The US government may shut down at midnight. Here's what to know
08:44PM Tue 30 Sep, 2025

واشنگٹن: دنیا کا سپرپاور کہلانے والے امریکہ میں ایک بار پھر ’گورنمنٹ شٹ ڈاؤن‘ کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ اگر کانگریس یعنی امریکی پارلیمنٹ وقت پر بجٹ پاس نہیں کرتی ہے تو آج نصف شب سے کئی اہم محکموں میں کام کاج ٹھپ ہوجائے گا، جس کا براہ راست اثر تقریباً 9 لاکھ سرکاری ملازمین پر پڑے گا۔ ایسی صورت میں ان سرکاری ملازمین کو جبراً چھٹی پر بھیج دیا جائے گا۔
بتا دیں کہ اس سے قبل 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت کار کے دوران 35 دن تک گورنمنٹ شٹ ڈاؤن ہوا تھا جو اب تک کا سب سے طویل شٹ ڈاؤن کہا جاتا ہے۔ اس وقت بھی لاکھوں سرکاری ملازمین متاثر ہوئے تھے۔ اس بار صورتحال اور بھی سنگین ہے، کیونکہ انتظامیہ پہلے سے ہی وفاقی اداروں کے عملے میں تخفیف کر چکا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں ہر سال نیا مالی سال یکم اکتوبر سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کانگریس کو 438 وفاقی ایجنسیوں کے لیے بجٹ پاس کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اکثر وقت پر سمجھوتہ نہیں ہو پاتا ہے۔ ایسے حالات میں یا تو عارضی بل پاس کر کے حکومت کے کام کاج چلائے جاتے ہیں یا پھر بجٹ کو حتمی شکل نہ دینے پر شٹ ڈاؤن نافذ ہو جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ امریکہ میں گزشتہ 50 سالوں سے شٹ ڈاؤن کا نفاذ عام بات ہو گئی ہے۔ موجودہ حالات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کانگریس میں ڈیموکریٹس کے درمیان رسہ کشی مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔ فریقین طبی دیکھ بھال اور سرکاری اخراجات پر متفق نہیں ہیں۔ اگر چند گھنٹوں کے دوران کوئی حل نہیں نکلا تو نہ صرف سرکاری خدمات ٹھپ ہو جائیں گی بلکہ امریکی معیشت بھی نمایاں طور پر متاثر ہوگی۔
خبروں کے مطابق تقریباً 900,000 ملازمین کو عارضی طور سے چھٹی پر بھیج دیا جائے گا۔ گزشتہ شٹ ڈاؤن میں ملازمین کو بعد میں تنخواہ دی گئی تھی لیکن اس بار ٹرمپ انتظامیہ نے سخت موقف اپناتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بہت سے ملازمین کو مستقل طور سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔ کانگریس کے پاس آج نصف شب تک کا وقت ہے۔ اگر اس وقت تک بجٹ پاس نہیں کیا گیا تو لاکھوں ملازمین گھر بیٹھنے پر مجبور ہوں گے جس کی وجہ سے ضروری خدمات میں بڑی رکاوٹ آئے گی۔