حج کا سفر۔۔۔مسجد نبوی اور متبرک آثار(۱)۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری

03:44PM Tue 4 Jul, 2023

حج کا سفر۔۔۔مسجد نبوی اور متبرک آثار(۱)۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

اللہ کے گھر خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیمؑ نے اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ تعمیر کیا تھا جس کی مستند تاریخ سے ہم ناواقف ہیں۔ مسجد نبوی کو ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کے افضل ترین فرزند خاتم الانبیاء محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ۔ اپنے جاں نثاروں، انصار و مہاجرین کے ساتھ تعمیر کیا اور اس تعمیر کی جزئیات تک باوثوق ذرائع سے ہم تک پہونچی ہیں، اولین تعمیر کے بعد جتنے اضافے مسجد شریف میں ہوئے ان کی تفصیل بھی تاریخ نے ہمارے لئے محفوظ کرلی ہے حافظے اور تصور کی مددلے کہ آپ چاہیں تو مسجد نبوی کے اندر بیٹھے ہوئے اس کی تعمیر کی کیفیت کا پورا نقشہ ذہن میں تازہ کر سکتے ہیں ۔

 پہلی حاضری کے وقت تو تاب تصور ر ا ور قوت حافظہ جواب ہی دیئے رہتے ہیں بعد کی حاضریوں میں جب حال کا رشتہ ماضی سے جوڑنے کی کوشش کرنے لگے تو ایک دنیا آباد نظر آنے لگی۔تصویر کی نگاہوں نے دیکھا کہ جس مبارک مقام پر اس وقت ہمیں شرف حاضری نصیب ہے وہ ابھی مسجد نہیں صرف آراضی ہے جس پر کھجور کے درخت لگے ہوئے ہیں اور باغیچہ کی سی کیفیت پائی جاتی ہے اس باغیچے میں مربد بھی ہے جہاں کھجور سکھائے جاتے ہیں اور چھواروں کی شکل میں تبدیل کئے جاتے ہیں۔ اس آراضی اور اس باغیچے کے مالک دو یتیم یثربی بچے سہل اور سہیل ہیں جووراثتا اس کے مالک ہوئے ہیں ۔اور یہ شہر، جہاں یہ آراضی اور یہ باغیچہ واقع ہے ابھی یثرب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عربستان کی تاریخ اور جغرافیہ میں اس شہر کو کوئی خاص اہمیت بھی حاصل نہیں برعکس اس کے اس شہر کے مقابلے میں جس میں اللہ کا گھر خانہ کعبہ واقع ہے یثرب اور یثرب کے باشندے کم تر اور فردتر سمجھے جاتے ہیں ۔ اعزاز و احترام میں بھی شان دشوکت میں بھی سطوت و جبروت میں بھی ، انتظامات کی یہ چہل پہل سی کیسی نظر آرہی ہے ؟ کوئی خاص بات ضرور ہے جو یثرب کے باشندوں کی نگاہ میں اپنے اردگرد سے ہٹی، یثرب کی طرف آنے والی راہ کی طرف بے ساختہ اٹھ رہی ہیں، یقینا کسی آنے والے کا انتظار کیا جارہا ہے، کون ہے وہ آنے والا ؟ مکے کےخاندان ہاشمی کا ایک جوان جسے اس کے ہم وطن گھر سے بے گھر کر دینے پر تل گئے ہیں !

 جوان ہاشمی مہمان بن کر آرہا ہے ؟ نہیں مستقل قیام کی غرض سے تشریف لانے والا ہے ! خوب ! مستقل قیام ہو گا کہاں ؟ میاں خود اس کا گھر بار تو ہے نہیں، کسی کے یہاں ٹھہرنا ایک دن دو دن کا نہ سہی مہینہ پندرہ دن کا ہو سکتا ہے، وہ بھی اگر آنے والا تنہا ہو ۔ اہل وعیال کے ساتھ مستقل رہنے کے لئے آنے والے کو تو پہلے ہی کوئی گھرلے لینا چاہیئے سید ھے جہاں آکر اترے ! ابھی آمد نہیں ہوئی وعدہ آمد ہی ہے لیکن ذرا دیکھئے تو یثرب کا ایک ایک گھر کیسا بار ونق اور حسین نظر آرہا ہے ہے

 وعدہ کس نے کیا ہے آنے کا ؟

 حسن دیکھو غریب خانے کا !

