کیا تین طلاق کے بعد اب ایک طلاق کی باری؟طلاق حسن کےخلاف سپریم کورٹ میں درخواست داخل

03:59AM Thu 5 May, 2022

نئی دہلی 5؍مئی(آئی این ایس) تین طلاق کے بہانے مسلم پرسنل لاکونشانہ بنایاگیا،اب جولوگ اس وقت خوش ہورہے تھے کہ تین طلاق نشانے پرہے ،طلاق حسن کورواج دیناچاہیے ،ان کے لیے سبق ہے کہ اب طلاق حسن پربھی شوشہ چھوڑدیاگیاہے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈجس نے طلاق ثلاثہ پرپابندی کے نئے قانون کوکورٹ میں چیلنج کیاہےتین سال اس مقدمہ کودائرکیے ہونے والے ہیں،لیکن ایک باربھی اس پرجلدسماعت کے لیے بورڈنے درخواست داخل نہیں کی ،اس سے ایسے عناصرکوحوصلہ مل رہاہے جویکے بعددیگرے مسلم پرسنل لاء کی آزادی کونشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی سے حوصلہ افزاء ہوکریونیفارم سول کوڈکاشوشہ چھوڑاگیاہے۔بورڈاورمسلم تنظیموں نے ابھی تک دوسرے پرسنل لازکی طرف سےکائونٹرکے طورپرچیلنج کرنے کی کوشش دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں طلاق حسن اوریکطرفہ ماورائے عدالت طلاق کی دیگر تمام شکلوں کو ختم کرنے اور انہیں غیر آئینی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طلاق کی یہ شکلیں من مانی، غیر معقول اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طلاق حسن اور اس طرح کے دیگر یکطرفہ ماورائے عدالت طلاق کے طریقہ کار غیر معقول ہیں اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔غازی آباد کی رہائشی بے نظیر حنا کی طرف سے دائر درخواست میں مرکز کو ہدایت دینے کی درخواست کی گئی ہے کہ وہ تمام شہریوں کے لیے طلاق کے لیے مشترکہ بنیاد اور طریقہ کار کے لیے رہنما اصول وضع کرے۔ درخواست گزار نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ یکطرفہ ماورائے عدالت طلاق حسن کا شکار ہوئی ہے۔ درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ پولیس اور حکام نے اسے بتایا کہ طلاق حسن شریعت کے تحت جائز ہے۔ تیسرے مہینے میں تیسری بار طلاق کہنے کے بعد طلاق کو باقاعدہ بنایا جاتا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ طلاق حسن اور ماورائے عدالت طلاق کی دیگر اقسام کو غیر آئینی قرار دے۔ ایڈوکیٹ اشونی کمار دوبے کے توسط سے دائر درخواست میں کہاگیاہے کہ مسلم پرسنل لا(شریعت)درخواست ایکٹ 1937، ایک غلط فہمی کا اظہار کرتا ہے کہ یہ قانون طلاق حسن اور دیگر تمام قسموں کے ماورائے عدالت طلاق کو منع کرتا ہے جو شادی شدہ مسلم خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 14، 15، 21 اور 25 اور شہری اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی کنونشنوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیاگیاہے کہ بہت سے اسلامی ممالک نے اس طرح کے عمل پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ یہ ہندوستانی معاشرے کو بالعموم اور مسلم خواتین کو بالخصوص درخواست گزار کی طرح ہراساں کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