’’تفتیش‘‘ کے لیے نہ تھا، کشمیر و شملہ کا نہ تھا، لندن و پیرس، آکسفورڈ و کیمبرج کا نہ تھا، ہاں وہاں کے لیے بھی نہ تھا، جہاں گرج گرج کر تقریریں کی جاتی ہیں اور جھگڑ جھگڑ کر ریزرولیشن پاس ہوتے ہیں۔ سفر چلچلاتی ہوئی ریگ والی زمین کی طرف تھا۔ گرمی کے موسم میں اس آسمان کی چھت کے نیچے تھا، جس کا آفتاب تمتایا ہوا ہوتا ہے ، ہوٹلوں اور پارکوں، آبشاروں اور سبزه زاروں کی طرف نہ تھا، خشک اور چٹیل میدانوں، بے آب وگیاہ ویرانوں اور آگ اور خاک برسانے والے ریگستانوں کی جانب تھا۔ ایک گنہ گار امتی اپنے شفیع و شفیق آقا کے آستانے پر حاضر ہو رہا تھا۔ بندے کی حاضری اپنے مولیٰ کے دربار میں تھی۔ بھاگا ہوا غلام تھک کر، ہار کر، پچھتا کر اور شرما کر پھر اپنے مالک کی طرف رخ کر رہا تھا۔ ذره آرزومند تھا کہ آفتاب کی تابش سے جگمگا اٹھے۔ قطرہ کو ہوس ہوئی کہ بیکراں کے وصل کا لطف اٹھائے۔ مشت خاک کو یہ دما غ ہوا کہ نور پاک کے جاروب کشوں کی فہرست میں اپنا نام لکھائے جو کچھ بھی نہ تھا، اسے یہ ولولہ ہوا کہ جو سب کچھ ہے اس سے تعلق و پیوند پیدا کیا جائے۔

ہے آرزو کہ ابروئے پرخم کو دیکھئے

اس حوصلے کو دیکھئے اور ہم کو دیکھئے

 حاضری کا حکم دینے والے کا حکم ہے کہ زادِ راہ ساتھ لے کر چلو وَتَزَوَّدُوْا اور خود ہی زادِ راه کی تشریح بھی فرما دی ہے کہ بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے۔ ۔(فان خیر الزاد التقوىٰ) یہاں قحط تھا تو اس جنس کا، محرومی تھی تو اس سرمایہ سے، تہی دستی تھی تو اسی توشہ راہ سے۔ دل ہچکچایا، طبیعت رکی، ارادہ کا قدم ڈگمگایا مگرمعاً یاد آیا کہ وہ خدائے قدیر و رحیم، جو ہر روز تاریکی کو نور میں بدلتا رہتا ہے۔ سڑے ہوئے فضلہ اور عفونت پھیلانے والی کھاد سے طرح طرح کے خوشبودار رنگارنگ گل بوٹے، گلاب اور چنبیلی، جوہی اور موتیا، خوش رنگ و بامزہ پھل پھول، جاں نواز میوے اور غلے وغیرہ اگاتا رہتا ہے، بے جانوں میں جان پھونکتا رہتا ہے۔ کیا وہ تباہ کاروں کو اپنے دربار میں حاضری کی نعمت سے سرفراز کرنے پر قادر نہیں؟ کیا درماندوں اور خستہ حالوں کے دامن کو گوہر مرادسے بھر دینا، اس کے فضل و کرم سے کچھ بعید ہے؟ کیا وہ صرف نیکوں اور پاکوں، پارساؤں اورپاکبازوں ہی کا والی و وارث رب اور مالک ہے؟ اور مدہوشان غفلت اس کے لطف و رحمت سے خدانخواستہ محروم ہی رہیں گے؟

ٹوٹی ہوئی امت بندھی، دھڑکتا ہوا دل تھما، ڈگمگاتے ہوئے پیر سنبھلے۔ چند روز قبل حیدر آباد جانا ہوا تھا، وہاں کے متعدد اہلِ دل بزرگوں کی گفتگوئیں اور صحبتیں دل میں شوق اور ولولہ پیدا کر چکی تھیں۔ اس سے قبل دہلی کے زندہ جاوید محبوب الٰہی نظام الدین کے دربار سے اجازت مل چکی تھی۔ ماهِ رمضان المبارک میں دیوبند اور تھانہ بھون کے دو زنده خاصان حق کی زبان سے مزید حوصلہ افزائی ہوگئی۔ اتنی ساری تائیدات غیبی کے بعد بھی اگر کوئی بد بخت ازلی سوچتا اور ہچکچاتا ره جاتا تو وہ انسانوں کے بجائے جمادات میں شمار کرنے کے قابل تھا۔ اعظم گڑھ، لکھنؤ اور حیدر آباد سے بعض کرم فرماؤں نے اپنے اپنے تجربوں کے مطابق ضروریاتِ سفر سے متعلق یاداشتیں بھی مرتب کر کے روانہ کردی تھیں۔