خبریں گرم ہیں کہ قدوم میمنت لزوم سے شیرب سر فرانہ ہونے والا ہے معتبر اطلاع بھی آچکی ہے کہ مکہ سے مہمان بزرگ کا کوچ ہو چکا ہے ۔ راستہ اگر چہ متعین اور معروف ہے لیکن دشمنوں کے بڑے ارادوں نے اسے پر خطر بنا دیا ہے ظاہر ہے کہ مکہ سے یثرب تک کی مسافت ایک عام راہ رو کی طرح طے نہ فرمائی جائے گی، ہو سکتا ہے کہ حسب موقع و ضرورت راہ میں ان جگہوں پر بھی قیام ناگزیر ہو جائے جہاں منزل کرنے کا معمول عام قافلوں اور مسافروں کا نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ متعین شاہراہ سے ہٹ کر قطع مسافت فرمائی جائے۔ بہر حال جن حالات میں سفر کیا جارہا ہے۔ ان میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں تاریخ یا فلاں دن مکہ سے کوچ ہوا ہے اس لئے فلاں تاریخ اور فلاں دن درد مسعود ہوگا۔ یثرب کے باسی روزانہ صبح سویرے گھروں سے نکل کرحدود شہر کے با ہرجمع ہو جاتے اور راہ دیکھا کرتے ہیں جب دھوپ تیز ہو جاتی تو اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے کہ اس چل چلاتی دھوپ میں کسی آنے دالےے کے آجانے کا دستور ہی نہیں ہے۔ کئی دن سے انتظار مہمان میں یہی ہمہ شوق آمد اور ہمہ حرمان رفت کا

               سلسلہ جاری ہے ۔ اچانک ایک یہودی کی صدا نے کہ لو تمہارا مطلوب و مقصود تشریف لے آیا اہل یثرب کو چونکا دیا۔ یہ یہودی اپنے بلند قلعے سےیثرب کی طرف آنے والی شاہراہ کو دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر ناقہ سواروں پر پڑ گئی جو شیریب ہی کی طرف آر ہی تھے۔ آمد آمد کا غلغلہ کئی روز سے تھا ہی۔ اس نے اندازہ لگا لیا کہ آنے والے دہی ہیں جن کے انتظار میں یثرب کے باشندے بے چین ہیں اس نے قلعہ کی چوٹی سے جو پکارا تو تمام شہریوں تک مژدہ جانفرا پہنچ گیا۔ گھروں سے دوڑتے ہوئے اہل یثرب  نکلے اور حد دو شہر سے باہر ین خیر مقدم کے لئے پہنچ گئے۔ شہر سے دو میل پرقبا نامی ایک مقام پر استقبال کرنے والے آنکھیں بچھائے کھڑے ہیں کہ سواری اس طرح نمو دار ہوئی کہ حضور انور نا قہ مبارک پرتشریف فرما اور رفیق سفر حضرت ابو بکرؓ کا ایک چادر کے ذریعہ سورج کی آڑ ا اس طرح کئے ہوئے ہیں کہ دھوپ چہرہ انور پر نہ پڑسکے۔ یثرب کے لوگ حضرت ابو بکر کو پہنچانتے ہیں کہ تجارتی ضروریات کے تحت ان کی آمد درفت یہاں اکثر رہی ہے ۔ حضور رانور کو رہی یثربی پہچان سکے جو مکہ معظمہ جا کر عقبہ ادلی اور عقبہ ثانیہ میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کر چکے تھے جن کی مجموعی تعداد سو سے بھی کم تھی۔ یا پھر وہ مہاجرین جو آپ سے پہلے ہجرت کر کے یہاں آگئے ہیں۔ تعارف نہ ہونے کی وجہ سے اور چہرہ انور پر چادر کی آڑ ہونے کی وجہ سے بھی بہتوں کو پہچاننے میں ضرور مغالطہ ہوا،

