سید عبد الرحمن باطن۔۔۔بھٹکل میں تعلیم وتربیت کےمیدان میں ایک سنہرے دور کا اختتام (01 )
02:30PM Sat 1 Jul, 2023
تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)
بھٹکل اور اطراف کی موجودہ معاشرتی زندگی پر ہم جب نظر ڈالتے ہیں تو اس میں تعلیمی و معاشی اور سماجی ترقی کے آثار نمایاں دکھائی پڑتے ہیں ، جس کے طفیل خوشحالی اور کشادگی نمایاں طور پرمحسوس ہوتی ہے،لیکن ان نعمتوں کے ساتھ کبھی ہمیں یہ سوچنے کی مہلت ملتی ہے کہ زرا سوچیں کہ زیادہ دور نہیں کوئی تیس پینتیس سال قبل ہمارے معاشرے کا کیا حال تھا؟۔اور یہ کہ ان میدانوں میں ہماری قوم نے ترقی کیوں کر کی ؟ کیا معاشرہ پہلے سے ایسا ہی ترقی اور تعلیم سے مزین تھا،اور اگر حالات بدلے ہیں، تو پھر کیوں کر بدلے؟ اس کے لئے کن کن مجاہدوں کی قربانیاں کام آئی ہیں؟ قوم کے ہمارے جو مجاہدین گمنامی کی تاریکی میں کھوگئے ، ہمارے وہ محسن کون کون تھے؟
احسان کرنے والوں کا جب ذکر ہو تو اپنے والدین کا ذکر پہلے آنا ایک قدرتی سی بات ہے، لیکن ہماری زندگی میں افراد سازی اور کردار سازی میں بعض ایسے محسنین کے کردار کو شامل کرنا ضروری ہوجاتا ہے، جن کا احسان کبھی والدین سے بھی بڑھ جاتا ہے، یہ شخصیات نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے وہ وہ ذمہ داریاں نبھاتی ہیں جو ذمہ داریاں والدین سے نبھ نہیں پاتیں،ایسے محسنین میں سر فہرست ان اساتذہ کرام کا نام آتا ہے، جنہوں نے نئی نسلوں کی سمت درست کرنے اور انہیں سدھارنے اور مستقبل میں معاشرے کے لئے مفید بنانے کے لئے اپنا خون جلایا، اپنی توانائیوں او رعمروں کا نذرانہ پیش کیا۔
جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں ہمارے ایک مہتمم ہوا کرتے تھے مولانا شہباز اصلاحی علیہ الرحمۃ، سہ ماہی اور ششماہی امتحانات کے بعد وہ اساتذہ کو لے کر بیٹھتے تھے، اور ان کا محاسبہ کرتے اور ان کی رہنمائی کرتے تھے، ان مجالس میں وہ فرماتے تھے نسلوں کو سدھارنے کی ذمہ داری والدین سے زیادہ اساتذہ پر عائد ہوتی ہے، والدین نے بھروسہ کرکے اپنے نونہالوں کو آپ کے پاس بھیجا ہے، اگر وہ خود اپنے بچوں کو پڑھا سکتے، ان کی تربیت کرسکتے تو اپنے جگر گوشوں کو آپ کے پاس کیوں بھیجتے؟، انہوں نے آپ پر جو بھروسہ کیا ہے، اس بھروسے کی لاج رکھنا آپ کا فرض ہے، اساتذہ اپنی ذمہ داری والدین پر ڈال کر اپنے فرض منصبی سے سبکدوش نہیں ہوسکتے ۔ لیکن کتنے اساتذہ ہیں جو اپنے اس فرض منصبی کو جانتے اور پہچانتے ہیں؟، اور کتنے جوان ، والدین اور ذمہ داران قوم ہیں جو قوم اور معاشرے کی ترقی وبہبود میں ان مخلص اساتذہ کے بنیادی کردا ر کو یاد بھی رکھتے ہیں!۔
گزشتہ چند عشروں سے انگریزی میڈیم اسکولوں کا رواج عام ہوگیا ہے، اردو میڈیم اسکولوں کی اب عزت نہیں رہی ہے، اب یہ قلاش اور روزانہ محنت ومزدوری کرنے والوں کے بچوں کے لئے رہ گئے ہیں، اب تعلیم کا مقصد قوم کی خدمت نہیں رہا ہے، بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف کھانا کمانا، اور اعلی تنخواہوں پر ملازمت کرنا رہ گیا ہے، اوراسے پروفیشنل ایجوکیشن کا نام دیا گیا ہے، لیکن جب تعلیم کا مقصد خوشحال زندگی کے ساتھ قوم کی خدمت کا جذبہ بھی پیدا کرنا ہوتا تھا، تب اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم بڑی معزز سمجھی جاتی تھی، تقسیم ہند کے بیس سال بعد بھی جب کہ بھٹکل کی آبادی سولہ سترہ ہزار ہوا کرتی تھی، یہاں ایک درجن سے زیادہ اردو میڈیم سرکاری اسکول ہوا کرتے تھے، جن میں انجمن اسلامیہ اینگلو اردو اسکول قوم کے سر کا تاج ہوا کرتا تھا، یہ خادمان قوم پیدا کرنے والا کارخانہ شمار جاتا تھا، اس میں تعلیم پانے والے نونہالان قوم اپنا سر اٹھا کر بڑے فخر سے چلا کرتے تھے،اور انہیں اس کا حق حاصل تھا،، انجمن اسلامیہ اسکول کا جو شاندار ماضی رہا ہے، اور خوشحال اور نامور گھرانوں نے اس اسکول میں اپنے بچوں کو بھیجنے میں جس طرح عزت اور وقار سمجھا ہے، آج کے ماحول میں اسے قرار واقعی سمجھنا محال ہے، اس اسکول کے سنہرے دور میں اساتذہ کی جس نسل نے خون جگر سے اسے سینچا، اور اس کے گیسو سنوارے، اس نسل کے آخری مربی اور استاد نے گزشتہ رمضان المبارک کی چھبیسویں تاریخ (۲۶ رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۷ اپریل ۲۰۲۳ء) کا سورج ڈھلنے اور ستائیسویں شب کے شروع ہونے سے تھوڑی ہی دیر پہلے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ یہ تھے جناب یس یم سید عبد الرحمن صاحب جو اپنے تخلص کی مناسبت سے باطن ماسٹر کے نام سے معروف ومشہور تھے۔ آپ نے اس دنیا میں زندگی کی ( ۸۵) بہاریں دیکھیں۔ آپ نے ۱۹۳۸ء میں جامعہ محلہ میں مکتب جامعہ سے ملحق باطن منزل میں آنکھ کھولی تھی، آپ کے والد کانام
سید احمد ، اور آپ کا تعلق بھٹکل کے مشہور سادات خاندان سید محی الدینا سے تھا۔ اسی مکان میں بھٹکل کے ایک اور استاد اور مربی سیدحسین شبیر یس یم مرحوم کی بھی ولادت ہوئی تھی۔
ابتدائی قاعدہ اور قرآن کے بعد آپ کا داخلہ بھٹکل کے گورنمنٹ اردو پرائمری بورڈ اسکول میں کیا گیا، بھٹکل کا یہ تاریخی اسکول جس نے بھٹکل کی کئی نسلوں کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا، شہربھٹکل کے قلب میں عائشہ پلازا سے ملحق بڑے احاطے میں واقع تھا، اسی احاطے میں انجمن ہائی اسکول کی بنا بھی پڑی تھی، اور یہیں پر مشہور زمانہ مصبا ہال، اور مولانا ہال ہوا کرتے تھے، مولانا ہال اپنے وقت میں پورے کارورا ضلع میں سب سے بڑا ہال مانا جاتا تھا، اس ہال میں ۱۹۶۴ء میں جناب عبد القادر حافظکا مرحوم کے زیر قیادت دریائے شراوتی تا گنگولی میں بسنے والے مسلمانوں کی تعمیری کانفرنس، اور جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا اجلاس اول جیسے یادگار اور تاریخی اجلاس اور کانفرنسیں منعقد ہوئی تھیں، یہیں پرائمری اسکول کے احاطے میں ۱۹۶۷ء میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی علیہ الرحمۃ اللہ علیہ کی پہلی آمد کے موقعہ پر جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا عظیم الشان اجلاس بھی منعقد ہوا تھا، اور یہیں ایک کمرے میں محسن قوم حضرت مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ درس قرآن سے جامعہ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا تھا۔ قوم کا یہ تاریخی ورثہ اب کھنڈر میں بدل ہوچکا ہے، اور نئی نسل اس کی قدر وقیمت سے ننابلد چلی آرہی ہے۔
