’روس بشار الاسد پر دباؤ نہیں ڈالے گا‘
07:36AM Sun 10 Mar, 2013
روس نے کہا ہے کہ اس بات کا قطعاً کوئی امکان نہیں کہ ماسکو شام کےصدر بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنے کا کہے گا۔
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے بی بی سی کو بتایا ان کا ملک ’ریاست کو تبدیل کرنے کے کھیل‘ میں شامل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا ’میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے اس بات کا فیصلہ نہیں کرنا کہ شام کی رہنمائی کون کرے گا؟ یہ شام باشندوں کا کام ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ایسا کوئی امکان ہے کہ روس شام کے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ ہونے کی استدعا کرے تو انھوں نے کہا ’قطعاً نہیں۔‘
روسی وزیر خارجہ سرگئی لووروف
سرگئی لاوروف کا کہنا تھا ’ہم ریاست کو تبدیل کرنے کے کھیل میں شامل نہیں، ہم شام کے داخلی تنازعات میں مداخلت کے خلاف ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ شام کے صدر بشار الاسد کا کسی بھی صورت میں مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا برطانیہ اور روس کا شام کے مسئلے پر کوئی مشترکہ معاملا ہے تو انھوں نے کہا ’میں نہیں سمجھتا ہے کہ برطانیہ اور روس کے مابین شام کے حتمی ہدف کے سلسلے میں کوئی معاملا ہے‘۔
انہوں نے کہا ہم شام کو متحد اور جمہوری ملک دیکھنا چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ شامی باشندوں کو ان کی مرضی کے مطابق اپنا نمائندہ منتخب کرنے کی آزادی حاصل ہو اور شام کا بحران شروع ہونے سے اب تک روس کی یہی پوزیشن رہی ہے۔
خیال رہے کہ روس کے وزیرِ خارجہ آیندہ ہفتے لندن جائیں گے جہاں وہ اپنے برطانوی ہم منصب سے مذاکرات کریں گے۔
دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ شام کا بحران ان مذاکرات میں سہرِ فہرست ہو گا۔
روس روایتی طور پر شامی حکومت کا قریبی حلیف رہا ہے اور وہ شام کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف دو سال پہلے شروع ہونے والی بغاوت میں اب تک 70,000 افراد مارے جا چکے ہیں۔
قوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں جاری تنازعے میں اب تک دس لاکھ شامی بیرون ملک نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ 25 لاکھ اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
BBC URDU