ماضی کے جھروکے سے۔۔۔ بھٹکل میں حفظ قرآن کی بہار(۱)۔۔۔ عبد المتین منیری

06:42PM Mon 27 Mar, 2023

ہم نے سنہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں جب  شعور کی آنکھیں کھولیں، تو بھٹکل ایک ایسی وادی کا نام تھا جو پانچ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت یہاں جملہ نو مسجدیں، جامع مسجد، خلیفہ مسجد، سلطانی مسجد، علوہ مسجد، شاہدلی مسجد، غوثیہ مسجد، قاضیا مسجد  مشما مسجد اور صدیق مسجد پائی جاتی تھیں ، سنہ ۱۹۶۰ء کا عشرہ ختم ہوتے ہوتے وقفہ وقفہ سے تنظیم مسجد، نور مسجد اور فاروقی مسجد کا ان میں اضافہ ہوا۔

آج بھٹکل کا دائرہ تین گنا بڑھ چکا ہے، اور مسجدوں کی تعداد  بڑھتے بڑھتے ایک سو کا عدد  پار کررہی ہے۔ ماہ مبارک رمضان کریم کی آمد کے ساتھ ساتھ ان مساجد میں بھی روحانی فضاؤں کا آغاز ہوچکا ہے، آج کے زمانے میں ان تمام مساجد میں نماز تراویح میں قران پاک کے ختم کا اہتمام ہوتا ہے۔ اور ہر مسجد میں باری باری تین یا اس سے زیادہ  مقامی حافظ قرآن  یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ بھٹکل میں حافظان قرآن کی تعداد اب ہزار کوچھورہی ہے۔ جن لوگوں نے آج سے نصف صدی کا بھٹکل دیکھا ہے اس منظر کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں نمی آجاتی ہے،  اور دل مسرت سے شاد باد  ہوجاتا ہے۔

ہمارے بچپن میں صورت حال کچھ یوں تھی کہ بھٹکل کی کسی مسجد میں کوئی امام حافظ قرآن نہیں تھا، مقامی شخصیات میں سے جامع مسجد، خلیفہ جامع مسجد اور مشما مسجد غوثیہ، قاضیا مسجد،  میں بالترتیب جناب عبدا لقادر باشا اکرمیؒ ( باشا خلفو)، مولانا محمداسماعیل اکرمیؒ ( دھاکلو بھاؤ خلفو)، محمد سکری اکرمیؒ خلفو، سید عبد القادر باشا علی اکبراؒ ( درجن خلفو) اور جناب قاضی ابوبکر خطیبیؒ (اوپا خلفو )،اور بقیہ مساجد میں اطراف واکناف میں شیرور، کنڈلور، اور مرڈیشور  سے آئے ہوئے افراد امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے، اوپا خلفو کی سبکدوشی کے بعد قاضیا مسجد میں بھی غیر مقامی امام مقرر ہوئے، اس زمانے میں امامت کے لئے زیادہ کوئی شرائط  مخصوص نہیں تھیں، امام پنج سورہ،اور پارہ عم کی زیادہ تر سورتوں کے حافظ ہوتے، اس زمانے میں رائج الوقت ارکان نماز، اور پنچ وقتہ نمازوںکے  لئے مخصوص دعاؤں، اذکار واوراد پر مشتمل ایک مختصر سی کتاب مخازن برکات انہیں یاد ہوتی تھی۔تجوید وقراءت کا فن عام نہیں تھا، ممبئی میں برسر روزگار چند نوجوانوں محمد اقبال دامدا ابو، ڈاکٹر محمد قاسم پیرزادے وغیرہ نے کوکنی قاری موصلے اور قاری اسماعیل کاپرے سے یہ فن سیکھا تھا،لیکن ان کا فن عوامی جلسوں میں قراءت کے مظاہرے یا کبھی کبھار امامت وآذان  تک محدود تھا۔