 یکم شوال۔ (13 مارچ 1927ء) کو بعد ادائے ظہر ادعیہ و مأثورہ پڑھتا ہوا گھر سے باہر نکلا۔ مسجد سے رخصت ہوا، جدِ اعلیٰ حضرت مخدوم شیخ محمد آبکشؒ  چشتی نظامی ۔(متوفی 845ھ) اور دوسرے بزرگوں کے مزارات پر فاتحہ پڑھی۔ قصبہ کے مسلمان ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرح اس وقت سخت باہمی زور آزمائی میں مصروف ہیں۔ ہر فریق دوسرے کی عزت و آبرو کا دشمن، یہاں تک کہ آج عید کا دن بھی انہیں گلے نہ مل سکا تھا لیکن مقلب القلوب کی کار سازی کہ اپنے ایک ناکارہ و ننگ وطن، ہم وطن کو رخصت کرنے کے لیے ہر فریق اپنی پوری محبت و خلوص کے ساتھ آمادہ ہو گیا۔ عین عید کی مشغولیت میں تیز دھوپ میں پا پیاده سب کا دو میل تک اسٹیشن آنا اور ہر قدم پر اپنے جوشِ محبت کا ثبوت دیتے رہنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ وطن سے روانگی کے بعد 42 میل پر پہلی منزل لکھنؤ کی تھی اور لکھنؤ بھی اپنے گوناگوں تعلقات کے لحاظ سے گویا وطن ہی ہے۔ یکم شوال کو شب میں یہاں پہونچے تھے اور 3 شوال (15 مارچ) یوم جمعہ کو شب ہی میں یہاں سے روانہ ہوئے۔ دوپہر سے دوستوں اور بزرگوں کی تشریف آوری کا جو سلسلہ شروع ہوا تو ٹھیک اس لمحہ تک کہ جب تک 10 بجے شب کو گاڑی چھوٹ نہ لی۔ برابر جاری رہا۔ امام ضامن (خدا معلوم یہ بدعتی نام اور کہیں بھی چلا ہوا ہے یا نہیں، ہمارے اُودھ میں تو اس کا بڑا رواج ہے۔) کے روپے اور ناشتے کے خوان پر خوان چلے آرہے ہیں اور رخصت کرنے والوں میں شہر کے نامور بیرسٹراور وکلاء، اطباء اور ڈاکٹر، اخبارات کے ایڈیٹر، رسالوں کے مینجر، ندوہ کے علماء اور انگریزی کالجوں کے پروفیسراور طلبہ، فرنگی محل کا ماشاء اللہ سارا خاندان، عام احبا و اعزہ۔ کوئی کس کس کے نام گنوائے اور سب کی مکمل فہرست یاد رکھنے کا دماغ کس کو؟ بڑے اور چھوٹے، عالم اور عامی، سب نے جس خلوص و محبت سے رخصت کیا ہے، اس کی یاد  کا نقش جلد مٹنے والا نہیں۔

احادیث نبوی ﷺ میں جمعرات اور ہفتہ  کا سفر مبارک بتایا گیا ہے لیکن اس سفر کا جو نظام اوقات اپنے قصد و اختیار سے بنایا۔ اس میں سہولتوں کے لیے لحاظ صرف تاریخوں کا رکھا گیا تھا۔ دنوں کی طرف کوئی التفات ہی نہ ہوا۔ کریم کی کریمی ملاحظہ ہو کہ دریا آباد اسٹیشن سے گاڑی ایسے وقت چھوٹی کہ چہار شنبہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا اور شب پنج شنبہ کا آغاز ہونے کو تھا اور لکھنؤسے روانگی کے وقت شب شنبہ کو شروع ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے گویا سفر جمعرات و شنبہ کی برکتیں از خود اور اضطراراً نصیب ہو گئیں۔ ۔(16 مارچ) کو صبح کے وقت گاڑی جھانسی پہونچی اور یہیں اس لکھنؤ جھانسی ایکسپریس کی منزل سفر ختم ہوگئی۔ کچھ ہی دیر بعد یہاں دہلی سے آنے والا بمبئی ایکسپریس مل گیا اور اب سفراس میں شروع ہوا۔ قافلہ ماشاءاللہ خاصا بڑا اور سفر طویل، سامان سفر بھی ظاہر ہے کہ اسی مناسبت سے تھا۔ قلیوں سے گلخپ اور تہتک جھانسی اسٹیشن پر ناگزیر سا تھا اور وہ بھی ہو کر رہا لَا جِدَالَ فِی الحَجِّ  کا حکمِ تشریعی کچھ خواہ مخواہ تھوڑے ہی ملا ہے۔

