supreme court on madarsa board

07:20PM Tue 5 Nov, 2024

نئی دہلی/ لکھنؤ: سپریم کورٹ نے منگل کو اتر پردیش کے مدرسہ ایکٹ پر ایک اہم فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے یوپی مدرسہ ایکٹ کو تسلیم کیا، جسے الہ آباد ہائی کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کو برقرار رکھا اور کہا کہ اس سے سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔

عدالت عظمی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کو بھی مسترد کر دیا جس میں اس نے اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ کو ختم کر دیا تھا اور ریاست سے کہا تھا کہ وہ طلبہ کا دوسرے اسکولوں میں داخلہ کروائے ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت مدارس میں معیاری تعلیم کو ریگولیٹ کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے یہ فیصلہ دیا۔

مدرسہ ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور تبصرہ…
یو پی مدرسہ ایکٹ آئینی طور پر درست ہے۔

مدرسہ ایکٹ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ صحیح نہیں تھا۔

مدرسہ بورڈ ڈگری نہیں دے سکتا۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر غلطی کی کہ بنیادی ڈھانچہ یعنی سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی کرنے پر اتر پردیش مدرسہ ایکٹ کو ختم کرنا ہوگا ۔

اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ کی قانون سازی اسکیم مدارس میں دی جانے والی تعلیم کی سطح کو معیاری بنانے کے لیے ہے۔

مذہبی تعلیم کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

تعلیم وسیع البنیاد ہونی چاہیے۔

ضروری مضامین بھی پڑھائے جائیں۔

پورے قانون کو منسوخ کرنا درست نہیں ہے۔

اقلیتوں کے لیے کوئی علاحدہ سائلو نہیں۔

کئی سالوں کی ثقافت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

یوپی میں مدارس کا ڈیٹا
رجسٹرڈ مدارس: 13,329

مدرسہ کے اساتذہ: 33,689

غیر تدریسی عملہ: 13,239

یوپی بورڈ مدرسہ ایکٹ کیا ہے؟
مدرسہ کی تعلیم کو منظم کرنے کا قانون۔

ملائم حکومت نے 2004 میں قانون بنایا تھا۔

اس کا مقصد عربی، اردو اور فارسی کی تعلیم دینا۔

یو جی (کامل)، پی جی (فاضل) ڈگریاں دینے کا اختیار۔

ڈپلومہ سرٹیفکیٹ کورس کے اختیارات۔

منشی، مولوی (دسویں جماعت) کے امتحان کی ذمہ داری۔

عالم (12ویں) کے امتحان کی ذمہ داری۔

یوپی مدرسہ قانون کب نافذ ہوا؟
2004 میں ملائم حکومت نے یوپی مدرسہ ایکٹ نافذ کیا۔

قانون کے تحت مدرسہ بورڈ تشکیل دیا گیا ۔

قانون کا مقصد مدارس کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا تھا۔

مدارس اقلیتی بہبود کی وزارت کے تحت آگئے۔

بقیہ تمام تعلیمی ادارے وزارت تعلیم کے ماتحت رہے۔

22 مارچ کو ہائی کورٹ نے ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا۔

ہائی کورٹ نے ایکٹ کو سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی بتایا۔