Riyadh Season 'Kaaba' dance performance draws outrage
06:52PM Mon 18 Nov, 2024

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ ریاض سیزن فیسٹیول کی افتتاحی تقریب اس وقت ایک بڑے تنازع کا شکار ہے۔ اس تنازع کی وجہ اسٹیج پر نصب اسکرین تھی۔ اس پروگرام کی جو ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں ان میں مبینہ طور پر اسٹیج پر موجود اسکرین کی شکل خانہ کعبہ جیسی نظر آتی ہے۔ اس کے اردگرد فنکاروں کے رقص اور موسیقی کو اسلامی مقدس مقامات کی بے حرمتی کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ واقعہ ایک ایسے ملک میں پیش آیا ہے جو اسلامی تاریخ اور مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے معروف ہے۔
کیسے ہوا تنازع کا آغاز؟
تقریب کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں دکھایا گیا کہ اسٹیج پر موجود اسکرین خانہ کعبہ جیسی نظر آتی ہے۔ اس پر مزید تنازع تب ہوا جب اس اسٹیج پر فنکار رقص کرتے ہوئے نظر آئے اور موسیقی کی دھنوں پر پرفارم کر رہے تھے۔ کئی افراد نے اس منظر کو خانہ کعبہ کے طواف کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اسے مقدس مقام کی توہین قرار دیا۔
اسلامی نقطہ نظر سے تنازع؟
اسلامی تعلیمات کے مطابق خانہ کعبہ نہ صرف مسلمانوں کا قبلہ ہے بلکہ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک خاص تقدس رکھتا ہے۔ خانہ کعبہ کے گرد طواف ایک مذہبی فریضہ ہے جو صرف اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے۔ ایسے میں کسی تفریحی پروگرام میں خانہ کعبہ سے مشابہت رکھنے والے ماڈل کا استعمال اور اس کے اردگرد رقص کو نہ صرف اسلامی شعائر کی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے بلکہ یہ لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
سوشل میڈیا پر غم و غصہ کی لہر
دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ایک صارف نے لکھا:
“سعودی حکومت نے ایسا کر کے اسلام کی توہین کی ہے۔”
ایک اور صارف نے کہا:
“کیا سعودی عرب میں اب بھی علماء موجود ہیں؟ کیا وہاں اب بھی صرف مسلمان رہتے ہیں؟”
کئی افراد نے سعودی حکومت اور ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام کی بنیادی اقدار سے انحراف کی ایک اور کوشش ہے۔
سعودی حکومت کی خاموشی اور عوامی ردعمل
سعودی حکومت نے اس تنازع پر فی الحال کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا۔ تاہم، عوام کی ناراضگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کئی افراد نے کہا کہ یہ واقعہ ایک ایسا دھچکا ہے جو اسلامی دنیا کی قیادت کے دعویدار ملک کے لیے ناقابل قبول ہے۔
تفریح اور اسلامی اقدار کے درمیان کشمکش
ریاض سیزن فیسٹیول، سعودی عرب کی حالیہ اصلاحات کا حصہ ہے، جس کا مقصد ملک کو تفریحی، ثقافتی، اور سیاحتی مرکز کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے “ویژن 2030” کے تحت سعودی عرب میں کئی ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جو روایتی اسلامی اقدار سے ہٹ کر ہیں۔تاہم، ایسے واقعات ایک اہم سوال کو جنم دیتے ہیں: کیا ترقی اور تفریح کے نام پر اسلامی اقدار کو پس پشت ڈالنا مناسب ہے؟
علماء کا کردار اور اسلامی معاشرہ
اسلامی معاشرہ علماء کی رہنمائی میں پروان چڑھتا ہے۔ علماء نہ صرف مذہبی معاملات میں رہنمائی کرتے ہیں بلکہ وہ ایسے مواقع پر اپنی آواز بلند کرتے ہیں جہاں مذہب اور ثقافت کو خطرہ لاحق ہو۔ اس تنازع نے سعودی علماء کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمانوں میں ناراضگی کی لہر
یہ تنازع صرف سعودی عرب تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے اثرات محسوس کیے گئے ہیں۔ کئی ممالک کے مسلمانوں نے سعودی حکومت سے اس واقعے پر معافی مانگنے اور مستقبل میں ایسے اقدامات سے باز رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔ریاض سیزن فیسٹیول کا تنازع اسلامی دنیا کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ ترقی اور جدیدیت کے راستے پر چلتے ہوئے اسلامی اقدار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خانہ کعبہ مسلمانوں کے لیے نہایت مقدس مقام ہے اور اس کی مشابہت کو کسی تفریحی مقصد کے لیے استعمال کرنا نہ صرف غیر مناسب ہے بلکہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مذہبی اقدار اور شعائر کی حفاظت کے لیے متحد ہو جائیں۔ یہ وقت ہے کہ اسلامی دنیا اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر ترقی کی راہ تلاش کرے تاکہ دین اور دنیا دونوں کے تقاضے پورے ہو سکیں۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں فیشن شو کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو بھی جگایا۔فیشن شو کا اہتمام سالانہ تفریحی فیسٹیول ریاض سیزن کے دوران کیا گیا۔فیشن شو میں لبنانی ڈیزائنر کے تیار کردہ 300 سے زائد ملبوسات پیش کیے گئے۔فیشن شو کی اختتامی تقریب میں جہاں ماڈلز نے ریمپ پر فیشن کے جلوے بکھیرے وہیں جینیفر لوپیز، سیلئن ڈیون، نینسی اجرم، امر دیاب اور کیملا کابیلو جیسے گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو بھی جگایا۔فیشن شو اور کلچر پروگرام میں شائقین کی کثیر تعداد موجود تھی۔