حج کا سفر۔۔۔مسجد نبوی اور متبرک آثار(۳)۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری

03:47PM Tue 4 Jul, 2023

حج کا سفر۔۔۔مسجد نبوی اور متبرک آثار(۳)۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

حجرہ بی بی فاطمہؓ کےپائیں متصل ایک ستون تہجد ہے جہاں حضور انور کھجور کی ایک چٹائی پر تہجد کی نمانہ ادا فرماتے تھے اتباع میں صحابہ بھی مقتدی بن کر تہجد پڑھنے گئے تو آپ نے حجرہ شریف کے اندر تہجد پڑھنے کا معمول فرمالیا۔ ایک ستون مقام جبریل کے نام سے موسوم ہےحضرت جبرئیل وحی پہچانے کے لئے جب حاضر خدمت ہوتے تو اسی جگہ نزول کرتے تھے۔ ان سب کو "اسطوانات  رحمۃ " (رحمت خداوندی کے ستون ) کہا جاتا ہے اور ان تمام جگہوں پر نفلیں پڑھنا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں یہاں جگہ مل جانا باعث فخروا جر ہے۔

 پھر وہ مقدس مقام ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں کی امامت کے لئے قیام فرما ہوتے تھے جسے محراب النبی کہا جاتا ہے حضور کے نماز پڑھنے کی جگہ پرایک محراب اس طرح بنا دی گئی ہے کہ صرف حصہ  باہر ہے، جہاں ریاست کے دوران حضور انور ﷺکے پائے مبارک ہوتے تھے سجدہ گاہ بھی محراب کے آثار کے اندر چلی گئی اب حاضری دینے والوں کو اس جگہ نماز پڑھنے میں سجدہ اس جگہ نصیب  ہوتا ہے جہاں پائے مبارک ہوتے تھے ۔ حجرہ بی بی فاطمہؓ  کے پائیں سے متصل ستون تہجد ہے اور پھر زرا سی جگہ چھوٹی ہوئی ہے اس کے بعد اصحاب صفہ کا چبوترہ ہے عہد رسالت میں یہاں ایک چھپر تھا جس کے نیچے وہ اصحاب رسول رہتے تھے جن کا گھر بار بھی نہ تھا اور جن کا ذریعہ معاش بھی کچھ نہ تھا، یہ اللہ کے رسول کے مہمان رہتے تھے اور دن بھر خدمت میں حاضر رہتے تھے ان انہی  اصحاب صفہ میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی تھے جن سے بہت بڑی تعداد میں ارشادات نبوی مروی ہیں ایک وفعہ لوگوں کے اس اعتراض کو سن کر کہ ابوہریرۃ بکثرت احادیث روایت کرتے ہیں جب کہ دوسرے بڑے بڑے صحابہ بہت کم روایت کرتے ہیں حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا تھا کہ اور اصحاب کے اوقات کا روبار میں گزارتے تھے اور میں صبح و شام اس مسجد میں منبر اور حجرے کے درمیان بھوک سے نڈھال پڑا رہتا تھا دیکھنے والے سمجھتے تھے کہ مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے ۔ اس طرح ہمہ وقت کی حضوری کے طفیل سب سے زیادہ ارشادات کو سننے کا موقعہ مجھے ملا اب اصحاب صفہ کا چبوترہ حجرہ مبارک کے خدمت گزاروں کی بیٹھک ہے اور یہاں قرآن شریف بھی رکھے ہیں لوگ یہاں بیٹھ کر تلادت بھی کرتے ہیں۔ اصحاب صفہ کے چبوترے اور حجرہ بی بی فاطمہ کے درمیان جو جگہ چھوٹی ہوئی ہے وہی راستہ ہے بائیں سے باب جبرئیل تک جانے کا۔

