سچی باتیں (۲۷؍نومبر ۱۹۳۱ء) ۔۔۔ ہم اور وہ۔۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
09:25PM Fri 5 May, 2023
( (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب ) )
آپ اپنی پستی کی وجہ آج یہ بیان کرتے ہیں، کہ آپ مفلس ہیں۔ لیکن آپ کی مفلسی حضرات صحابہؓ سے بڑھی ہوئی ہے؟ اُن میں تو کتنے ایسے تھے، جو دونوں وقت خشک روٹی بھی نہیں کھاسکتے تھے، اور آپ تو ماشاء اللہ آج صاحبِ جائداد ہیں، زمینداریاں رکھتے ہیں، بینکوں میں حصہ دار رہیں، تجارتی کوٹھیاں چلاتے ہیں، بڑے بڑے عہدوں پر ملازم ہیں……پھر آپ اپنی تعلیمی پستی پر نوحہ کرنے لگتے ہیں، لیکن صحابہؓ کن یونیورسٹیوں کے سندیاب تھے؟ ابوبکرؓ وعمرؓ نے کن کالجوں کے لکچر سنے تھے؟ عثمانؓ وعلیؓ نے کن درسگاہوں سے ڈگریاں حاصل کی تھیں؟ کتنے اسکول ، ہائی اسکول، اور نائٹ اسکول اُن کے زمانہ میں کھُلے تھے؟……اب آپ کہتے ہیں کہ آپ کے ادبار کا اصلی راز آپ کی تعداد کی کمی ہے، اور ایک طرف اگر انگریز آپ کو پیسے ڈالتے ہیں، تو دوسری طرف ہندو۔ آپ کے اس ارشاد پر پھر وہی سوال پیداہوتاہے، کہ آپ کی تعداد کو حضرات صحابہؓ سے کیا نسبت ہے؟ آپ تو ما شا ء اللہ ۸کرور ہیں، وہ حضرات تو ۸ لاکھ بھی کبھی نہیں ہوئے، بلکہ سالہا سال تو ۸ ہزار ، اور اس سے قبل ۸ سو بھی نہ تھے!
غرض افلاس، تعلیم، تعداد، جو سابھی معیار رکھئے، آپ اپنے اِن بزرگوں، قابل صدرشک وہزار احترام بزرگوں سے گھٹے ہوئے نہیں، کہیں بڑھے ہوئے ہیں۔ اس پر بھی حال یہ ہے، کہ وہ حاکم تھے، آپ محکوم ہیں۔ وہ آزاد تھے ، آپ غلام ہیں۔ وہ بلند تھے ، آپ حقیر ہیں۔ وہ غالب تھے، آپ مغلوب ہیں۔ اُنھوں نے نجدویمن، حجاز وعراق، شام وفلسطین، مصروایران، کو فتح کرلیاتھا، آپ اپنے لکھنؤ اور دہلی، اپنے لاہور وملتان، اپنے کشمیروسندھ، اپنے بغداد وبصرہ کو بھی کھو بیٹھے! اُن کے نام کی دھاک بڑے بڑوں کے دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی، آپ کی پروا، چھوٹوں سے بھی چھوٹے نہیں کرتے! اُنھوں نے پایا اور کمایا، آپ نے کھویا اور گنوایا۔ وہ بڑھے، آپ گھٹے۔ وہ پھیلے آپ سمٹے……یہ سارا فرق کیوں؟ اگر فلاح وترقی، اقبال و کامرانی کا مدار، دولت، تعلیم، وتعداد پرہوتا، توآپ توان سے کہیں زیادہ دولتمند، کہیں زیادہ تعلیم یافتہ، اور کہیں بڑی تعداد میں ہیں!۔
فرق، ایک ، اور صِرف ایک ہے۔ اُن میں اطاعت تھی، اور آپ میں خودرائی ہے، جو عمل میں مترادف ہے کج رائی کے اطاعت ، اطاعت آپ بھی کرتے ہیں، لیکن اپنی ہوائے نفس کی، اور اس کا نام، آپ نے دجّالیوں کی اصطلاح سُن کر، آزادیِ خیال وحرّیتِ ضمیر رکھ لیاہے۔ وہاں اطاعت تھی، اللہ کی، اللہ کے رسول کی۔ نفس کی نہیں، نفس آفریں کی۔ آپ انگریز اورہندو کے سامنے نماز چُپکے پڑھتے بھی شرماتے ہیں، وہ مشرکوں اور مسیحیوں اور یہودیوں اور زرتشتیوں کے سامنے چلّا چلّا کر تکبیر کہتے تھے۔ آپ کانفرنسوں اور رزولیوشنوں میں مست ہیں، اُنھیں لطف آتاتھا رکوع وسجودمیں۔ آپ خودی کی منادی کرتے ہیں، وہ خدا کی تبلیغ کرتے تھے۔ آپ کے لطف کی چیزیں ڈنر اور پارٹیاں ہیں، اُن کا ذوق سحری اور افطار، کو ڈھونڈتاتھا۔آپ اپنی راتیں سینما اور تھیٹر میں گنواتے ہیں، اُن کی راتوں کے پچھلے پہر تہجد اور مناجات میں بسر ہوتے تھے۔ آپ چندوں کا اعلان جلسوں اور اخباروں میں کرتے ہیں، اور بس چلے، تو نقارہ پیٹ پیٹ کر کریں، وہ خیرات ا س طرح چُپ چپاتے دیتے تھے ، کہ اپنے ہاتھ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہوتی تھی۔ ……انسان وہ بھی تھے، انسان ہم بھی ہیں، مگراسی ایک فرق نے اُن میں اور ہم میں آسمان وزمین کا فرق پیداکردیاہے!۔