مسجدوں کی بے حرمتی کو مسلمان ہرگز گوارا نہیں کرسکتے، عدالتیں بھی مظلوموں کو مایوس کررہی ہیں : آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

02:49PM Wed 18 May, 2022

نئی دہلی : گزشتہ رات آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس عاملہ کا ایک ہنگامی آن لائن اجلاس طلب کیا گیا، جس میں خاص طور پر گیان واپی مسجد اور ملک کی مختلف مسجدوں اور عمارتوں کے سلسلہ میں فرقہ پرست طاقتوں نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس پر تفصیل سے غور وخوض کیا گیا۔ اجلاس کا احساس تھا کہ ایک طرف نفرت پھیلانے والی قوتیں پوری طاقت کے ساتھ جھوٹا پروپیگنڈا کررہی ہیں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو نشانہ بنا رہی ہیں تو دوسری طرف مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں جن پر دستور اور قانون کو نافذ کرنے کی آئینی ذمہ داری ہے، خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ۔ اس پر مستزاد جو سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو سیکولراور انصاف پسند کہتی ہیں، وہ بھی خاموش ہیں اور اس جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف انہیں جس طرح میدانِ عمل میں آنا چاہئے، نہیں آرہی ہیں، ان کو اس مسئلہ پر اپنا موقف واضح کرنا چاہئے ۔ ہمیں امید ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنا موقف واضح کریں گی۔ نیز ملک کے دستور اور سیکولر کردار کی حفاظت کے لئے ان کی طرف سے کوئی واضح اور ٹھوس آواز بلند ہوگی۔ اجلاس کا احساس ہے کہ عدالتیں بھی اقلیتوں اور مظلوموں کو مایوس کررہی ہیں۔ ان کے اس طرز عمل کی وجہ سے لاقانونیت کا راستہ اختیار کرنے والی فرقہ فرست طاقتوں کو حوصلہ مل رہا ہے۔ گیان واپی کا مسئلہ آج سے تیس سال قبل عدالت میں شروع ہوا تھا ۔ ہائی کورٹ کے اسٹے آرڈر کے باوجود اسے آرڈر کو نظر انداز کیا گیا۔ گیان واپی پر باربار سوٹ فائل کرنا اور پھر عدالتوں کے ذریعہ اس نوعیت کے احکامات جاری کرنا انتہائی مایوس کن اور تشویشناک ہیں ۔ بورڈ نے عبادت گاہوں کے متعلق 1991کے قانون اور بابری مسجد سے متعلق فیصلہ میں اس قانون کی مزید تائید کوسامنے رکھ کر غور کرنے اور موثر طور پر مقدمہ کو پیش کرنے کے لئے ایک قانونی کمیٹی بنائی ہے،جو جسٹس شاہ محمد قادری ، یوسف حاتم مچھالہ، ایم،آر شمشاد ، فضیل احمدایوبی ، طاہر ایم حکیم ، نیاز فاروقی ، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس اور جناب کمال فاروقی پر مشتمل ہے۔
یہ کمیٹی تفصیل سے مسجد سے متعلق تمام مقدمات کا جائزہ لے گی اور مناسب قانونی کارروائی کرے گی۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ ضرورت پڑنے پر پ ±ر امن عوامی تحریک بھی شروع کی جاسکتی ہے۔ اجلاس نے یہ بھی طے کیا کہ بورڈ انصاف پسند ہندو بھائیوں اور دیگر اقلیتی طبقات کو اعتماد میں لے کر مذہبی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کے احترام اور ان کے تحفظ کے سلسلے میں مشترکہ ذمہ داریوں پر رائے عامہ بیدار کرے گا۔ اجلاس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کے بارے میں وہ اپنا موقف واضح کرے، ایسے واقعات پر حکومت کی خاموشی ایک مجرمانہ فعل ہے، جو کسی بھی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اجلاس نے مساجد کے خطبا اور علما سے اپیل کی ہے کہ وہ آئندہ تین ہفتے جمعہ کے بیان میں مسجد کی اہمیت، شریعت میں اس کا مقام وتقدس اور مسجد کے تحفظ جیسے موضوعات پر خطاب کریں، نیز شرپسند عناصر کی طرف سے جو غلط دعوے کئے جارہے ہیں، ان کی علمی اور قانونی تردید پر خطاب کریں۔ اجلاس نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر کا دامن تھامے رہیں، ثابت قدمی سے کام لیں اور اشتعال سے بچتے ہوئے لوگوں کے سامنے اپنا موقف پیش کریں ۔