                              ہم نے مسجد نبوی میں حاضری کا معمول باب جبرئیل ہی سے رکھا تھا باب جبرئیل سے آنے والا پہلے مزار مبارک کے پائیں حاضر ہوتا ہے ، در درازے اور پائیں مبارک کے درمیان اتنی گنجایش ہو کہ نمازیوں کی کئی صفیں ایک ایک صف میں بیس پچیس نمازیوں کے حساب سے قائم ہوتی ہیں ہم لوگ (ہم متین میاں اور شیخ ظہیر حسین) ، ان ہی صفوں میں اس طرح کھڑے ہوئے تھے کہ حضورانور کے مبارک قدموں سے قریب ہیں،نماز کے علاوہ بھی ہمیں آکر بیٹھتے تھے نماز ہونے لگتی ہیں، سنتیں غیرہ پڑھتے تو ہمارا منہ قبلہ کی طرف ہو جاتا ورنہ قدم پائے مبارک کی طرف رخ کئے بیٹھے رہتے تھے ۔

ایک دفعہ اس طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ سپاہی نے ٹوک کر کہا اے قبلہ ادھر نہیں ہے (ہا تھ سے اشارہ کر کے ) اس طرف ہےَ۔

ہم نے جواب دیا ، ہم نماز نہیں پڑھ رہے ہیں کہ قبلے کی طرف منہ کرنا ضروری ہو ۔ اس نے درشتی سے ہمیں قبلہ حاجات کے بجائے قبلہ نماز کی طرف منہ کرنے کو کہا یہ خیال کر کے کہ "جواب جاہاں باشد خموشی" پر عمل در آمد کرنے کا ہی محل ہے، ہم خاموش رہے، سپاہی نے بھی اس سے آگے بات کو بڑھانا نہ چاہا۔ باب جبرئیل سے حاضری دینے میں ہمیں اور متین میاں کو ایک خاص مزہ اس لیئے بھی آتا تھا کہ اسی دروازے سے زرا سا آگے بڑھ کر ہمارے جو حضرت ابو ایوب انصاری کا وہ گھرتھا، جهان حضور انورصلی الہ علی وسلم نے اس وقت تک قیام فرمایا تھا، جب تک مسجد نبوی اور ازواج مطہرات کے حجرے نہیں بن گئے ۔

باب جبرئیل سے آگے قبلہ رخ جو راستہ جاتا ہے اس میں چند قدم چل کر پہلے وہ جگہ پڑتی ہے جو مشہد عثمانؓ کہلاتی ہے۔ یعنی جہاں حضرت عثمان غنیؓ کا مکان تھا اور اس مکان کو ایک مہینہ سے زیادہ تک گھیرے میں رکھا گیا تھا کہ نہ حضرت عثمانؓ مسجد نبوی میں نماز کے لئے آسکتے تھے اور نہ کوئی شخص ان تک ضروریات کا سامان پانی تک پہنچا سکتا تھا۔ اسی مکان میں چالیس دن تک بے آپ دودانہ محصور رکھنے کے بعد ایک رات دشمنوں نے پچھواڑے سے داخل ہو کر حضرت عثمانؓ کوشہید کر دیا ۔ اس سے زرا اور آگے بڑھ کر ایک پختہ مکان ہےجس پر دار سید نا ابی ایوب الانصاري من الاوقاف پتھروں کے نقش سے لکھا ہوا ہے۔ مکان بعینہ وہ نہیں رہا جو عہد رسالت میں تھا بلکہ پختہ بنادیا گیا ہے اور جب ہم نے دیکھا ہے تو اس میں ایک اسلامی ملک کے سفارت خانے کا شفاخانہ تھا،

 ایک دفعہ ادھر سے ہم گزر رہے تھے دو پشادری حاجی وہاں کچھ ڈھونڈ تھے ملے۔ ہمارے رک جانے پر ایک نے دوسرے سے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا ان ہی سے پوچھ لو، ان میں سے ایک نے پوچھا وہ کون سی جگہ پر جہاں ہارے سرکار کا ناقہ آکر بیٹھا تھا" دہ جگہ تو مسجد نبوی کے اندر ہے۔اس نےوضاحت کے ساتھ سوال کیا ،جس دروازے کے قریب ناقہ بیٹھا تھا پھر سر کانے اس گھرمیں قیام فرمایا وہ جگہ کون سی ہے ؟

