بات سے بات : مولانا عبید اختر رحمان کا مضمون ہم کیا کریں؟  ۔۔۔ عبد المتی منیری

02:26PM Sun 8 May, 2022

مولانا عبید اختر رحمانی صاحب نے ماہ رمضان المبارک میں  اپنا سلسلہ وار مضمون (  ہم کیا کریں؟)شروع کیا تھا، مختلف مصروفیات کی وجہ سے گزشتہ قسطوں کا بالاستیعاب مطالعہ نہ ہوسکا تھا، حالانکہ فرمائش پر مولانا نے ہمیں وہ سبھی قسطیں یکجا ارسال کی تھیں، اندازہ ہوا کہ اس بے توجہی میں صرف ہم تنہا نہیں تھے، بلکہ  اس میں گروپ کے دیگر ممبران بھی شریک ہیں، ویسے مضمون کا موضوع  توسب کی دلچسپی کا ہے، لیکن اس کے مواد کے سلسلے میں خیال گذرتا ہے کہ بہتوں کے سرپر سے گذرگیا ہوگا، کیونکہ جو مواد مولانا نے اس میں پیش کیا ہے وہ روایتی انداز کا نہیں ہے، آج جب ہم نے مضمون کی ساتویں قسط دیکھی تو احساس ہوا کہ اس سلسلہ وار مضمون کے ساتھ ناانصافی ہوگئی، اس کے شایان شان اس پر نقد وتبصرہ نہیں ہوا، حالانکہ مولانا نے اس کے لکھنے میں بڑی محنت صرف کی ہے، اور بیسیوں کتابوں کو کنگھال کر اس کا نچوڑ پیش کیا ہے۔

مولانا  نے جو باتیں اس مضمون میں پیش کی ہیں، اب میں سے بہت سی باتیں ہمارے لئے  نئی نہیں ہیں، پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے تاریخ تصوف میں ان میں سے بعض پر تفصیل سے بحث کی ہے، اس مضمون سے پہلے ہمارا خیال تھا کہ فلسفہ ویدانت کے موجد ادی شنکر اچاریہ عہد نبوی سے پہلے کے ہیں، اور یہ شرائع ماقبلنا کے زمرے میں آتا ہے،  عقیدہ وحدت الوجود جس کے بارے میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے لکھا ہے کہ۔:۔

((راقم الحروف کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کوئی خدا پرست ان منطقی اعتراضات سے بچنا چاہتا ہے جو مسئلہ ربط حادث بالقدیم کے سلسلے میں وارد ہوتے ہیں  تو اس کے لئے وحدۃ الوجود کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں  (  ۲۸)) اور وہ مزید لکھتے ہیں کہ  ((یہ مسلک ہے شری شنکر اچاریہ کا اور مسلمانوں میں حضرت اقدس امام العرفاء محی الدین ابن العربی المعروف بہ شیخ اکبر ؒ کا (۳۱)) بعد میں وہ یہ مسلک جلال الدین رومیؒ اور علامہ اقبال کی طرف منسوب کرتے ہیں۔  اگر وحدت الوجود کی یہ موشگافیاں ، ظہور اسلام کے بعد کسی کافرانہ اور مشرکانہ ماحول میں پروان چڑھ کر مسلم دانشوروں  اور فلسفیوں میں فروغ پاتی نے کا ثبوت پکا ہوجاتا ہے تو پھر ا س پر کیا حکم لگائیںـ؟ ہمارے بزرگ ہی اس کے بارے مں رہنمائی کریں تو بہتر ہے۔

قارئین سے گذارش ہے کہ پروفیسر چشتی کی ان عبارتوں کو پڑھ کر فورا رد عمل ظاہر  نہ کریں، بلکہ پروفیسر صاحب  نے اس کی تائید میں جو لکھا ہے اس کو اسی کتاب میں پڑھ کر کوئی فیصلہ کریں ٹھنڈے دل سے غیر جذبانی فیصلہ کریں،۔

انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج بھٹکل میں ہندی کے ایک پروفیسر تھے ڈاکٹر افضل علی صاحب ، چند سال قبل جلگاؤں جانا ہوا تو پیرانہ سالی کے آخری مراحل میں تھے، معلوم نہیں کہ وہ اب بھی بقید حیات ہیں یا اللہ کو پیارے ہوگئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اقبال کے شارح پروفیسر یوسف سلیم چشتی  مرحوم اپنی شروحات میں خود کو اقبال سے بڑا فلسفی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ در اصل یہ موضوع اس بزم کے موقر دانشور ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاوری صاحب اور محترم احمد جاوید صاحب کا ہے، اگر یہ حضرات اس سلسلے میں کچھ رہنمائی فرمائیں تو بڑی نوازش ہوگی۔

