۔سچی باتیں۔۔۔ ایمان وعمل۔۔۔ مولانا  عبد الماجد  دریابادیؒ۔

05:07PM Sat 25 Feb, 2023

۔1931.08.28

   (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )

اگرآپ کے سامنے کوئی یہ بحث زور دے دے کر چھیڑے، کہ انسان کے لئے آنکھیں بڑی نعمت ہیں یا کان، توآپ کیا کریں گے؟اگر کوئی شخص آپ کے سامنے یہ بحث تصفئے کے لئے باربار پیش کرے، کہ انسانی زندگی کے لئے دل زیادہ ضروری ہے، یا دماغ، توآپ کیا فیصلہ صادر کریں گے؟ ظاہر ہے کہ بجز مُسکراکرمُنہ پھیرلینے کے، آپ کے لئے کوئی چارہ نہیں۔ کان کی نعمت سننے کے لئے ہے، آنکھ کی دیکھنے کے لئے، آواز کا ادراک ایک کے ذریعہ سے ہوتاہے، روشنی کا دوسرے کے واسطہ سے۔ بڑی یہ نعمت بھی ہے، اور وہ نعمت بھی۔ انسانی صحت اور زندگی کے لئے ضروری دل کا وجود بھی ہے اور دماغ کا بھی……اس طرح کے سوالات پیداکرنے، اور انھیں مہتم بالشان بنانے کو اگرآپ فتور عقل کا نتیجہ نہیں، تو تضیع وقت کا ذریعہ تو یقینا سمجھیں گے۔

آج عقل کی فراوانی اور دانش کی ارزانی کا مظاہرہ یوں کیاجارہاہے، کہ ایمان اورعقل کے درمیان موازنہ اور تقابل شروع کردیاگیاہے، اوررہ رہ کر یہ سوال چھیڑا جارہاہے، کہ نجات کے لئے ایمان ضروری ہے یا حُسن گُل؟ یہ مقدم ہے یا وہ؟ کافی ایک ہے یا دوسرا؟ آپ یہ سوالات سُن کر چکر میں آجاتے ہیں، اور حریف کے سامنے اپنی پریشانی اور گھبراہٹ کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ سوال خود ہی مہمل ہے۔ آپ جواب کی زحمت اُٹھانے کے بجائے، خود سوال ہی کو سائل کے مُنہ پراُلٹ دیجئے، اور خود اُسی سے پوچھئے کہ ایمان اور حُسن میں فرق کیاہے؟ سلسلۂ نجات میں ایک کو دوسرے سے جداکرنا ممکن کیونکر ہے؟ دُنیا میں کوئی مکان آج تک ایساتعمیر ہوسکاہے، جس میں بنیاد یا اوپر کی عمارت میں سے، کوئی ایک چیز غائب ہو؟ ایمان بمنزلۂ بنیادہے، اور حُسن عمل اُس کے اوپر کی عمارت۔ مکان کااطلاق تو اس مجموعہ پر ہوگا ، نہ کہ اُس کے ایک جزء پر۔

نجات مقصود ہے، تو ایمان کو بھی سنبھالئے اور اعمال کو بھی۔ مغفرت کی طلب ہے تو عقائد بھی درست کیجئے اور حُسن عمل پر بھی مداومت رکھئے۔ فلاح مطلوب ہے، تو آمِنُوا کی بھی تعمیل کیجئے، اور واعَمِلُوا الصالحات میں بھی داخل ہوجئے۔حکم کو سنئے بھی، اور حُکم پر چلئے بھی۔ منزلِ مقصود کو بھی نظر میں رکھئے اور قدم بھی اُٹھاتے رہئے۔ اگلوں نے یہی کیا، اللہ نے یہی بتایا، رسولؐ نے اسی راہ پر چَلایا۔ لیکن اگر خدانخواستہ فکرِ نجات ہی سے اِعراض ہے، صلاح وفلاح مطلوب ہی نہیں، اگر مدّنظر محض مضمون تراشی اور ہنگامہ پروری ہے، تو بے شک وشبہہ ، ایمان وعمل کے تصادم پر قلم چلاتے رہئے، برہمن کے ناجی اور شیخ کے ناری ہونے پر ’’عجیب وغریب نظریۂ دینی‘‘ لکھ لکھ کر چھاپتے رہئے تاآنکہ وہ وقت آجائے، جب بغیر کسی کے بتائے، اور بغیر کسی کے سُلجھائے خود ہی ہر حقیقت بے نقاب ہوکر سامنے آجائے۔ اور ’’بلند ومعزز‘‘ فرعون ’’حقیر وذلیل‘‘ اسرائیلیوں ہی کی طرح ایمان لانے پر مجبور ہوجائے!۔