’مصر میں تشدد کو معاف نہیں کیا جا سکتا‘
04:04PM Sun 18 Aug, 2013
یورپی یونین نے مصر کو خبردار کیا ہے کہ وہ آئندہ دنوں میں مصر کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے گی۔
ایک بیان میں یورپی یونین نے کہا ہے کہ جمہوریت اور بنیادی حقوق کے مطالبات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے نہ کہ انہیں خون خرابے سے دبایا جائے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ تشدد اور خون خرابے کی کوئی توجیح نہیں ہے اور نہ ہی اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین نے مصر کے لیے اس سال اور گزشتہ سال کئی ارب ڈالر کی امداد اور قرضے منظور کیے ہیں۔
دوسری جانب مصر کی کابینہ اتوار کی سہ پہر کو ایک خصوصی اجلاس میں ملک میں جاری بحران پر غور کرنے گی جہاں حالیہ دنوں کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
مصر کے عبوری وزیراعظم نے معزول صدر محمد مرسی کی بحالی کا مطالبہ کرنے والی جماعت اخوان المسلمین کو قانونی طور پر تحلیل کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔
اخوان المسلمین کے اہم رہنما محمد مرسی کے حمایتی ہیں جن کی برطرفی کے خلاف مصر میں مظاہرے جاری ہیں۔
مصر کی عبوری حکومت اخوان المسلمین کے حامیوں کو ایک جگہ اکھٹا ہونے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ مصر کی عبوری حکومت ملک میں جاری خونریزی کا ذمہ دار اخوان المسلمین کو ٹھہراتی ہے۔
اس سے پہلے مصر کی سکیورٹی فورسز نے قاہرہ کی مسجد الفتح کے اندر موجود اخوان المسلمین کے حامیوں سے مسجد کو خالی کرا لیا تھا۔
قاہرہ کی مسجد الفتح میں سنیچر کو اخوان المسلمین کے سینکڑوں حامیوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
مصر کی عبوری حکومت کی جانب سے بدھ کو اخوان المسلمین کے احتجاجی دھرنوں پر حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد سے اخوان المسلمین نے روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب حکام کے مطابق جمعہ کو پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 173 ہو گئی ہے۔
مصر کی وزارتِ خارجہ نے سنیچر کو کہا تھا کہ ملک میں جاری مظاہروں میں اخوان المسلمین کے ایک ہزار سے زائد ارکان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
مصر میں تین جولائی کو محمد مرسی کی برطرفی کے بعد سے اخوان المسلمین کے ارکان اور حامیوں نے گرجا گھروں، پولیس سٹیشنز، عیسائیوں کے گھروں اور ان کے کاروباری مراکز پر حملے کیے ہیں۔
مصر کی عبوری حکومت اخوان مسلمین کی مذید مزاحمت سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر عمل کر رہی ہے۔
مصر کے عبوری وزیر اعظم نے نامہ نگاروں کو بتایا ’ان لوگوں کے ساتھ کوئی مصالحت نہیں ہوگی جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جنھوں نے ملک کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں۔‘
قاہرہ میں بی بی سی کی نامہ نگار بیتھنی بیل کا کہنا ہے کہ مصر کے عبوری وزیرِاعظم کی اخوان المسلمین کو تحلیل کرنے کی تجویز سے مصر کو کنٹرول کرنے کی جہدوجہد میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا گیا تو اس گروپ کے لوگوں کو زیر زمین چلے جانے پر مجبور ہونا پڑے گااور ان کے فنڈنگ کے ذرائع کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
معزول صدر مرسی کی حکومت سے بہت ہی قریب ہونے کے باوجود بھی اخوان المسلمین تکنیکی طور پر ایک کالعدم تنظیم رہی ہے۔ اسے سنہ 1954 میں مصر کی فوجی قیادت نے کالعدم قرار دیا تھا لیکن حال میں اس نے خود کو ایک غیر سرکاری تنظیم کے طور پر رجسٹر کرایا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان گی مون نے ایک بیان میں گرجا گھروں، ہسپتالوں اور دیگر عوامی سہولیات پر حملے کی سخت مذمت کی ہے اور ان کے مطابق یہ حملے قابل قبول نہیں ہیں۔
بان گی مون کا خیال ہے کہ اس خطرناک صورت حال میں مصر کی اولین ترجیحات مذید جانی نقصان کو روکنا چاہیے۔
بان گی مون نے فریقین کو زیادہ سے زیادہ ضبط کے مظاہرے کی بات کہی اور حکام سے ایک ایسے ’قابل عمل منصوبے پر عمل کرنے کے لیے کہا جس سے تشدد پر قابو پایا جاسکے اور سیاسی عمل کو شروع کرنے کی بات کہی جسے تشدد نے یرغمال بنا لیا ہے‘۔
ہمارے نمائندے کا کہنا ہے کہ اس بحران کا سیاسی حل بہت دور کی بات ہے۔
BBC URDU