  وہ حضرت ابوایوب انصاری کے گھر کو ڈھونڈھ رہے تھے ان کو بتایا اور وہ عبارت بھی دکھا دی جو باہر کی دیوار پر نقش ہے ۔ ان دونوں کے حرکات و سکنات میں عقیدت کی غیر معمولی کیفیت دیکھ کرہم نے بڑے افتخار کے ساتھ انھیں یہ بھی بتا یا کہ" ہم حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی اولادیں ہیں"

               دونوں ادب سے جھک گئے اور کہنے لگے کہ ہماری پیٹھ پر ہاتھ پھیر دیجئے ؟ اس کے بعد انھوں نے بتایا کہ وہ قسطنطینہ میں حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر حاضری دے چکے ہیں اب ان کے گھر کی زیارت کر رہے ہیں اور خوشی اس پر بھی ہے کہ انھیں کی اولاد کے ایک فرد کے ساتھ زیارت کر رہے ہیں ۔ اور ہمیں خوشی اس بات پر ہو رہی تھی کہ ہم بھی بزرگ قرار پا رہے ہیں اور ہمارے آگے بھی لوگ ادب سے جھک رہے ہیں ۔

تا داغ غلامی تو داریم

 ہر جا کہ ردیم یاد شاہیم

 اور اسی داغ غلامی کے احساس کے ساتھ جب مواجہ شریف میں حاضر ہوتے تھے اور ابو ایوب انصاری کا درس دے کر اپنی عرض پیش کرتے تھے تو اس وقت اپنا دماغ عرش معلی پر نظر آنے لگتا تھا ۔

بہر حال یہ واقعہ ہے کہ اپنی بڑی سرکار میں حاضری دینے والے پر جو رعب ودبدبہ طاری رہنا چاہیئے اس سے ہمیں کبھی سابقہ نہ پڑا، برعکس اس کے نشاط کا سا عالم ان تمام دنوں میں ر ہا، جو مدینہ شریف میں ہماری حاضری کے دن تھے یاد نہیں پڑتا کہ اس سے پہلے بھی کبھی اندرونی مسرت کی ایسی دولت ہاتھ آئی ہو اور وہاں سے رخصت ہو کر چلے آنے کے بعد کا عالم ؟ تو الفاظ میں اس کا نقشہ کھینچ دینا اپنی قدرت اور استطاعت سے باہر ہے ۔ مختصر یہ کہ ہے

وال سے نکل کے پھر نہ فراغت ہوئی نصیب

آسودگی کی جان، تری انجمن میں تھی !

               قیام مدینہ شریف کے دوران جنت البقیع میں بھی حاضری دی ، جہاں ہزاروں صحابہ تابعین اولیاء اور علماء مدفون ہیں جہاں ازواج مطہرات اور آنحضرت کے اہل بیت دائی حلیمه فرزند حضرت ابراہیمؓ سب کی قبریں ہیں مگر کون کس کی قبر ہے یہ اب کوئی نہیں بتا سکتا، نہ کوئی نشان نہ کوئی علامت بس ملبے کے ڈھیر جا بہ جا نظر آتے ہیں اور قبرستان کے نگہبان اس لئے وہاں کھڑے رہتے ہیں کہ کوئی کسی قبر کوکہیں ہاتھ نہ لگانے پائے، یہی نگہبان اگر کسی وقت مہربان ہوں تو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہ ڈھیر جو نظر آرہا ہے فلاں کی قبر ہے، یا مزدرین ہمراہ ہوں تو وہ بتاتے جاتے ہیں کہ کس کی قبر کہاں ہے ! یعنی کہاں پر تھیں !!

