جناب حسن شبر دامدا۔  ایک مخلص معمار قوم... از: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

10:06PM Fri 15 Apr, 2022

 یہاں جو بھی آیا ،جانے کے لئے آیا، یہ  دنیاکسی کا مستقل ٹھکانا نہیں ہے، خالق نے اس دنیا میں لانے کا جو مقصد دیا ہے اسے پورا کرکے ہر بندہ خدا کو کسی نہ کسی دن یہاں سے رخصت ہونا ہے، خوش قسمت ہے وہ جس نے دنیا میں سفر کے تقاضوں کو پورا کیا، اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنی توانیاں صرف کیں، اس نے جہاں اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی فکر کی وہیں، اس نے اللہ کے دوسرے بندوں کی بھلائی اور خیر کی بھی فکر رکھی۔

جنوبی ہند کے قصبے بھٹکل  (کرناٹک  ) میں جن افراد نے یہاں کے مسلمانوں کی اٹھان، ان کی اجتماعی، تعلیمی اور سماجی ترقی  کی فکر کی اور اس کے لئے اپنا وقت، صلاحیتیں او توانیاں گذشتہ نصف صدی کے دوران  صرف کیں، اور اپنی زندگی کے انمول نقوش چھوڑے ،  ان میں سے  ایک نام جناب حسن شبر دامدا  کا بھی ہے، جو رمضان المبارک کی ساتویں تاریخ کی صبح  ( ۸۹ ) سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے، اس طرح بھٹکل کی سماجی، معاشرتی اور تعلیمی نشات ثانیہ کا ایک درخشاں باب بند ہوگیا، مرحوم نے بھٹکل کے قومی اداروں انجمن حامی مسلمین ، مجلس اصلاح وتنظیم ، جماعت المسلمین، بھٹکل میونسپل کونسل وغیرہ تعلیمی ، سماجی اور سیاسی اداروں میں اپنی خدمات کے دیرینہ نقوش چھوڑے۔ان میں مسلمانوں کے تعلیمی ادارے انجمن حامی مسلمین میں آپ کے نقوش زیادہ تابندہ ہیں ، اس ادارے کی نشات ثانیہ میں اپنے دیرینہ نقوش چھوڑنے والے قافلے کے مرحوم  قائدین جناب یس یم یحیی ، عبد الغنی محتشم  اور حسن شبر دامدا میں آخرت کا رخت سفر باندھنے والے آپ آخری مسافر ہیں

ابتدائی زندگی

آپ نے سنہ ۱۹۳۴ء میں خلیفہ جامع مسجد کے بالمقابل  ( کوٹیکل ہاؤس) میں آنکھیں کھولی تھیں۔اس زمانے کی روایات کے مطابق عمر کے چھٹے سال گورنمٹ پرائمری بورڈ اسکول میں آپ کا داخلہ ہوا، جہاں مکتب کی تعلیم کے بعد آپ  نے انجمن اینگلو اردو ہائی اسکول میں داخلہ لیا ، جب کہ یہ گورنمنٹ  بورڈ اسکول کےکمپاؤنڈ    میں  واقع مصبا بلاک میں قائم تھا، ۱۹۵۲ء میں آپ نے دسویں کے درجات کی تعلیم مکمل کرکے ممبئی بورڈ سے میٹرک کا امتحان دیا، اور امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی،

یہ معاشرے میں اعلی تعلیم کے فروغ کا ابتدائی دور تھا، اسکولوں میں طلبہ کی تعداد بہت محدود ہوا کرتی تھی، اللہ تعالی نے اس وقت تعلیم کے اس سفینے کو چلانے کے لئے قوم کو بڑے مخلص اساتذہ سے نوازا تھا۔ جنہوں نے اس بچھڑی قوم کو تعلیم کی پٹری پر لانے کے لئے تندہی سے خدمات انجام دیں، اور جنہوں نے قوم کو علم و فہم کے زیور سے نوازنے کے لئے جان کی بازی لگادی۔ یہ قوم کی تعمیر میں میل  کا پتھر تھے،قوم ان  محسنین کو اب فراموش کرتی جارہی ہے۔