               قبا میں چار روز قیام فرما کر حضور انور خاص یثرب میں نزول اجلال فرمانے کے قصد سے روانہ ہوئے تو یثرب میں شادمانی کی ایک لہر ہر طرف دوڑ گئی ، گلی کوچہ چمک اٹھا قلوب اہل یثرب کھل پڑے شہر کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا۔ سواری حدود شہر میں داخل ہو رہی ہے، اہل یثرب کی وہ بچیاں جن کے یہاں عفت دپاکیزگی کا یہ اہتمام کہ گھر کے باہر تو کیا کبھی چھت کے اوپر بھی نہیں آئی تھیں آج کھلی چھتوں پر اور کوچوں کے نکڑوں پر کھڑی ہیں۔ ادھر جمال جہاں آرا پر نظر بڑی ادھر ان بچوں نے : پشیوائی کا گیت گانا شروع کر دی

طلع البدر علينا

 من ثنيات الوداع

 وجب الشكر علينا

ما دعا لله داع

(ماہ تمام نے الوداع کہنے والی گھاٹیوں سے ہم پر طلوع فرمایا ہمارے اوپر شکر اور اس وقت تک شکر دا جب ہو گیا جب تک کرہ ارض پر اللہ کو ایک بھی پکارنے والا موجود ہے) حضور کی سواری بستی کے اندر سے گزر رہی ہے جس مکان کے قرب سے نا نہ گزارتا اس کا مکین  دست بستہ التجا کرتا کہ ہے

رواق منظر چشم من آشیانه تست

 کرم نماد فرد و آ که خانه خانه است

جواب میں دعائے خیر دینے کے ساتھ فرما دیا جاتا کہ اونٹنی کو روکو نہیں ، دہ اللہ کی طرف سے مامور ہے جہاں حکم خداوندی ہے وہیں قیام کرے گی۔ اونٹنی کی مہارہ ڈھیلی کر دی گئی ہے وہ گزرتی چلی جاتی ہے اور خلاف معمول داہنے

               پائیں دیکھتی بھی جاتی ہے وہ دیکھئےبنی نجار یثرب کے ایک خاندان کے مکانات کے پاس اونٹنی پہو نچ  کر ایک آراضی پر بیٹھ گئی ہے یہ آراضی تو سہل اور سہیل دویتیم بچوں کی ہے جس پر کھجور کے درخت لگے ہیں۔ لیجئے اونٹنی اٹھی ارے ! قریب ہی ابو ایوب انصاری کے دروازے پر پھر بیٹھ گئی پھر وہاں سے اٹھی ارے، اور اپنی پہلی بیٹھک پر آ کر اس طرح بیٹھی کہ گردن بھی ڈال رہی ہے یہ اشارہ ہے کہ بس اب آگے جانے کا حکم نہیں ۔ ابو ایوب انصاری کے دروازے پراورنٹنی بیٹھی ہے ان کے گھرانے کی لڑکیاں نکل پڑی ہیں اور دف پر گانے لگی ہیں :

نحن جوار من بني النجار

 يا حبذا محمد من جار

(ہم بنی نجار کی لڑکیاں ہیں،زہے نصیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا پڑوسی ہمارے نصیب میں آگیا) انتہائے کرم اور وفور شفقت کے ساتھ حضور بنی نجار کی ان لڑکیوں کو مخاطب کر کے دریافت فرما ر ہے ہیں تمھیں مجھ سے بڑی محبت ہے ؟ " سب ایک زبان ہو کر عرض کرتی ہیں ۔ جی ہاں اے اللہ کے رسول !! لڑکیوں کو اس کے معاوضے میں کیا سرفرازی ملی؟ فرمایا واللہ یعلم ان قلبی یحبکم۔خدا جانتا ہے کہ میرا دل تم سے محبت کرتا ہے) یثرب کے لڑکے اور نوکر چاکر مدینہ کی گلیوں میں مارے خوشی کے چیختے پھر رہے ہیں۔ آ گئے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آگئے محمد صلی الہ علیہ وآلہ وسلم حضرت والا نے خاندان بنی نجار کے ایک فرد ابو ایوب انصاریؓ کے غریب خانے کو اپنے قیام سے سرفراز فرمایا گو یا غیروں میں نہیں رشتہ داروں میں قیام پذیر ہوئے ہیں بنی نجار آپ کے جد امجد حضرت عبدالمطلب کے نا نهالی رشتہ دار ہیں۔