راستہ میں سہ پہر کو بھوپال اسٹیشن پر دوستوں اور عزیزوں ہی نے نہیں بلکہ ایسے مہربانوں نے بھی جن کی خدمت میں اس کے قبیل نیاز حاصل نہ تھا۔ جس مسافر نوازی کا ثبوت دیا، اس کا معاوضہ بجز دعائے خیر کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی سب کو دارین میں فائز المرام کرے! ایکسپریس بھقا بھق چلا جا رہا تھا۔ وطن ہر لحظہ دور سے دور تر ہوتا جا رہا تھا، نہیں کہ اس کا احساس نہ ہو۔

۔ ۱۷ مارچ یکشنبہ کو علی الصباح بمبئی پہونچے۔ ناواقفوں کے لیے بمبئی کا مرحلہ بھی کچھ کم کٹھن نہیں۔ ان پڑھ دیہاتیوں کا ذکر نہیں، اچھے اچھے پڑھے لکھے شہری اگر ان کا کوئی دوست یا شناسا یہاں موجود نہیں تو پہلی دفعہ بمبئی پہنچ کر چکرا جاتے ہیں۔ بمبئی میں حاجیوں کے لیے متعدد وسیع آرام دہ مسافرخانے بنے ہوئے ہیں۔ جہاں آدمی بغیر کسی کرائے کے کئی روز تک ٹھہر سکتا ہے۔ حاجی سیٹھ صابو صدیق مرحوم کا مسافر خانہ کرافرڈ مارکٹ ۔(جہاں دنیا بھر کی چیزیں ملتی ہیں) سے متصل اور بڑے اسٹیشن ۔(وکٹوریہ ٹرمنس) سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ سب سے زیادہ عالیشان، وسیع اور آرام دہ ہے۔ اس کے داروغہ مولوی حضرت اللہ صاحب کے چہرہ کی نورانیت ان کی باطنی پاکیزگی کا آئینہ ہے اور ان کے نائب منشی عبدالستار صاحب اخلاص کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ’’سچ“ کے کرم فرماؤں میں نکلے۔ خیال تھا کہ قیام اس مسافر خانہ میں ہو گا۔ 1912ء میں والدِ ماجد مرحوم مع والدہ صاحبہ کے جب حج کو تشریف لے گئے تھے تو وہ یہیں مقیم ہوئے تھے۔ (1) لیکن ابھی بڑا اسٹیشن دور تھا۔ اور پوری طرح صبح بھی نہ ہونے پائی تھی کہ بھائی کلہ اسٹیشن پر مولانا شوکت على ۔(م: 1938ء) مع اپنے رفقاء کے نمودار ہوئے اور حکم ہوا کہ وکٹوریہ ٹرمنس پہونچ کر دارالخلافہ چلنا ہوگا، کس کی مجال تھی کہ بابائے خلافت کے حکم کی تعمیل نہ کرتا۔

۔’’دارالخلافہ‘‘ کوئی مسافرخانہ یا مہمان سرا نہیں، مرکزی خلافت کمیٹی کے دفتر کا نام ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ کرایہ پر بے شمار روپیہ صرف کرنے کے بعد اب جمیعت خلافت کے پاس اپنا ذاتی مکان ہو گیا ہے۔ یہ مکان بھائی کلہ اسٹیشن سے دو فرلانگ پر لولین ۔(lovelane۔ کسی نے اس کا ترجمہ کوئے جاناں خوب کیا ہے) میں واقع ہے۔ وسیع دو منزلہ عمارت، صحن کشادہ، خاموش پرسکون فضا، بمبئی میں ایسی عمارت ہاتھ آجانا خوش قسمتی ہی ہے۔ مرکزی عمارت کے حصہ زیریں میں دفتر جمیعت خلافت و دفتر روزنامہ خلافت، بالاخانہ پر مولانا شوکت علی کی فرودگاه، نیز معزز ’’مہذب‘‘ مہمانوں کے لیے آراستہ و مرصع ڈرائنگ روم اور دوسرے کمرے ۔(یہاں یہ سوال نہ پیدا کیجئے کہ جمعیت خلافت کو اس پر تکلف آرائش و زیبائش کی ضرورت کیا؟ قرن صحابہ کی خلافت راشدہ اور چودھویں صدی ہجری کی خلافت کمیٹی میں اب کیا اتنا بھی فرق نہ ہو؟) پہلو کی دوسری عمارت کا بالاخانہ مولانا محمد عرفان ۔(2) کی فرودگاه اور اسلامی سادگی کی سچی تصویر، نیچے کے حصہ میں خلافت بک ڈپو اور روزنامہ خلافت کے ایڈیٹوریل اسٹاف کے لیے کمرے، مرکزی عمارت کے نیچے دو کمرے ہمارے قافلے کے لیے خالی کر دیے گئے۔ ان میں عورتیں آرام و اطمینان سے رہیں۔ مرد دن بھر ادھر ادھر رہتے۔ رات کو کچھ صحن اور برآمدہ میں لیٹ رہتے اور کچھ زبردستی مولانا عرفان کے کمرے پر قابض ہو جاتے۔ مولانا شوکت علی کا تار لکھنؤ میں مل گیا تھا کہ کوئی اچھا جہاز شروع شوال میں نہیں جائے گا۔ بمبئی پہونچ کر معلوم ہوا کہ دس بارہ روز کا انتظار ناگزیر ہے۔ دل کا شوق مضطرب کہ مہینوں کی مدت دنوں میں اور دنوں کا وقت منٹوں میں کس طرح کٹ جائے لیکن بلانے والا اگر خود ہی حکم بھیج دے کہ دوڑتے ہانپتے ہوئے نہیں، راستہ میں دم لیتے ہوئے اور قدم قدم پر سستائے ہوئے دربار میں حاضر ہو تو فرمایئے کہ جانے والے کا دل آخر کیوں کڑھے؟