مرحوم باطن صاحب نے اسی بورڈ اسکول میں چوتھی تک پرائمری تعلیم ختم کی، اور یہیں انجمن اینگلو اردو ہائی اسکول کی چوتھی جماعت میں داخلہ لیا،میٹرک تک پہنچتے پہنچتے آپ کی سانسیں پھولنے لگیں، انگریزی زبان مشکل لگنے لگی اور منگلور جاکر پیسہ کمانے کی فکر دامنگیر ہوگئی، اس وقت قوم کے ایک رہنما سید عمر برماور مرحوم نے آپ کی رہنمائی کی اور تعلیم سے جڑے رہنے پر آمادہ کیا۔ ۱۹۵۸ء میں آپ نے ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا، اس میٹرک گروپ میں جناب سائب دامدا۔مسعود کوٹیشور، نذیر ہگلواڑی، جمشید ماسٹر، عثمان رکن الدین محمد باپو، محی الدین ناخوا انور شابندری، عبد الرحمن باشا دامودی، محمد جعفر علی اکبرا،محمد زبیر کاک محی الدینا، محمد میر اں محتشم،محمد صبغت اللہ رکن الدین محمد باپو، محمد جعفر دامودی، عبد الرحمن محتشم جان، سید محمد پیرزادے، سید باشا، خواجہ جوباپو، عبد الرحمن محتشم جان، عبد العلیم قاضی صاحبان شامل تھے، اس میں سے زیادہ تر افراد اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، اللہ تادیر سلامت رکھے آخر الذکر تین حضرات بقید حیات ہیں، ممکن ہے چند اور حضرات بھی بقید حیات ہوں، جن کا ہمیں علم نہ ہو۔
انجمن میں آپ کی تعلیم وتربیت کے لئے بہترین اساتذہ کی ٹیم میسر آئی تھی جو اخلاص، قومی درد اور صلاحیت سے معمور تھی، آپ کے اساتذہ میں شاہجہاں ماسٹر، عبد اللطیف ماسٹر،اور اسماعیل ماسٹر تھے، ان کے علاوہ شاہ الحمید کوٹیشور ،محی الدین وڑاپا کوٹیشور اور محی الدین مومن ماسٹر تھے یہ تینوں انجمن کی پہلی میٹرک بیچ ۱۹۴۲ء میں شامل تھے، عبد الواسع عصری بھی تھے جو علاقے کی قدیم تاریخ کے ماہر تھے، ان میں سے مقامی اساتذہ خصوصیت سے طلبہ پر بڑے مہربان تھے اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے، مختلف وجوہات سےفیل ہوکر تعلیم چھوڑنے والے طلبہ کی انہیں بہت فکر رہتی تھی، اور ان طلبہ کے گھر وں میں معاشی طور پر ناگفتہ حالات کا انہیں خیال رہتا تھا، عبدالکریم قاضی مرحوم اپنی دین داری میں نمایاں تھے، ۱۹۵۹ء میں جب آپ کے مکان کے پڑوس میں صدیق مسجد نہیں بنی تھی ،انہیں اس سے بھی بہت پہلے بھٹکل کی سلطانی مسجد میں اعتکاف کی سنت زندہ کرنے کا شرف انہیں حاصل تھا، درجہ میں داخل ہونے پر آپ کی پہلی آواز آتی، بے نمازیو کھڑے ہوجاؤ، سر پر ٹوپی ، لباس وغیرہ کا آپ بہت خیال رکھتے تھے۔ ابوبکر غنی کا حساب اور سائنس سکھانے کا ایک فطری انداز تھا، ڈرل اور نظم وضبط میں اپنی ایک شناخت تھی، سید حسین شبیر ماسٹر نے جامعہ ملیہ سے تعلیم پائی تھی، وہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے شاگردوں میں تھے، قائدین قوم کی قربانیوں سے وہ نہ صرف واقف تھے، بلکہ اپنے زیرتربیت بچوں میں بھی یہ روح پھونک دینے کی فکر میں لگے رہتے تھے، آپ قومی تاریخ کے عظیم جانکار تھے، قوم کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے آپ نے سرکاری نوکری قربان کی تھی،مولانا محمود خیال ایک چوٹی کے عالم دین ، اور اردو زبان کے ادیب تھے، بھٹکل میں اردو زبان وادب کے فروغ میں آپ کا بڑا حصہ ہے، ۱۹۶۰ء میں پہلا اردو مشاعرہ آپ ہی کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا، ذمہ داران قوم حاجی حسن شابندری اور شمس الدین باشا پٹیل وغیرہ سے آپ کے گہرے تعلقات تھے، انجمن کی سالانہ رپورٹیں عموما آپ ہی کے قلم کی مرہون منت ہوا کرتی تھیں۔ (جاری )