انجمن کالج  میں ایک  وسیع المطالعہ پروفیسر ہوا کرتے تھے رشید کوثر فاروقی مرحوم،  چوٹی کے اسلامی شاعر، اور خطیب، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے بھی  فیض اٹھایا تھا، وہ ہم سے کہا کرتے تھے کہ ہندو  فلسفہ دانوں سے ان کے عقائد کے بطلان پر مناظرہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، کسی موضوع سےپھسلنے کے ان کے پاس بہت سے راستے  ہوتے ہیں، وہ ہر  اچھی بات کے بارے میں  وہ جواب میں کہتے ہیں ، ہمارے مذہب میں یہ موجود ہے، ان کے عقیدہ ویدانت کی بحث کے آخر میں پروفیسر چشتی نے جو ماحصل بیان کیا ہے، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ دو اور دو چار کی طرح اسکے بطلان کی بات کی جائے تو ہماری کتنی ساری  مقدس شخصیات مجروح ہوجائیں گی،  جن کا دفاع ہمارے اکابر کرتے آرہے ہیں۔ آر یس یس کے سنجالک ہر وہ بات جو دوسروں پر تھوپی جانے کے زمرے میں آتی ہے، جس میں سوریا وندنا، گیتا کا پاٹھ، یوگا، وغیرہ شامل ہے ان کے بارے میں دھڑلے سے کہتے ہیں کہ یہ ہماری دینی باتیں نہیں ہیں بلکہ ہندوستان کی تہذیب وثقافت اور پرمپرا  کے زمرے میں آتی ہے،  اور دنیا اسے دوسری اقلیات پر بالجبر لازم کرنے والی چیزوں میں شامل نہیں کرتی۔

جب اس قسم کی گنجلک باتیں آتی ہیں تو ہماری کئی ایک محترم شخصیات جھانسے میں آجاتی ہیں، اور ان کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ ملاقاتوں کے بعد  وہ مرعوب اور متاثر ہوکر  لوٹی  ہیں، اگر ایسی  باتیں کسی محترم و معتبر  عالم دین کی زبانی آئیں تو پھر اس مشرکانہ مذہب و تہذیب کی یلغار کا مقابلہ  بہت دشوار ہو جاتا ہے، اور اب تو  ایسا لگنے لگا ہے کہ ہمارے اکابر نے مغربی سامراج ، تہذیب وثقافت کے خلاف نفرت ابھارنے  میں جو ساری توانیاں صرف کی تھیں ، اس کے بالمقابل ان کے جانشین اس سے کہیں  زیادہ شدید مشرکانہ  مذہب وثقافت کے سلسلہ میں نرم پڑ گئے ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ مغربی سامراج کے  غلبہ سے زیادہ بڑا سانحہ ہوگا۔

ہماری ناچیز رائے میں خاص طور پر برصغیر  کے خاص وعام کے دل ودماغ میں اسلامی عقیدہ کی تین بنیادوں (  ۱) توحید  (۲  ) رسالت  (  ۳) آخرت  کو پختہ طور پر پیوستہ کرنے کے لئے مرتب اور منظم انداز کی کوششیں جیسی ہونی چاہئے   وہسی نہیں ہوئی ہیں، ان  تینوں بنیادوں کے سلسلے میں مسلمان واضح عقیدہ نہیں رکھتے، کیونکہ انہیں عقیدے سے زیادہ واعظانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے،اور ان پر توجہ کو مرکوز کرکے مستقل موضوع بنا کر واضح کرنے کے بجائے ذیلی حیثیت سے بیان کیا جاتا ہے۔ وضو ونماز کے ارکان و فرائض جس طرح  ہمارے بچے ازبر کرتے ہیں  اس طرح عقیدے کے ان بنیادی عناصر کی تفصیلات سے ہمارے طلبہ کیا فارغین بھی  واقف نہیں ہوتے ، ایک ایسے وقت جب کہ  کفر وشرک کی یلغار  مسلمانوں کی جلائی ہوئی شمعوں کو  بجھانے پر تلی ہوئی ہے، ہم اپنے نونہالوں اور نوجوانوں  میں واضح طور پر اسلامی عقیدے کے ان تینوں اجزائے ترکیبی توحید ، رسالت اور آخرت  کا واضح تصور جا گزیں نہیں کریں گے، تو پھر وطن عزیز میں اسلام کے نا م لیواؤں کے مستقبل کو تاریکی سے بچانا بہت مشکل ہوگا۔ اللہ وہ دن کبھی نہ لائے۔

2022-05-08