سپریم کورٹ کا وزیراعظم پاکستان کی گرفتاری کا حکم

02:52PM Tue 15 Jan, 2013

عدالت کا کہنا ہے کہ اگر ان میں سے کوئی بھی شخص بیرون ملک فرار ہوا تو اُس کی تمام تر ذمہ داری قومی احتساب بیورو کے 120918154825_raja_pervez_a_304چیئرمین پر عائد ہوگی۔ یہ حکم ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ملک کی سیاسی صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری اسلام آباد میں ہزاروں افراد کے ہمراہ اسمبلیوں کی تحلیل کا مطالبہ کرتے ہوئے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ عدالت نے سماعت کے دوران نیب کے پراسیکیوٹر جنرل سے استفسار کیا کہ اس مقدمے میں ابھی تک ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ عدالتی فیصلے کو آئے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابھی تک تو اس مقدمے کا ریفرنس بھی احتساب عدالتوں میں نہیں بجھوایا گیا تو ملزمان کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کے تفتیشی افسر محمد اصغر نے جب اس مقدمے کی تفتیش میں جب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بطور ملزم نامزد کیا تو اُس کا تبادلہ کردیا گیا اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کا نام بھی استعمال کیا گیا کہ عدالت تفتیشی افسر کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو کے ترجمان نے گزشتہ برس جون میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف رینٹل پاور کے مقدمے میں’ نامزد ملزم‘ نہیں ہیں اور نیب ایک مرتبہ راجہ پرویز اشرف سے تحقیق کر چکی ہے اور اگر مناسب سمجھا گیا تو اُنہیں دوبارہ بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے تیس مارچ دو ہزار بارہ کو کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے کے فیصلے میں تمام بجلی گھروں کے معاہدوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان معاہدوں فوری طور پر منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ معاہدے کرنے والے افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ فیصلے میں عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ سابق وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف اور سیکریڑی خزانہ سمیت تمام حکومتی اہلکاروں نے بادی النظر میں آئین کے تحت شفافیت کے اصول کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا ان افراد کی طرف سے بدعنوانی اور رشوت ستانی میں ملوث ہوکر مالی فائدہ حاصل کرنے کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی معاملے میں سپریم کورٹ کے حکم پر پانی و بجلی کے دو سابق وفاقی وزراء لیاقت جتوئی اور راجہ پرویز اشرف اور سابق وزیرِ خزانہ شوکت ترین سمیت انیس افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیے گئے تھے۔