اس دور کے اساتذہ میں جنہوں نے آپ کی زندگی پر دیرینہ اثرات چھوڑے، درج ذیل اساتذہ کا نام آتا ہے۔

۔جناب ابو بکر غنی ماسٹر۔ بڑے با اصول اور ایک رعب دار استاد تھے، حساب اور الجبرا کے ماہر تھے، طلبہ کو عملی شکلوں اور نقشوں کے ذریعے    پڑھاتے تھے ۔ شبر  صاحب  نے آپ سے  خصوصی ٹیویشن بھی لئے تھے۔

۔کوٹیشور برادران ، شاہ الحمید (بڑے کوٹیشور )  اورمحی الدین وڑاپا  (چھوٹے کوٹیشور) چھوٹے بھائی نے تدریس سے زیادہ دفتری کام میں وقت دیا۔

۔مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمی، جو قاضی شہر تھے، اور وقت کے عظیم فقیہ اور بہترین استاد  بھی ۔ دینیات پڑھاتے تھے۔

۔آپ کے دوران طالب علمی  میں مولانا محمود خیال مرحوم بھی انجمن سے وابستہ ہوئے،بھٹکل کے عصری تعلیم یافتہ طبقے میں اردوزبان کی ترویج، اور شعری ذوق پیدا کرنے کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے۔

۔قاضی عبد الکریم ماسٹر، بڑے اللہ والے انسان تھے، طلبہ میں دین کے شعائر کا اہتمام نماز  کی پابندی پر خاص توجہ دیتے تھے، بھٹکل میں اعتکاف کی سنت تازہ کرنے کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے،

انگریزی حکومت کی پالیسی تھی کہ اعلی تعلیم کے ادارے وطن عزیز میں کم سے کم ہوں، پرائمری تعلیم پر اس کی اجارہ داری ہو، آزادی کے بعد ابتدائی دنوں میں اعلی تعلیمی اداروں کے قیام کی رفتار بہت سست رہی۔ اس زمانے میں ضلع کی سطح پر گریجویشن تک کی  تعلیم کا صرف ایک کالج ہوا کرتا تھا، اس زمانے میں بھٹکل والوں کی منگلور میں بڑی تجارتیں ہوا کرتی تھیں،اور یہاں بہ نسبت تعلیم پانا زیادہ آسان تھا، اور منگلور میں  دو معیاری کالج قائم تھے، انگریزی زبان پر مہارت کے لئے پہلے آپ نے یہاں کے سینٹ ایلوشیش مشنری کالج میں داخلہ لیا، یف اے (بارہویں جماعت  ) کی تکمیل کے بعد آپ نے  گورنمٹ آرٹس اینڈ سائنس کالج میں داخلہ لیا جہاں پر کامرس پڑھانے والے اعلی  معیار کے اساتذہ پائے جاتے تھے، یہاں سے آپ نے ۱۹۵۶ء میں گریجویشن مکمل کیا، اور مدراس یونیورسٹی سے اول درجہ میں بی کام کی ڈگری حاصل کی ،اس طرح آپ بھٹکل میں بی کام کی ڈگری پانے والے پہلے طالب علم ثابت ہوئے، آپ کی خواہش مزید اعلی تعلیم پانے کی تھی، لیکن وہ قوم میں انتشار کا دور تھا، جماعتی اختلافات نے قوم کو بانٹ دیا تھا، ان اختلافات کے زہر سے قریبی خاندان اور بھائی بھائی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ آپ کے  دادا کے زمانے سے جنگل سے لکڑی کاٹنے، ٹمبر اور ڈپو کا کاروبار چلاآرہا تھا، ان  قومی اختلافات نے اس کاروبار کو بھی متاثر کیا،آپ کےچچا نے اس کاروبار کی شراکت سے علحدگی اختیار کی، جب کاروبار کا پورا بوجھ آپ کے والد مرحوم پر  آن پڑا تو پھر آپ کو مجبورا تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے بغیر ۱۹۵۷ء  میں کاروبار میں اپنے والد ماجد کا ہاتھ بٹانے پر مجبور ہونا پڑا، آپ کے والد کی خواہش تھی کہ آپ بیرون ملک جاکر ذرائع معاش میں ترقی کریں،۱۹۵۹ء میں سعودی عرب میں بھٹکل کے مشہور تاجر محمد اسماعیل کیپا سائب مرحوم ( بھٹکل اسٹور۔ الخوبر ) نے آپ کو ملازمت کا پروانہ  بھی بھیجا تھا، لیکن قسمت میں وہاں جانا نہیں لکھا تھا،آئندہ دس سال تک آپ نے یکسو ہوکر تجارت میں حصہ لیا، اس وقت قومی اور اجتماعی زندگی میں آپ کی  شراکت نہ ہونے کے برابر تھی، حالانکہ اس دوران قوم کی ایک محسن استاد مرحوم عثمان حسن (ہیڈ ماسٹر ) صاحب نے جن سے آپ کے خاندانی روابط بھی تھے، آپ کو انجمن سے وابستہ کرنے کی بڑی کوشش کی، لیکن ابھی قسمت میں یہ  وقت نہیں لکھا تھا۔

