سچی باتیں (۲۰؍نومبر ۱۹۳۱ء)۔۔۔ خدا کی رضا مندی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

07:20AM Sun 9 Apr, 2023

ایک شریف اور باعزت خاندان میں دو بیویاں ہیں۔ ایک ، عام طور پر حسین مشہور ہیں، پاس کی بیٹھنے والی سہیلیاں ان کی جامہ زیبی کی تعریفیں کرتی رہتی ہیہں، اور یہ بناؤ سنگار بھی خوب کئے رہتی ہیں۔ لیکن شوہر کی مزاج شناس نہیں۔ اپنے شوہر کی نظر میں نہ کچھ محبوب ہیں، اور نہ شوہر کو ان کی طرف التفات وتوجہ ہے۔ دوسری بیوی اسی خاندان میں ایسی ہیں جو عام طور پر بدشکل سمجھی جاتی ہیں، اور سہیلیوں میں بھی زیادہ مقبول نہیں، لیکن شوہر کی مرضی کو خوب پہچان گئی ہیں۔ شوہر کی نگاہ میں محبوب ہیں، اور اُس کی توجہ والتفات کا مرکز……آپ ان دونوں بیویوں میں خو ش نصیب کسے قرار دیں گے، اور مبارکباد کامستحق کس کو سمجھیں گے؟ یقینا دوسری کو۔ بیوی کی اصلی عزت وقدر وہی ہے جو شوہر کی نظروں میں ہو۔ حُسن وجمال اگر مطلوب ہے، تو اسی لئے کہ شوہر کی نظر میں محبوب کردکھائے۔ جب یہی مدعا پورا نہ ہوا، تو سارا حسن وجمال رائیگان، بناؤ سنگار ضائع اور دنیا کی مدح وتعریف بیکار!۔

بندہ کا اصلی تعلق صرف حق تعالیٰ سے ہے۔ حقیقی خاوند وہی ہے ۔ کسی دنیوی خاوند کو تو اُس اقتدار واختیار کا ہزارواں حصہ بھی نہیں حاصل جواُسے ہے۔ پھر آپ اس پرکیوں خوش ہوجاتے ہیں، کہ فلاں اور فلاں آپ کی تعریفیں کیاکرتے ہیں، فلاں جلسے میں آپ کی بڑی ناموری ہوگئی، فلاں معاملہ میں آپ کی دھوم مچ گئی، فلاں فلاں اخبار نے آپ کی تعریف چھاپ دی؟ اس میں کون سی فخر کی بات ہے؟ ان چیزوں سے آپ کیوں اتنا خوش ہوئے جاتے ہیں؟ اصل معاملہ حق تعالیٰ کے ساتھ ہے ، مقدم اور اہم اُس کی رضامندی اور اس کی ناراضگی ہونی چاہئے، یا اپنے ہی جیسے کمزور اور بے بس انسانوں کی؟ اگر خوش نصیبی سے اللہ کی رضا حاصل ہے، تو ساری مخلوق کی عداوت وناخوشی کیا ضرر پہونچا سکتی ہے، اور اگر بدقسمتی سے اللہ کے دربار میں نامقبولیت ہے، تو ساری کائنات کی مدح وستائش ، تحسین وآفریں، مل کر بھی کس کا م آسکتی ہیں؟

مذہب نے پکارا اے اکبرؔ، اللہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

یاروں نے کہا یہ قول غلط، تنخواہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

’’کل‘‘ جب ایک ایک راز فاش ہوکر رہے گا ، جب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سب کے لئے الگ الگ ہوکر رہے گا ، جب ہر ہر متنفس اپنے اپنے عمل کے ہاتھ رہن ہوگا، اُس وقت کام آنے والی کون سی شے ہوگی۔ آیا وہ اعمال جو اللہ کی رضاجوئی کے لئے کئے گئے تھے، یا اس کے برعکس ، یہ چیزیں، کہ گورنمنٹ کے ہاں سے فلاں خطاب ملاتھا، لاٹ صاحب نے اپنی چٹھی میں یہ واقعات لکھے تھے۔ اخبارات نے اس اس طرح تعریفیں چھاپی تھیں، قوم نے جلسوں میں اس اس طرح داددی تھی؟……حیرت ہے ، اور حیرت ہے، کہ ایک شریف اور باعصمت بیوی نے تو اپنے شوہر کی خوشی اور خفگی کی اس درجہ پروا کرے، اور ہم ! بے کس اور بے بس بندے ہوکر اپنے حقیقی مالک ومولا کی رضا وعدم رضا سے اس قدر بے پروا ہوجائیں، اور دل کو زید، عمر، بکر، کی واہ واہ سے یوں بہلا لیاکریں!

۔((مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب ))