مولانا سید جلال الدین عمری کا سانحہ ارتحال مسلم دنیا کا نا قابل تلافی نقصان: بھٹکل میں جماعت اسلامی کی جانب سے منعقد تعزیتی اجلاس میں مقررین کا اظہار خیال

03:51PM Sat 27 Aug, 2022

بھٹکل : 27  اگست،2022 (بھٹکلیس نیوز بیورو) سابق امیر جماعت اسلامی ہند اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر رہ چکے   مولانا سید جلال الدین عمری کے سانحہ ارتحال پر جماعت اسلامی ہند بھٹکل کی طرف سے آج بعد نماز عصر دعوت سینٹر میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف مقررین نے مولانا مرحوم کی گُوناگوں خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس موقع پر امیر مقامی جماعت اسلامی بھٹکل جناب نذیر قاضی صاحب ، جناب قادر میراں پٹیل صاحب، جناب مولانا سید زبیر ایس ایم  صاحب، جناب مولانا جعفر فقیہ ندوی صاحب اور دیگر نے مولانا کی بہت سی خوبیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ مولانا مرحوم نے ہمیشہ علم کو سیکھنے اور اس کی ترویج  کی فکر کی  ہے ، وہ معتدل رجحان رکھنے والے  اور علمی و تحقیقی ذہن رکھنے والے شخص تھے  اس لیے ان کی کتابیں  بہت مقبول ہوئیں اور ہاتھوں ہاتھ لی گئیں۔ اس کے علاوہ اس موقع پر مولانا کی انکساری، ان کا تواضع اور اللہ کے دین کو پہنچانے کی تڑپ وغیرہ کا بھی تذکرہ کیا گیا اور ان کی وفات کو عالم اسلام کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا گیا  ۔ اجلاس کے آخر میں مولانا مرحوم کے حق میں مغفرت کی دعا کی گئی ۔ کچھ مولانا مرحوم کے بارے میں : مولانا مرحوم  کی ولادت 1935 میں جنوبی ہند میں مسلمانوں کے ایک مرکز شمالی آرکاٹ کے ایک قصبے پتگرام میں ہوئی۔ انہوں نے جنوبی ہند کی معروف دینی درس گاہ ’جامعہ دارالسلام عمرآباد‘ سے 1954 میں سندِ فضیلت حاصل کی، مدراس یونیورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی، اے (اونلی انگلش) کے امتحانات پاس کیے۔ جامعہ عمر آباد سے فراغت کے فوراً بعد آپ مرکز جماعت اسلامی ہند رامپور آ گئے اور وہاں کے اصحابِِ علم سے استفادہ کیا۔ 1956 میں جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ تصنیف سے وابستہ ہوگئے۔ یہ شعبہ 1970 میں رام پور سے علی گڑھ منتقل ہو گیا اور ایک دہائی کے بعد اسے ’ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی‘ کے نام سے ایک آزاد سوسائٹی کی شکل دے دی گئی۔ مولانا اس کے آغاز سے 2001 تک اس کے سکریٹری تھے، اس کے بعد اب تک اس کے صدر تھے۔ آپ ادارہ کے باوقار ترجمان سہ ماہی مجلہ ’تحقیقات اسلامی‘ کے بانی مدیر بھی رہے ہیں۔ یہ مجلہ اپنی زندگی کے 40 سال پورے کر چکا ہے۔ اسی دوران میں انہوں نے پانچ سال (1986 تا 1990) جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی کی ادارت کے فراض بھی انجام دیے۔ ملک کی متنوع دینی، ملی، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں مولانا عمری کی سرگرم شرکت رہتی تھی۔ آپ ایک طویل عرصے تک جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے معزز رکن رہے۔ 1990 سے مارچ 2007 تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر تھے۔ اس کے بعد مارچ 2019 تک اس کی امارت کی ذمہ داری نبھائی۔ اس کے بعد جماعت کی شریعہ کونسل کے چیرمین تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے شخصی قوانین کی حفاظت ومدافعت میں سرگرم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدر، شمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعۃ الفلاح بلریاگنج، اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ، سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرست اعلیٰ تھے۔ بعض دوسرے علمی اداروں سے بھی آپ کاتعلق تھا۔ مختلف موضوعات پر مولانا عمری کی تقریباً چار درجن تصانیف ہیں۔ ان میں تجلیات قرآن، سیرت، معروف و منکر، غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق، خدا اور رسول کا تصور۔ اسلامی تعلیمات میں، احکامِ ہجرت و جہاد، انسان اور اس کے مسائل، صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات، اسلام اور مشکلاتِ حیات، اسلام کی دعوت، اسلام کا شورائی نظام، اسلام میں خدمت خلق کا تصور، انفاق فی سبیبل اللہ، اسلام انسانی حقوق کا پاسباں، کم زور اورمظلوم اسلام کے سایہ میں، غیراسلامی ریاست اور مسلمان، تحقیقات اسلامی کے فقہی مباحث جیسی علمی تصانیف آپ کی تراوش قلم کا نتیجہ ہیں۔ اسلام کا معاشرتی نظام مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔ عورت اسلامی معاشرے میں، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، عورت اور اسلام، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اور اسلام کا عائلی نظام جیسی تصانیف اس کا بہترین ثبوت پیش کرتی ہیں۔ آپ کی کئی کتابیں زیرِ ترتیب تھیں۔ ان کے علاوہ مختلف علمی اور فکری موضوعات پر آپ کے بہ کثرت مقالات ملک اور بیرون ملک کے رسائل اور مجلات میں شائع ہو چکے ہیں۔ مولانا کی متعددتصانیف کے تراجم عربی، انگریزی، ترکی، ہندی، ملیالم، کنڑ، تلگو، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ اور تمل وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں۔