سچی باتیں۔۔۔جنگ کی اخلاقیات۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
11:04AM Sun 25 Dec, 2022
(مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )
1931-05-22
عیسوی کی ساتویں اور ہجری کی پہلی صدی ہے۔ عرب کا اُمّی پیغمبرؐ ، پیام سُناکر، رفیقِ اعلیٰ کے پاس واپس جاچکاہے، لیکن اُس کے جمال کے دیکھنے والے موجود ہیں۔ اس جماعت کا ایک محبوب ومکرم سردارؓ، باغیوں اور مفسدوں کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر روانہ کرتاہے، روانگی کے وقت لشکر اور امیر لشکر کے سامنے ذیل کی تقریر ارشاد فرماتاہے:-
’’لوگو، کھڑے ہوجاؤ،میں تمہیں دس احکام دیتاہوں، اُنھیں میری جانب سے اچھی طرح یاد رکھنا۔ (۱) خیانت نہ کرنا۔ (۲) دھوکا نہ دینا۔ (۳) سردار کی نافرمانی نہ کرنا۔ (۴) کسی شخص کے اعضاء نہ کاٹنا۔ (۵) کسی بچہ، بوڑھے، یا عورت کو قتل نہ کرنا۔ (۶) کھجور یاکسی میوہ دار درخٹ کو نہ کاٹنا نہ جَلانا۔ (۷) بکری، گائے، یا اونٹ کو، بجز ضرورت غذا کے نہ مارنا۔ (۸) جولوگ عبادت گاہوں میں بیٹھ کر گوشہ گیر ہوگئے ہیں، جب وہ ملیں تو اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑدینا……‘‘۔
چند روز کے بعد اسی قوم سے، اور اُس زمانہ کی سب سی زیادہ ’’مہذب وشائستہ ‘‘ قوم، رُوم کے فرنگیوں سے مقابلہ ہوتاہے۔ رومی فرنگیوں کا ایک جاسوس ، اِس ’’بے علم اور اجڈ‘‘ قوم کے لشکر میں آتاہے، ایک دن ایک رات رہ کر حالات کی ٹٹول کرتاہے، اور اس کے بعد جاکر خبر دیتاہے، کہ
’’وہ لوگ، رات میں دیکھو تو درویش شب زندہ دار ہیں، اور دن میں دیکھو، تو معرکۂ جنگ کے شہسوار ۔ حق پرستی وعدل گستری کا یہ عالم ہے، کہ اُن کے بادشاہ کا بیٹا بھی اگر چوری کرے، تو اُس کا ہاتھ کاٹ دیاجائے، اور زناکاری کرے تو سنگسار کردیاجائے‘‘۔
بیسویں صدی عیسوی اور چودہویں صدی ہجری میں، ایک ہولناک وعظیم الشان جنگ، فرنگستان کی مہذب وشائستہ ، صاحبِ علم ومتمدن اقوام کے درمیان برپا ہوتی ہے، برطانیہؔ کے ایک بریگیڈیر جنرل، اپنے لشکر کے نوآموز سپاہیوں کے سامنے تقریر فرماتے ہیں، کہ
’’اب اپنی شرافت اور انسانیت کو بھُلادو۔ اپنے دل کو فولاد بنالو۔ او رمَوت وزندگی کی طرف سے بے پروا ہوجاؤ۔ یہ جنگ ہے جنگ!ـ‘‘
’’وعظ‘‘ یہ تھا، ’’عمل‘‘ کا نمونہ اسی ممتاز فوجی افسر کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:-
’’نوجوانوں سے یہ توقع رکھناہی، کہ وہ برطانیہ کی خندقوں کی بھی حفاظت کریں گے، اورساتھ ہی اپنی عفت کو بھی محفوظ رکھیں گے، سرے سے عبث ہے۔ جو کوئی یہ اُمید رکھتاہے، کہ وہ جنگ کو بغیر شراب وشباب کے جاری رکھ سکے گا، وہ بس احمقوں کی جنت میں رہ رہاہے‘‘!۔
اللہ اکبر! ایک ’’جہاد‘‘ ہمارا تھا، کہ دشمن تک کے حقوق بندھے ہوئے، جانوروں تک کو بلاوجہ اذیت دینا ممنوع، درختوں تک کا کاٹنا اور جَلانا ناجائز اور سارا لشکر پاکبازی وپارسائی کی تصویر! اور ایک ’’جنگ‘‘ ان کی ہے، کہ شراب نوشی اور حرام کا بازار گرم، اس پر فخر وناز، اور ہرشقاوت وقساوت کے جواز کے لئے یہ دلیل موجود، کہ جنگ تو بہرحال جنگ ہی ہے!……دونوں نقشے آپ کے سامنے ہیں، دونوں راستے آپ کے لئے کھُلے ہوئے ہیں، اور انتخاب آپ کے ہاتھ میں ہے!۔