انجمن انتظامیہ میں:۔

 یہاں تک کہ ۱۹۶۸ء آگیا، جب کہ قومی تعلیمی ادارے انجمن حامی مسلمیں کا نیا دستور بنا،جس کی تدوین میں مولانا  خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی، جناب محمد حسین صدیقی ( بوٹا )، آپ کے برادر خورد یس یم یحیی، محی الدین سعدی وغیرہ شریک تھے۔

۔۱۹۶۹ء میں جناب محی الدین منیری مرحوم کی قیادت میں انجمن کی مجلس انتظامیہ کا تاریخ ساز الکشن منعقد ہوا۔ اس میں نوجوان تعلیم یافتہ افراد کی ایک معتد بہ تعداد نے مجلس انتظامیہ میں انٹری کی، پہلی مرتبہ رکن انتظامیہ بننے والوں مین جناب حسن شبر مرحوم بھی تھے، نئے عہدے داران کے لئے جو نام سامنے تھے انتخابی جلسہ سے دو تین  گھنٹے  قبل رکن انتظامیہ ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی اور جناب عبد اللہ دامودی مرحوم کی کوششوں سے  اچانک جوئنٹ سکریٹری کے لئے قرعہ فال شبر صاحب کے نام نکلا، جناب یس یم یحیی مرحوم جنرل سکریٹری منتخب ہوئے، چونکہ ان کا قیام بنگلور میں ہوا کرتا تھا، لہذا مقامی طور پر انتظام وانصرام کی زیادہ تر ذمہ داری شبر صاحب پر آگئی۔

چونکہ شبر صاحب کا اداروں کے انتظامی امور سے کوئی پیشگی سابقہ نہیں تھا، پہلے تو انہیں اس عہدے کو قبول کرنے میں پس وپیش رہا، اس وقت انہیں جناب الحاج محی الدین منیری مرحوم اور جناب محمد حسن قاضیا مرحوم کا خاص طور پر تعاون اور مشورہ حاصل رہا، آخرالذکر نے انہیں مشورہ دیا کہ ابتدائی چھ ماہ آپ کے لئے تجرباتی ہیں، انجمن کے انتظامی امور کے ساتھ ساتھ اگر آپ کے کاروبار میں کوئی فرق نہیں آتا ہے تو پھر انجمن کی ذمہ داریوں سے وابستہ رہیں، لیکن اگر کاروبار کا نقصان ہورہا ہو تو پھر کاروبار کوترجیح دیں۔ لیکن قدرت کو آپ سے انجمن اور قوم کی خدمت لینی منظور تھی، ربع صدی سے زیادہ عرصہ تک آپ انجمن کے عہدوں جوئنٹ سکریٹری، جنرل سکریٹری، اور نائب صدر  پر فائز رہے، اس دوران یحیی صاحب، اور عبد الغنی محتشم صاحب کی رفاقت میں انجمن نے نشات ثانیہ کا ایک عظیم دور شروع ہوا، اور اس دور میں اس تعلیمی ادارے نے مختلف میدانوں میں اتنی ترقی کی جس کی مثال  ادارے کے قیام سے نصف صدی تک نہیں ملتی۔