کیرالہ ہائی کورٹ میں ختنہ پر پابندی لگا کر اسے جرم قرار دینے کی درخواست

12:23PM Mon 13 Feb, 2023

کوچی: 13 فروری، 2023 (ایجنسی)  اپنے مذہب کو چھوڑنے والے لوگوں کے ایک گروپ نے کیرالہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ نوعمر مسلم بچوں کے ختنہ کی روایت میں فوری مداخلت کرے۔ مسلمان لڑکوں میں ایک سال کی عمر سے پانچ سال تک ختنہ کیا جاتا ہے۔ درخواست میں اس عمل کو بچوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ درخواست میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے منظور کیے گئے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے میں کہا گیا ہے کہ، " سبھی فریق بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ روایتی طریقوں کو ختم کرنے کے لیے تمام موثر اور مناسب اقدامات کریں گے۔ تمام فریق اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کسی بچے کو اس کی رازداری، خاندانی گھر یا خط و کتابت میں من مانی یا غیر قانونی مداخلت کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی اس کی ساکھ پر غیر قانونی حملہ کیا جائے۔" اس کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست میں کہا گیا کہ ہندوستان ایک رکن اور دستخط کنندہ ہے اور ختنہ کا طریقہ کار اس میں کہی گئی باتوں کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ بچوں کو ختنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور یہ ان کا اختیار نہیں ہے اور یہ بین الاقوامی معاہدوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں اس عمل کو "ظالمانہ، غیر انسانی اور وحشیانہ" قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے چند شیر خوار بچوں کی موت ہوئی ہے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ غیر علاج شدہ ختنہ کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے اور اس کے خلاف ممانعت کا قانون بنایا جائے۔دعویٰ کیا کیا کہ مئی 2018 میں کیرالہ کے وڈانپلی میں ایک بچے کی ختنہ کے بعد موت ہوگئی تھی۔ درخواست میں متعدد وجوہات بھی دی گئیں کہ اس طریقہ کار پر پابندی کیوں لگائی جائے۔ کہا گیا ہے کہ بچوں کے لیے یہ بچپن کا صدمہ ہوگا اور حیاتیاتی طور پر بھی یہ بچے کی مستقبل کی نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ غیر علاج شدہ ختنہ بچے کی جسمانی، جذباتی اور علمی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