بمبئی ہندوستان کا شاید سب سے بڑا ’’یا جوجی‘‘ شہر ہے۔ لندن اور پیرس، نیویارک اور شکاگو کی زیارت سے جو لوگ مشرف نہیں ہوئے ہیں، وہ ان کا ایک ہلکا سا نمونہ بمبئی میں دیکھ سکتے ہیں، ویسی ہی ہر طرف آسمان سے باتیں کرنے والی اونچی عمارتیں، وہی روپیہ کی گرم بازاری، وہی دوکانداری میں انہماک، وہی عیش کی فراوانی، وہی مستی و نفس پرستی، وہی برق و دہان کی پرستاری، وہی ملوں اور انجمنوں اور کارخانوں کا زور، وہی ریل، ٹریم اور موٹر کاروں کا شور، وہی صبح سے لےکر رات تک اور شام سے لےکر صبح تک چیختے اور چلاتے ہوئے، شور مچاتے اور دھواں اڑاتے ہوئے، دھکیلتے اور کچلتے ہوئے، یاجوج کی بے چینی اور بےقراری، بھاگ دوڑ، شوروغل، چیخ و پکار، شور و اضطراب! دن کو چین نہ رات کو سکون اور اسی کا نام اس دورِ یاجوجی میں ’’ترقی و تہذیب‘‘ہے۔ حیرت صرف اس پر ہے کہ اس غلبہ یاجوجیت کے باوجود اب تک یہاں کی مسجدیں کیونکر اس قدر آباد و پررونق ہیں اور اتنے نمازی اور دین دار مسلمان یہاں کیسے نظر آتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔(1)…1912ء میں اس لق و دق عمارت کو میں نے کس بے تعلقی اور بے گانگی سے دیکھا تھا، ’’صاجبیت‘‘ کے نشہ میں مَست، کہیں اس وقت یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ 17 سال بعد اسی عمارت کی زیارت اس نیاز مندانہ حیثیت سے کرنی ہو گی، یہ مسافر خانہ 1912ء سے قائم ہے اور اس کا انتظام ٹرسٹیوں (متولیوں) کی جماعت کے ہاتھ میں ہے، یہ عمارت چو منزلی ہے ، کل 81 کمرے ہیں، ہر کمرے میں دس باره حاجی گزرکر سکتے ہیں۔ اس طرح کم و بیش ایک ہزار مسافروں کی اس میں گنجائش ہے، ہجوم کے زمانے تک بر آمدے تک بھر جاتے ہیں۔ کسی سے کوئی کرایہ وغیرہ نہیں لیا جاتا۔ ہر منزل پر آٹھ آٹھ پاخانہ، چار چار غسل خانہ اور دو بڑے بڑے باورچی خانہ ہیں۔ بجلی قدم قدم پر موجود یہاں کے آرام اور حسنِ انتظام کو دیکھ کر بانی مسافرخانہ حاجی صابو صديق مرحوم کے حق میں ہر حاجی کے تہِ دل سے دعائے خیر نکلتی ہے، گو بعض مسافر اپنی اپنی بد سلیقگی، گندے پن اور پھوہڑ پن سے اپنے کو یہاں کے قیام کے نااہل ثابت کرتے رہتے اور دوسرے مسافروں کی بددعائیں لیتے رہتے ہیں۔

(2)…ضلع ہزاره (علاقہ سرحد) کے باشنده مولانا محمد عرفان علی خلوص کے پتلے تھے، پہلے جمعیۃ العلماء پھر جمعیتِ خلافت کے بڑے سرگرم اور مخلص کارکن رہے۔

ناقل: محمد بشارت نواز