 جنت البقیع آج بھی اہل مدینہ کا عام قبرستان ہے احد ود مدینہ منورہ میں جو کوئی خوش قسمتی سے مرتا ہے خواہ مدنی ہور یا آفاقی اسی جوار صالح میں دفن کیا جاتا ہے ۔ جس خوش نصیب کو حد و د مدینہ میں مرنا نصیب ہوتا ہے۔ اس کے جنازے کی شان بھی عجیب ہوتی ہے کفنانے کے بعد میت مسجد نبوی میں لائی جاتی ہے اور وہیں نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے ۔ پھر جنازاے کو مواجھ شریف سے گزار کر باب جبرئیل سے با ہرلے جاتے ہیں اور جنت البقیع میں دفن کر دیتے ہیں۔ تقریباً ہر نماز کے بعد کسی نہ کسی خوش نصیب کے جنازے کی نمازہم نے بھی پڑھی ۔ مولانا محمد ابراهیم ختنی (مهاجر ونی) نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک صاحب کا جنازہ اسی طرح مسجد نبوی میں لایا گیا اور نماز کے بعد مواجھ شریف سے گزار کرجنت البقیع لے جایا گیا یہ عالم دیکھ کر مدینہ شریف کے ایک دوکان دار نے اپنے دل میں کہا کہ یہ مرنے والا جنتی ہے بشرطیکہ ایمان پر اس کا خاتمہ ہوا ہو گا"

               دل ہی دل میں ، یہ بات سوچ کر وہ اپنی دوکان کھولنے چلا گیا۔ اچانک ایک درویش جو مدینہ شریف میں مجذوب کی حیثیت سے متعارف تھا آیا اور دوکاندار کی پیٹھ  پر ایک ڈنڈا رسید کر کے بولا۔ تو مدینہ میں مرنے والے کے ایمان میں شک کرتا ہے !

جاں می وہ ہم بباد غمت می بزم بخاک

 طوبی لمن يموت وفی قلبہ ہواک

 مدینہ منورہ سے تین میل دور کو ہ احد کے دامن میں وہ مقام ہے جہاں جنگ احد ہوئی تھی۔ یہاں سید الشہداء حضرت حمزہؓ کا مزار اور دوسرے شہد ائے احد کے مزارات کبھی تھے، اب میدان کی سی کیفیت ہے۔ چالیس سال ہوئے مزار شہید کر کے زمین کے برابر کر دیئے گئے ،یہاں بھی حاضری دینے والوں کو اگر سپاہی نہ بتائے کہ یہ کس کی قبر کی علامت ہے تو کوئی نہیں جان سکتا کہ کہاں حضور انور ﷺکے عم محترم حضرت حضرت حمزہؓ مدفون ہیں اور کہاں حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ایسے  جلیل القدر صحابی وغیرہ۔

مدینہ شریف کو اگر کوئی اس پہلو سے دیکھنا چا ہے کہ اسلامی تاریخ کے کیسے کیسے اہم وا قعے تھے اور کیسی کیسی اہم شخصیتیں یہاں سے وابستہ ہیں۔ تو اس کے لئے ایک اہم عمر چاہئیے اور اس کے بیان کرنے کے لئے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے ہم نے نو دس دن کی حاضری میں یہ حوصلہ نہیں کیا۔ بس انھیں مقدس مقامات کو جو زیارت گاہ کی حیثیت سے شہرت پا چکے ہیں دیکھنے گئے او زیادہ دقت اس اعلا سر کار میں گزارنے کی کوشش کرتے رہے تھے ۔

 سب سے اعلیٰ تری سرکار ہے سب سے افضل

میرے ایمان مفصل کا یہی ہے مجمل

اور اس سرکار میں حاضری کی دولت ہاتھ آجانے کے نتیجے میں اور کیاکیاسعادتیں روح اور قلب کے حصے میں آتی ہیں۔ اور بے شک وشبہ آتی ہیں۔ ان کا ادراک ہر ایک کے بس سے باہر ہے اور جو واقعی ان سعادتوں کے اندازہ شناس ہوتے ہیں وہ بھی یہ سمجھ کر چپ ہو جاتے ہیں ۔

 دیکھ آئے ہیں جو چشم حقیقت نگر سے ہم

کہتے  نہیں ہیں حضرت واعظ  کے ڈر سے ہم

 بالآخر وہ وقت بھی آگیا جب ہمیں گنبد خضراء پر رخصتی نگاہ ڈالنا پڑی او درود سلام کے ساتھ رو رو کر دعائیں مانگنے لگے کہ

اے اللہ کے رسول ! خدمت اقدس میں ہماری یہ پہلی حاضری ہے آپ کے صدقے میں ایسی حاضری بار بار نصیب ہوتی رہے ؟"

مشرف گرچی شد جامی زلطفش

خدایا ایں کرم بار دگر کن

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/