اچھا ! بنی نجار کے فردا بو ایوب انصاری کو یہ شرف بھی حاصل ہو کہ وہ سرکار کے رشتہ دار ہیں !! خیر! یہ شرف تو خاندان بنی نجار کے دوسرے افراد کو بھی نصیب ہے بہاں ابو ایوبؓ کے اس شرف میں ان کا کوئی مقابل نہیں جو سات مہینے تک سرکار کے ان کے گھر میں قیام فرمانے اور اتنے عرصے تک ابو ایوب کے گھر والوں کو آپ کی نعلین مبارک سیدھی کرنے کی نعمت غیر مترقبہ کی شکل نصیب ہوا جس آراضی پر پہلے پہل ناقہ بیٹھا تھا اور جہاں اس وقت مسجد نبوی ہے اس آراضی کو حضور انور نے خریدنے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور دونوں یتیم بچوں کا عندیہ لینے کے لئے یاد فرمایا ہے ، بچے آپ سے لین دین والا معاملہ کرنا منظور نہیں کر رہے ہیں اور ہدیہ پیش کرنے کی آرزو ظاہر کر رہے ہیں۔ آپ معاوضہ دیئے بغیر لینے پر راضی نہیں ہیں بالآخر حضور کے منشا و خواہش کے موافق آراضی کا معاملہ طے ہو رہا ہے ۔ اب یثرب کا شرف یہ ہو گیا کہ کوئی اسے یثرب نہیں کہتا ہے آپ کی نسبت سے مدینۃ الرسول (نبی کا شہر) کہتا ہے ۔ مدینتہ الرسول مدینہ الرسول زبانوں پر چڑھ گیا ہے اور عام بول چال میں صرف مدینہ کہا جانے لگا۔ اور یثرب والے انصار پکارے جاتے ہیں ۔

               حصول آراضی کے بعد مسجد کی تعمیر ہو ر ہی ہے ۔ اس طرح کہ حضورا نور صلی اللہ علیہ وسلم نفس نفیس اپنے اصحاب کے ساتھ اینٹ اور گارا اٹھا کر لارہے ہیں اور اپنے ہی ہاتھوں سے تعمیر فرمارہے ہیں اس کار خیر کے وقت زبان فیض ترجمان سے یہ صدا سنائی دے رہی ہے اللهم لاخير الاخير الآخرة فارحم لانصار والمهاجرة – (اے پروردگار ! آخرت کی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی بھلائی کھلانے کی مستحق نہیں اے اللہ ! انصاریوں پر اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما)

 کچی اینٹوں کی دیواریں ، کھجور کے تنوں کے ستون اور کھجور کے درختوں کے تنوں کی چھت ۔ یہ ہے مسجد نبوی جسے آخری نبی اور اصحاب نبیؓ نے بنا کر کھڑا کر دیا ہے۔ کتنی اونچی ہے یہ مسجد ؟ صرف سات گز ،کتنی  بڑی ؟ قبلہ (جنوب) سے شمال تک پچاس گز اور مشرق سے مغرب تک ۳ گز۔ ہجرت کے ساتوں سال مسجد نبوی میں کچھ توسیع ہوئی ہے۔ حضرت عثمانؓ نے آس پاس کے کچھ مکانات خرید کر کے نذر گزارتے ہیں اور مسجد کا طول و عرض سو سو گز کر دیا جاتا ہے۔

