نئی دہلی میں منعقد SDPIکی قومی ورکنگ کمیٹی اجلاس میں 10اہم قرارد اد منظور
02:10PM Wed 3 May, 2017

تلنگانہ کے طرز پر ملک کے تمام ریاستوں میں مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جائے ۔ ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ
نئی دہلی (بھٹکلیس نیوز)۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کی قومی ورکنگ کمیٹی اجلاس نئی دہلی میں ایس ڈی پی آئی قومی صدر اے سعید کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔ ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر پروفیسر نازنین بیگم نے افتتاحی کلمات پیش کئے ۔ پارٹی قومی جنرل سکریٹری الیاس محمد تمبے نے استقبالیہ تقریر کی۔ایس ڈی پی آئی ورکنگ کمیٹی اراکین قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد،قومی جنرل سکریٹری محمد شفیع، قومی سکریٹری محترمہ یاسمین فاروقی، کیرلا ریاستی صدر عبد المجید فیضی،تمل ناڈو ریاستی صدر تہلا ن باقوی،کرناٹک ریاستی صد ر عبدالحنان،مغربی بنگال ریاستی صدر تائید الاسلام، راجستھان ریاستی صدر محمد رضوان،آندھرا پردیش ریاستی صدر حبیب اللہ، مدھیہ پردیش ریاستی صدر اڈوکیٹ ساجد صدیقی، اتر پردیش ریاستی صدر محمد کامل، افسر پاشاہ، پروفیسر پی ۔ کویا، اڈوکیٹ کے ۔ پی ۔ محمد شریف، ڈاکٹر محبوب شریف عواد،عمر خان، عبد اللطیف،عبدا لمجید ،نظام محی الدین، محمد مبارک، ایم ۔کے ۔منوج کمارعبدالستار، عبدالحمید شریک رہے۔ قومی ورکنگ کمیٹی اجلاس میں ملک کے حالات حاضرہ کے تعلق سے جائزہ لینے اور چرچا کرنے کے بعد مندرجہ ذیل اہم قرارد اد منظور کئے گئے۔ 1)۔ تلنگانہ کے طرز پر ملک کے تمام ریاستوں میں مسلمانوں کو ریزرویشن:-ایس ڈی پی آئی قومی ورکنگ کمیٹی اجلاس میں منظو ر سر فہرست قراردادمیں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ریاست تلنگانہ کے طرز پر ملک کے تمام ریاستوں میں مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جائے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے مقرر کی گئی سچر کمیٹی نے اپنے رپورٹس میں واضح طور پر کہا ہے کہ تعلیمی اور سماجی طورپرمسلمان SC طبقات سے بھی پچھڑے ہیں۔ حکومت ہند نے اس معاملہ میں ہمیشہ کوتاہی برتی ہے لیکن ریاست تلنگانہ اس معاملہ میں حکومت ہند کو راستہ دکھا یا ہے۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں تمام قانونی رکاوٹوں کو دور کرکے تلنگانہ حکومت کے طرز پر ایک مساوی پالیسی بنا کر پسماندہ ترین طبقات کو سماجی، اقتصادی اور تعلیمی شعبوں میں ریزرویشن فراہم کرنا چاہئے۔ دلت ریزرویشن کے حوالے سے مسلمانوں اور عیسائیوں سے جو نا انصافی کی گئی ہے اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ملک میں سماجی انصاف قائم کرنے کے لیے جسٹس رنگاناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات پر صد فیصد عمل در آمد کیا جانا چاہئے ۔2)۔کسانوں کے مسائل کا حل -: ایس ڈی پی آئی نے اپنے دوسرے اہم قرارد اد میں اس بات کی طر ف خصوصی نشاندہی کیا ہے کہ قومی پالیسی میں کسانوں کے مسائل کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے، لہذا ایس ڈی پی آئی نے قرار داد میں مطالبہ کیا ہے کہ کسانوں کے مسائل خاص طور پر ان کے قرضہ جات کے مسائل کے تعلق سے مناسب حل نکالا جانا چاہئے۔ ایس ڈی پی آئی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی حکومت نے نئی دہلی میں تمل ناڈو کے کسان جو ایک ماہ سے زائد دنوں تک احتجاجات کرتے رہے تھے ان کی طرف مناسب توجہ نہیں دیا تھا۔ کسانوں کو درپیش مالی مشکلات کی وجہ سے پورے ملک میں کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ اس معاملہ میں مرکزی حکومت کو فعال ہونا چاہئے اور کسانوں کو مناسب فنڈز جاری کرکے ان کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانا چاہئے۔ نیز ایس ڈی پی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ کوآپریٹیو اور قومی بینکوں میں کسانوں کی تمام قرضہ جات مکمل طور پر معاف کیا جانا چاہئے۔ 3)۔ بابری مسجد مقدمہ : -ایس ڈی پی آئی کاماننا ہے کہ بابری مسجد ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے جو بھارت کی جمہوریت اور سیکولرازم پر ایک بدنما داغ ہے۔جب تک اس مسئلہ کا منصفانہ حل نہیں ہو گا ملک میں امن و امان اور ہم آہنگی کی فضا قائم نہیں ہوسکتی ہے۔ ایس ڈی پی آئی مطالبہ کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد فوجداری مقدمات کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کرنے کے اقدامات اٹھائی جانی چاہئے۔ ایس ڈی پی آئی کا ٹھوس موقف ہے کہ سپریم کورٹ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے بابری مسجد مقدمہ میں فوری کارروائی کرتے ہوئے اپنا حتمی فیصلہ سنائے۔نیز ایس ڈی پی آئی تمام سیاسی پارٹیوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ بابری مسجد کو اس کے اصلی مقام میں تعمیر کرنے کا مشترکہ و متفقہ مطالبہ کریں۔ 4)۔ میلا د النبی کی تعطیل : -اتر پردیش حکومت سے ایس ڈی پی آئی مطالبہ کرتی ہے کہ یوگی حکومت کے ذریعے میلا دالنبی کی تعطیل کومنسوخ کیا گیا ہے اس کو بحال کیا جائے کیونکہ یہ تعطیل نہ صرف ایک عظیم شخصیت کی سالگرہ ہے بلکہ یہ تقریب مسلمانوں کے مذہبی عقیدے سے تعلق رکھتا ہے ۔ یوگی حکومت نے کرشنا جنم اشٹمی اور رام نومی کی تعطیلات کوبر قرار رکھ کر میلا د النبی کی تعطیل کو منسوخ کرکے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ 5)۔انتشار : -ایس ڈی پی آئی ملک کے تمام ریاستیں جہاں بی جے پی بر سر اقتدار ہے ان ریاستوں میں مجموعی انتشار کی مذمت کرتی ہے ۔ معصوم افراد، عورتوں، تاجروں، اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور بالخصوص مسلمان اور دلتوں پر کھلے عام اور پولیس کی موجودگی میں حملہ ہورہے ہیں جس کا ایس ڈی پی آئی شدید مذمت کرتی ہے۔ اتر پردیش حکومت قائم ہونے کے بعد سے پولیس اہلکاروں اور سرکاری ملازمین کو غنڈوں کی طرف سے حکومت میں بیٹھے عہدیداران کی حمایت سے ہراساں کیا جارہا ہے۔ آگرہ اور سہارنپور میں ہوئے حملوں کے سلسلے میں مرکزی وزراء کی طرف سے جو دباؤپیداکیا گیا تھا وہ انتہائی قابل مذمت ہے اور کابینہ کے وزیر کے ساتھ گؤ رکشک کی شناخت بھی قانون کی حکمرانی پر کالا دھبہ ہے۔ 6)شہریت ترمیم بل : -ایس ڈی پی آئی مرکزی حکومت کے اس موقف پر انتہائی اعتراض کرتی ہے جس میں مذہب کی بنیاد پر صرف ہندوؤں، سکھوں، جین، بدھشٹ،پارسیوں کو افغانستان، پاکستان ، بھوٹان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والوں کو شہریت دینے کی اقدام کررہی ہے اور مسلمانوں کو مذہبی بنیاد پر کو اس سے مستشنی رکھ رہی ہے جو مکمل طور پر نسل پرستانہ ،متعصب اور ہندوستانی آئین کی اقدار کے خلاف ہے۔ 7)۔ صدارتی امیدوار : - ایس ڈی پی آئی فرقہ وارانہ عناصر کی مخالفت کرنے والے ان تمام سیکولر پارٹیوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ایک متحدہ طور پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر ملک کے لیے خطرہ بنے فسطائی طاقتوں کے خلاف لڑیں۔ 8)ا ووٹنگ مشین : - ایس ڈی پی آئی کا ماننا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM)نظام سے منصفانہ اور غیر جانبدارنہ انتخابات کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے ہدایات کے باوجود تمام اسمبلی حلقوں میں VVPTAکی تنصیب میں ناکامی انتہائی بدقسمتی کی بات ہے۔ ایس ڈی پی آئی کا مطالبہ ہے کہ EVM مشین کے تعلق سے عوام میں بڑھتی ہوئی عدم اعتماد کے پیش نظر بیلٹ پیپر ( Ballot Paper)کے نظام کو بحال کیا جائے تاکہ انتخابی نظام پر عوام کو بھروسہ پیدا ہوسکے ۔ 9) Enemy Property Billمنسوخ کیا جائے:-بدقسمتی کی بات ہے کہ بی جے پی حکومت نے Money Billکے ذریعے Enemy Property Billمنظور کیا ہے جو ایک جمہوری نظام میں ناانصافی کے مترادف ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کو ہجرت کرنے والے مہاجرین کی نسل ہندوستان میں ہی میں پیدا ہوکر یہیں کے شہریوں کے طور پر بستے آرہے ہیں۔ نفرت کی بنیاد پر ان کی جائیداد کو ضبط کرنا اپنے ہی ملک کے شہری کے ساتھ بنیادی حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔SDPIمذکورہ بل کی مذمت کرتے ہوئے تمام سیکولر پارٹیوں سے اپیل کرتی ہے کہ اس کالے قانون کو منسوخ کرنے کے لیے آواز بلند کریں۔ 10 )۔ کشمیر تنازعہ : -انسانی حقوق کی خلاف ورزی، فوج کا بے جا استعمال اورحکومت کے نفرت انگیزکی وجہ سے عام آدمی ک پریشانیوں اور مشکلات سے گذر رہا ہے۔ یہ سلسلسہ کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ کشمیریوں سے مذاکرات کرنے کی بجائے امن قائم کرنے کے لیے حکومت فوج کا استعمال کرناغیر ضروری اور غیر مناسب ہے۔ ایس ڈی پی آئی مطالبہ کرتی ہے کہ کشمیر میں امن قائم کرنے، حالات کو معمول پر لانے کے لیے ان کے ساتھ مذاکرات ہوں تاکہ وادی میں ترقی ہوسکے اور انسان حقوق اور انسانوں کی پامالی نہ ہو سکے۔