بھٹکل کے پہلے حافظ ، مولانا محمد اقبال مولوی ندوی  (موٹیا ) ابھی ابھی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے فارغ ہوکر یہاں وارد ہوئے تھے، اس زمانے میں پہلے آپ کا جامع مسجد میں پھر سلطان مسجد میں نماز تراویح پڑھانا یاد ہے، ۱۹۶۵ء میں مولانا حافظ رمضان ندوی مرحوم کی جب آمد ہوئی تو انہوں نے جامع مسجد میں تراویح سنانی شروع کی،ورنہ بھٹکل کی مساجد میں عموما  پارہ عم کے ربع آخر کی سورتوں اور قصار السور پر تراویح میں  انحصار ہوتا تھا، ہم بچے تیز رفتار تراویح میں شرکت کے لئے کئی ایک محلے پھاند کر بھاگم بھاگ دور دراز کی مسجدوں میں پہنچتے، مشما مسجد کی تراویح  اس لحاظ سے مثالی تھی، جہاں پرعبید اللہ اسحاقی خلفو مرحوم کی امامت کا دور شروع ہوچکا تھا،ان کی امامت میں تراویح کی بیس رکعتیں، ہر دو رکعت کے بعد  فضلا من اللہ ونعمة ومغفرة  ورحمۃ  کاورد اور چار رکعتوں کے بعد خلفائ اربعۃ پر سلام کے ساتھ ساتھ پندرہ بیس منٹ میں ختم ہوجاتی تھی۔

 آج جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے درجہ حفظ اور دوسرے اداروں میں تعلیمی سال کے آغاز میں سوسے زیادہ بچے اور بچیاں حفظ قرآن کے لئے داخلہ لیتے ہیں،لیکن اس زمانے میں حفظ قرآن کا کوئی خاص نظم نہیں تھا، ناظرہ قرآن کی گھروں میں تعلیم کا رواج عام تھا، اسے پڑھانے والے ،مرد وزن خلفو یا خلفین کہلاتے تھے۔ جن کا تجوید ومخارج کا علم واجبی سا تھا، درست مخارج کے ساتھ قرآن کی تعلیم کا باقاعدہ اہتمام پہلی مرتبہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تاسیس کے بعد۱۹۶۴ء میں شاہدلی مسجد میں ہوا تھا، یہاں ایک یمنی قاری شیخ محمد بن عبد اللہ المدنی مرحوم کا تعلیم قرآن کا حلقہ قائم ہوا تھا،ہاسپٹ سے آئی ہوئی ان کی اہلیہ  مستورات کے لئے چوتنی روڈ پر واقع محمد عمر کولا مرحوم کے مکان پر تعلیم قرآن کا حلقہ چلانے لگیں، قاری صاحب کو ایک مقامی خوش گلو اور خوش مزاج تاجر افریقہ سائب مرحوم ہاسپٹ سے لائے تھے۔لیکن یہ سلسلہ زیادہ دن جاری نہ رہ سکا۔

*بھٹکل کے پہلے حافظ قرآن*

حافظ کا لقب مولانا حافظ اقبال ندوی کے ساتھ نتھی رہا،  ایک مدت مدید کے بعد بھٹکل کو پہلا حافظ قرآن دینے کا سہرا جناب الحاج محی الدین منیری رحمۃ اللہ علیہ کو جاتا ہے،جن کا بھٹکل کا رواں رواں احسان مند ہے۔ بھٹکل میں پہلے حافظ قرآن کی تیاری کیسے عمل میں آئی،  اس کا تذکرہ آپ مرحوم  منیری صاحب ہی کی زبانی ملاحظہ کیجئے۔