یہی اصل مسجد نبوی ہے اور اسی اصل مسجد سے متصل مشرق جانب دو حجرے بھی تعمیر ہوئے دونوں بی بیوں حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہ کے رہنے کے لئے اس وقت تک یہی دو بیویاں حضور کے نکاح میں تھیں اس کے بعد ازواج مطہرات کی تعداد کے مطابق حجرے بنتے گئے ۔ حارثہ بن نعمان انصاریؓ نے جن کے کئی مکان مسجد شریف کے قریب تھے آنحضرت کی ضروریات کے لئے یکے بعد دیگرے سب مکانات

 نذرکر دئے۔ حضرت بی بی عائشہ کے حجرے سے متصل حضرت بی بی فاطمہ کا حجرہ ہے جب بھی حضور انور سفر سے واپس تشریف لاتے پہلے مسجد شریف میں دو رکعت نماز پڑھتے اس کے بعد حضرت بی بی فاطمہؓ کے پاس تشریف لے جاتے ان کی اور بچوں کی خیر و عافیت دریافت فرماتے۔

حضرت عمر ؓکے عہد میں مسجد نبوی میں مختصر سا اضافہ جانب قبلہ اور سمت مغرب میں ہوا پھر حضرت عثمانؓ نے اپنے عہد میں مسجد کی چھت اور صحن کو پختہ کرا دیا اور قبہ میں کچھ اضافہ بھی کیا مگر جس طرف ازواج مطہراتؓ کے حجرے تھے اس طرف کوئی اضافہ نہیں کیا گیا . پھر عبد الملک بن مروان کے زمانے میں جب حضرت عمر بن عبد العزیزؒ مدینہ شریف کے گورنر تھے مسجد نبوی میں کافی توسیع ہوئی قرب و جوار کے مکانات اور ازواج مطہرات کے حجرے خرید کر مسجد میں شامل کر دے گئے۔

سلاطین ترک کے زمانے میں مسجد نبوی کی تعمیر از سر نو ہوئی اور اس میں بہت وسعت ہوگئی یہ سب توسیعیں مغرب اور شمال کی سمت ہوئیں جنوب کی طرف (جو مسجد نبوی کے لئے سمت قبلہ ہے اور مشرق کی طرف (جس سمت روضہ اطہر ہے) برائے نام توسیعیں ہوئیں ۔

 آخری توسیع بھی سات آٹھ سال قبل معزول شاہ سعود کے اہتمام میں ہوئی اور یہ اضافہ شدہ حصہ اس قدر سبک اور اس قدر متناسب ہے کہ خوبی و رعنائی میں تاج محل کا تاثر پیدا کر دیتا ہے ۔خلفاء وسلاطین نے سنگ مرمر اور دوسرے قیمتی پتھروں سے مسجد نبوی کو تعمیر کرایا

اور آرایش و زینت کے پہلو سے سونے کا کام اس کے ستونوں اور چھتوں میں کرایا۔ خدا جزائے خیر دے سلاطین ترک کو کہ انھوں نے ہر عہد کی مسجد نبوی  کی حدوں کو نقش و نگار کے فرق سے واضح کر کے تاریخ اسلام پر گراں بہا احسان کیا ہے۔

 پہلے مسجد نبوی کتنی بلند اور کتنی ہی چوڑی تھی اس کی وضاحت ستونوں کی نوعیت سے کی گئی ہے پھر کتنی وسیع عہد اموی میں ہوئی اور کس حد تک توسیع سلاطین ترک کے زمانے میں ہوئی یہ پتھروں کی تبدیلی اور نقش و نگار کے رد وبدل سے بخوبی واضح کر دی گئی ہے ۔ اصل مسجد نبویﷺ جسے حضور انور اور آپ کے اصحاب نے اپنے مبارک ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا اگر چہ موجودہ عمارت مسجد کے دیکھتے بہت مختصر ہے لیکن اسی مختصر حصے میں ، روضہ جنت بھی ہے محراب النبیﷺ بھی ہے حضور کے اعتکاف کرنے کی جگہ بھی ہے استن خانہ کا مدفن بھی اور ستون ابولبا بہ بھی جسے ستون تو بہ بھی کہتے ہیں۔ اور پھر اس اصل مسجد نبوی سےملی ہوئی خاص آرام گاہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم بھی ہے۔

