کرناٹکا چلڈرنس اردو اکادمی کے بینر تلے ایک ادبی و اعزازی نشست اور مشاعرہ

03:42PM Thu 9 Dec, 2021

شیموگہ: 09 دسمبر،2021 (راست) آج مورخہ9 دسمبر 2021دوپہر3 بجے احاطہ جامعہ مدینۃ العلوم شکاری پور شیموگہ کرناٹک میں کرناٹکا چلڈرنس اردو اکادمی کے بینر تلے ایک ادبی و اعزازی نشست اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ جلسے کی صدارت کے فرائض بچوں کے کل وقتی ادیب و شاعر اور ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ فنکار ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے ادا کئے۔ مہمانِ اعزازی کے طور پر بچوں کے بزرگ شاعر جناب ظہیر الدین ظہیر ؔ رانی بنّوری، اور اردو مشاعروں کی نظامت کے روشن ستارے جناب شفیق عابدی نے شرکت کی۔ خصوصی مقرر کے طور پر ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے شرکت کی۔ جلسے کے آغاز کے بعد مہمانوں کے لئے استقبالیہ پیش کیا گیا اور پھرجناب ظہیر الدین ظہیر ؔ رانی بنّوری اور جناب شفیق عابدی کوکرناٹکا چلڈرنس اردو اکادمی کے طرف سے بالترتیب مولانا شاہ ابو الحسن ادیب ایوارڈ اور انور جلال پوری ایوارڈ پیش کیا گیا۔ مہمانانِ اعزازی کی خدمات میں شال ہار، مومینٹو اور سپاس نامے اور کچھ نقد رقم پیش کی گئی۔ اس مجلس کی ایک خاص بات یہ رہی ہے کہ ہم مہمانوں کے اعزاز کے دوران ان کے نام کے سپاس نامے پڑھے گئے۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے صدارتی اپنی خطاب میں کہا کہ! اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے کہ جنوب میں کرناٹک کو اردو مرکز کی حیثیت حاصل ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کرناٹک میں جتنے اردو اسکول، اور کالج ہیں اتنے اردو اسکول اور کالج بہت کم ریاستوں میں پائے جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اعتمادی سے اردو کی ترقی کے لئے کام کریں۔ آپس میں اس طرح مل جل کر کام کریں جیسے ایک خاندان کے افراد و اشخاص کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جناب ظہیر الدین ظہیر ؔ رانی بنّوری کو میں اس وقت سے جانتا اور پڑھتا آرہا ہوں جب میں نے اپنے ادبی سفر کا ابھی آغاز ہی کیا تھا۔ یہ بڑی بات ہے کہ تب سے لیکر اب تک جناب ظہیر الدین ظہیر ؔ رانی بنّوری ملک بھر کے مؤقر اخباروں اور رسالوں میں تواتر سے شائع ہورہے ہیں۔ اور ریاست کا نام روشن کر رہے ہیں۔ جناب شفیق عابدی صاحب جس طرح مشاعرے کی نظامت کے لئے دورد دور تک پہچانے جاتے ہیں اسی طرح الیکٹرونک میڈیا پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔ فیس بک ہو کہ اور کوئی سوشیل میڈیا وہ ہر جگہ اپنی نظامت کی جادوگری جگاتے نظر آجاتے ہیں۔ انہوں نے سچ مچ ریاست کر ناٹک کا نام روشن کیا ہے اور مشاعروں کی نظامت کے باب میں قابلِ فخر اضافہ کیا ہے۔ آج ہم ان دونوں حضراتِ گرامی کی خدمات میں کرناٹکا چلڈرنس اردو اکادمی کی جانب سے اعزاز و ایوارڈ پیش کر کے فخر محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بات جس کی طرف میں توجہ چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہم سب کو مل جل کر ادب اور ادبِ اطفال کے فروغ کے لئے کام کرنا ہے۔ میں ان شاء اللہ ادب اطفال کی خدمت میں تا حیات لگا رہوں گا۔ مگر میں چاہوں گا کہ دوسرے لوگ بھی اس طرف متوجہ ہوں اور سب مل جل کر ایسا ادبی ماحول بنائیں کہ دوسروں کو بھی تقویت حاصل ہو۔ ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے کرناٹک میں ادبِ اطفال کی تاریخ سے اجمالی طور پر لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ادبِ اطفال در اصل اپنی شناخت کا وہ جوہر ہے جس کے بغیر نہ ادب زندہ رہ سکتا ہے نہ زبان ، نہ معاشرہ ترقی کرسکتا ہے۔ نہ سماج اور نہ بنی نوعِ انسانی کا مستقبل محفوظ و مامون رہ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچہ در اصل اس کائنات کی روح ہے ۔ جس دن اس کائنات کی ممتا بھری آغوش سے ہمکتا ہوا بچہ اٹھا لیا جائے گا۔ اس دن قیامت آجائے گی اور کائنات ختم ہوجائے گی۔ اس لئے بچوں کے ادب اور بچوں کے ادیب کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ کرناٹک میں ادبِ اطفال کی جڑیں بہت گہری ہیں مگر بعض نا عاقبت اندیش لوگ ادبِ اطفال کو اس کی جڑ یعنی دکنی ادب سے کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس لئے اس کی طاقت اور ثروت مندی سے نا واقف رہ جاتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ ادبِ اطفال بے جڑ کا پودا ہے جسے تناور درخت بننے کی بشارت نہیں دی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ چوں کہ میں نے کرناٹک کے اردو ادبِ اطفال پر تحقیق کیا ہے اس لئے میں بہت حد تک اسکی جڑوں کو پہچان چکا ہوں۔ انہوں نے جناب ظہیر الدین ظہیر ؔ رانی بنّوری کی خدمات کا بھی اعتراف کیا اور کہا کہ انہوں نے سچ مچ کرناٹک میں اردو ادبِ اطفال کا ماحول بنائے رکھنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج پوری اردو دنیا کے ادبِ اطفال کا مرکز و محور ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی ہیں۔ انہوں نے اس طرح ادبِ اطفال کو مالامال کیا ہے کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی ہے۔ ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے اپنی باتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے مہمانِ اعزازی شفیق عابدی صاحب کے بارے میں کہا کہ شفیق عابدی صاحب مشاعرے کی نظامت کی قدروں اور روایتوں کے پاسدار ہیں۔ ایسے بہت کم ناظمِ مشاعرہ ہوتے ہیں جو مشاعرے کی روح کو سمجھ پاتے ہیں۔ شفیق عابدی صاحب زبان کی نزاکت، نظامت کی تہذیب اور موقع کی نزاکت کو سمجھنے والے ایک باخبر اور ہنر مند ناظم ہیں۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جس طرح بڑوں میں گھل مل جاتے ہیں اسی طرح بچوں میں بھی گھل مل جاتے ہیں۔ جناب ظہیر الدین ظہیر ؔ رانی بنّوری نے ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی کے خلوص کی تعریف کی۔ اور کہا کہ بہت بڑی بات ہے کہ جو کام کوئی اردو اکادمی نہیں کرپاتی ہے وہ کام ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی تنِ تنہا کرگزرتے ہیں۔ کرناٹکا چلڈرنس اردو اکادمی کا ایوارڈ لینا میری عزت افزائی میں اہم مقام رکھتا ہے۔ ان شاء اللہ ادبِ اطفال کے لئے ہم سب مل جل کر کام کرتے رہیں گے۔ جناب شفیق عابدی صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی بین الاقوامی شخصیت کے مالک، شاعر و ادیب ہیں۔ وہ جتنے بڑے بچوں کے ادیب ہیں اتنے ہی بڑے رباعی کے بھی شاعر ہیں۔ان کی تخلیقی سو نامی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ یہ ان کی شخصیت کی عظمت کی دلیل ہے کہ انہوں نے مجھے انور جلال پوری جیسے معزز ناظم مشاعرہ کے نام سے موسوم ایوارڈ کے لائق جانا۔ ان کی حوصلہ افزائیوں سے یقیناً ادب میں ترقی کی راہیں روشن ہوں گی۔     محمد اظہر الدین ازہرؔ ندوی نے کہا کہ ادبِ اطفال اس وقت بہت آزمائش کے دور سے گذر رہا ہے ایسے میں بچوں کے ادب کے لئے کام کرنا دراصل زبان و ادب کی سچی خدمت ہے۔ اس لئے بچوں کے ادب کے لئے کام کرتے ہیں ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ان کی ادبی اور تخلیقی کاوشوں کی قدرو قیمت کا تعین کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی اس ضرورت کو بہ حسن و خوبی پورا کررہے ہیں۔ اس لئے وہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اس اجلاس کے بعد ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی صدارت ڈاکٹر حافظؔ کرناٹکی نے کی۔اور نظامت کے فرائض شفیق عابدی نے ادا کئے۔جناب ظہیر الدین ظہیر ؔ رانی بنّوری، اثر جعفری، عزیز الرحمن شاہد۔جناب اظہر الدین ازہرؔ ندوی، ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی،سمیع عاقل، وغیرہ نے اپنے اپنے کلام سے سامعین کو نوازا۔ان دونوں پروگراموں کے کنویر جناب انیس الرحمن اور انجینئرمحمد شعیب صاحب تھے،یہ مشاعرہ جناب عبدالعزیز صاحب کے شکریہ کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