"میرے ایک دوست تھے قادر باشا صاحب ، ان سے میری بڑی بے تکلفی تھی، وہ ہمیشہ مجھ سے اردو میں بات چیت کیا کرتے تھے، ایک دن کی بات ہے کہ میں نل بازار میں رکن الدین کاڑلی حسین مرحوم کی دکان پر بیٹھا تھا کہ وہ اپنے چھ سالہ فرزند  محمد اقبال کی انگلی تھامے  وارد ہوئے۔ او ر مجھے سے مخاطب ہوکر کہنے لگے ، منیری ! یہ بچہ تمھارے ذمہ ہے ، اس کو اسکول میں ڈال دو، میں نے جواب دیا،  جس اسکول میں آپ چاہیں میں اسے وہاں پر ڈال دوں گا، لیکن آپ  اگر اسے مجھے سونپتے ہیں تو اپنی من چاہی جگہ پر اسے داخل کردوں گا۔ انہوں نے جواب دیا ، میں نے اسے تمھارے حوالہ کردیا ، تم جو چاہو کرو، میں اس بچہ کو سیدھے قاری فیروز کے پاس چونا بھٹی مسجد لے گیا  اور ان سے درخواست کی کہ میری قوم میں کوئی حافظ نہیں ہے  ، بڑی تمنا ہے کہ میری قوم میں بھی ایک حافظ قرآن ہو، اس مقصد سے یہ بچہ آپ کی خدمت میں لایا ہوں ۔ اس کے والد نے اسے میرے ذمہ سونپ دیا ہے، اب اسے آپ کے حوالہ کرتا ہوں۔ اس پر آپ محنت کریں ، یہ میری قوم کا بچہ ہے، میرا بچہ ہے، اب اسے آپ اپنا بچہ سمجھیں۔

         خدا قاری فیروز کو غریق رحمت کرے ، انہوں نے دوسال کی انتھک محنت کے بعد اقبال کو حافظ قرآن بنا کر مجھے سونپ دیا ، میری مسرتوں کی کوئی انتہا نہیں رہی تھی ، شاید میرا کوئی بچہ بھی اس وقت حافظ بنتا تب بھی شاید مجھے اتنی خوشی نہیں ہوتی۔ میں نے قادر باشا مرحوم سے خواہش ظاہر کی کہ تمھارے فرزند کے حفظ قرآن مکمل کرنے پر میں ایک جلسہ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے جیب سے دوسو روپیئے نکالے اور کہا کہ ان سے جو چاہو کرو۔ ماوے کا سموسہ اس وقت کی ایک مشہور مٹھائی تھی۔ آٹھ آنے کا ایک سموسہ بڑا قیمتی سمجھا جاتا تھا، پائیدھونی کے مٹھائی والے سے اس رقم کے سموسے منگوائے۔چونا بھٹی مسجد میں جلسہ عام ہوا،جس میں بمبئی کے مقتدر علماء نے شرکت کی، مولانا سلطان حسن مفتی آگرہ ، قاری صدیق، مولانا محفوظ الرحمن  وغیرہ سبھی علماء نے تقریریں کیں، ان حضرات نے حافظ اقبال کو بڑی دعائیں دیں، جلسہ کے بعد قادر باشا صاحب سے میں نے کہا کہ قاری فیروز نے بڑی محنت اور دلچسپی سے آپ کے بچہ کو حافظ بنایا ہے،  انہیں کچھ ہدیہ دینا چاہئے ، یہ کہ کر میں نے ان سے دوسو روپئے لئے  اور خاموشی سے قاری صاحب کو پیش کردئے ، یہ دیکھنا تھا کہ قاری صاحب آگ بگولہ ہوگئے اور مجھ پر برس پڑے ، کہنے لگے ، تمھاری اولاد سے میں پیسے لوں ، میرے بچے سے میں پیسے لے لوں یہ کیا بات کرتے ہو۔ تمھاری بات سے آج  مجھے بڑی ناراضی ہوئی ہے، انہوں نے ایک ڈھیلہ پیسہ نہیں لیا، قاری صاحب مجھے معاف کردیجئے ، اسے میں بچے کے ابا کو لوٹا تا ہوں کہ کر میں چپ ہوگیا ، قاری صاحب نے اپنے اخلاص و محنت سے  ہماری قوم کو پہلا حافظ دیا، جو اب مولانا حافظ اقبال ندوی کے نام سے پہنچانے جاتے ہیں ۔