يا خير من دفنت في القاع اعظمہ

فطاب من طيبھن القاع والاكه

نفسي الفداء لقبر انت ساکنہ

فيه العفاف وفيه الجود او الكرم

 (اے وہ افضل ترین ذات جس کے اجزائے جسم سپر زمین میں کیے گئے اور ان اجزائے جسم کی پاکیزگی کی بدولت زمین کا نشیب و فراز سب پاکیزہ ہوگیا ۔ میری جان اس قبر پر قربان جس میں آپ قیام فرما ہیں۔ اس قبر میں مجسم پاک دامنی، سرتا پا فیاضی اور سراپا شرافت آرام فرما ہے) یہ چار مصرعے ایک اعرابی نے مزار مبارک کے رو بر درد رہ کر پڑھے تھے ہمارے آپ کے سامنے نہیں بارہ سو برس پہلے ان کے سامنے جو کہیں  زیادہ دین کے واقف کار  اور رموز شریعیت کے شناسا تھے ۔مختصر مسجد نبوی سے متصل ازواج مطہرات کے حجرے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب دنیا سے پردہ فرمایا تو آپ بی بی عائشہ کے حجرے میں تھے اسی حجرے میں حضورؐ کی تدفین بھی عمل میں آئی ۔ قبر شریف بن جانے کے بعد بھی حضرت بی بی عائشہ " کا قیام اسی حجرے میں رہا حضرت بی بی عائشہؓ کے قیام کی وجہ سے قبر شریف تک رسائی بغیر اجازت حاصل کئے نہیں ہو سکتی تھی یہ جو حدیثیوں میں ملتا ہے کہ مشتاقان زیارت حضرت بی بی عائشہؓ سے التجا کرتے تھے کہ اے ہماری ماں اندر حضور انور کی قبر مبارک ہمارے لئے کھول دیجئے، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اجازت دے دیجئے کہ ہم حجرے کے اندر آسکیں یہ بھی روایتوں میں ملا ہے کہ بی بی عائشہؓ نے بیچ میں پردہ ڈال کر حجرے کے دوراستے کر لئے تھے ایک میں ان کا قیام رہتا تھا دوسرے میں مزار انور تھا اس وضاحت کے ساتھ زیارت کے لئے مزار شریف کے کھول دینے کی صورت اور صاف ہوجاتی ہے ؟ اس کے بعد حضرت ابو بکرؓاور حضرت عمرؓ یکے بعد دیگرے اس حجرے میں باجازت حضرت بی بی عائشہؓ دفن ہوئے اور اب بھی اندرون حجرہ حاضری بلا اجازت نہیں ہو سکتی تھی حصول اجازت کے بعد اندرون حجرہ مبارک پہونچنے میں کوئی روک نہ تھی یہ صورت حال کم و بیش ستر سال قائم رہی روایتوں میں ملتا ہے کہ حضرت معا ویہؓ کے عہد حکومت میں جب مردان بن الحکم مدینہ شریف کا گورنر تھا۔ تو اس نے ایک صاحب کو اپنا چہرہ قبر شریف سے ملتے دیکھا اور پہچان نہ پایا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ اس نے بے ادراکی کے ساتھ ان کی گدی  پکڑ کر کہا تجھے پتہ بھی ہے کہ تو کیا کرہا ہے ۔ ان صاحب نے بڑی بے نیازی کے ساتھ مروان کی طرف منہ کر کے جواب دیا ہاں جانتا ہوں کہ کیا کر رہا ہوں، یہ مت سمجھ کہ میں مٹی اور پتھر کے ڈھیر کے پاس آیا ہوں پتھر اور مٹی کے ڈھیر کے پاس نہیں میں حضرت رسول خدا صلی الہ علیہ آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ہوں : مروان کی بے ادراکی پر اس کو تنبیہ بھی کرتا ضروری امر تھا۔ اس لئے کہ اپنا چہرہ قبر شریف پر رکھنے والے صاحب صحابی رسول تھے اور بعض روایتوں کے مطابق میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ تھے ۔(جاری)

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/