     حافظ اقبال اس زمانے میں جاملی محلہ میں رہا کرتے تھے، اس دور میں بمبئی کی مساجد میں تراویح میں پورا  قرآن  سنانے کا رواج عام نہیں تھا ، گنی چنی مساجد میں حافظ تراویح  میں قرآن  سنایا کرتے تھے، میں نے جاملی محلہ مسجد کے ٹرسٹیوں سے کہ سن کر انہیں تراویح کے لئے کھڑا کیا ، یوں تو مجھے قرآن ازبر یاد نہیںہے، معلوم نہیں تلاوت  درست کرتا بھی ہوں یا نہیں، لیکن اس کام میں میری اتنی دلچسپی تھی کہ سب کام چھوڑ کر روزانہ تراویح سنانے سے پہلے دوبار اہتمام سے اقبال سے قرآن کریم سنتا اور مدہوش ہوجاتا،اس کی برکت سے بھٹکل میں حفظ قرآن کا ایک دور شروع ہوا، خدا کا لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس نے میر ے ہاتھوں یہ عظیم خدمت لی۔آج بھٹکل میں سیکڑوں حافظ و حافظات پائے جاتے ہیں، مگر اس وقت کوئی حافظ نہیں تھا ، بچپن میں ہم لوگ سنا کرتے تھے کہ گڈے سیدبو کے گھرانے میں ایک صاحب اپنے مکان  پر  چلتے پھرتے قرآن پڑھا کرتے تھے ، انہیں قرآن کا وافر حصہ یاد تھ"ا۔(کتاب زندگی کے چند ورق)۔

 یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وطن عزیز ہندوستان میں تحفیظ قرآن کےمنظم انتظام کا  اولین تاریخی ثبوت بھٹکل میں نوائط برادری کے آمد سے کچھ پہلے سلطنت ہنور میں  ملتا ہے، مشہور سیاح محمد بن عبداللہ ابن بطوطہ ((وفات – 779ھ 1377 م)  نے آٹھوی صدی ہجری میں یہاں کا دورہ کیا تھا، اور  وہ ہنور کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ " اس شہر کی عورتیں ۔۔۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ سب کی سب حافظِ قرآن ہوتی ہیں۔ اس شہر میں تیرہ  (۱۳) مکتب لڑکیوں کے اور  بتیس(۳۲) لڑکوں کے ہیں۔ سوائے اس شہر کے یہ بات میں نے کہیں نہیں دیکھی(۴۔۳۴)۔ تاریخ آٹھویں صدی ہجری میں  ابن بطوطہ کے مشاہدات کے بعد  سے چھ صدیوں تک یہاں پر حفظ قرآن کی سرگرمیوں کے سلسلے میں  خاموش ہے۔ لیکن تاریخ کی خاموشی کا مطلب کچھ نہ ہونا  نہیں ہے۔

حافظ اقبال ندوی کی تکمیل حفظ کے بعد بھٹکل میں حفظ قرآن کی تحریک  رفتار نہ پکڑ سکی ، خود حافظ صاحب نے کوکن کے علاقے کو مختلف وجوہات سے اپنی توجہات کا مرکز بنایا،  اس دوران آپ کے ایک عزیز حافظ ابراہیم رکن الدین شیپائی نے حفظ قرآن مکمل کرکے سلطانی مسجد میں تراویح سنائی، جامعہ میں ابھی حفظ کے درجہ کا آغاز نہیں ہوا تھا، لیکن جامعہ میں حافظ اقبال صاحب کی تدریس کے دوران جامعہ مسجد میں تینگنڈی  حافظ عبد القادر نے اور حافظ عبد الغنی رکن الدین محمد باپو نے حفظ قرآن کا آغاز کیا،  اول الذکر نے حافظ صاحب کے کوکن کے قیام کے دوران آپ سے حفظ کی تکمیل کی، اور بھٹکل کے پڑوسی گاؤں تنگنگنڈی میں مدرسہ تعلیم القرآن کی بنا ڈالی اور تحفیظ قرآن  کی تحریک کا آغاز کیا ، جہاں لڑکیوں کے حفظ قرآن کا بھی نظم کیا گیا، بھٹکل کی پہلی حافظہ قرآن نجم السحر بنت عثمان حسن  جوباپو (ہیڈ ماسٹر  ) نے یہیں سے تکمیل حفظ کی تھی۔ حافظ عبد الغنی نے سبیل الرشاد بنگلور سے حفظ قرآن کی تکمیل کا شرف حاصل کیا، لیکن یہ کوششیں ابھی جگنؤوں کی روشنی کی مانند تھی، ابھی پو پھٹنے میں دیر تھی۔  ( جاری)