سچی باتیں (۱۳؍نومبر ۱۹۳۱ء)۔۔۔۔دیوبند، ندوہ اور علی گڑھ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

05:58PM Sun 2 Apr, 2023

اکبرؔ علیہ الرحمہ کے یہ دوشعر اگر اب تک آپ نے نہ سُنے ہوں، تو اب ملاحظہ ہوں، ممکن ہے ، آپ ہنس پڑیں، ممکن ہے جبیں پُرشکن ہوجائے۔ بہرصورت شعر ہیں سننے کے قابل   ؎

ہے دلِ روشن مثالِ دیوبند

اور ندوہ ہے زبانِ ہوشمند

ہاں علی گڑھ کی بھی تم تشبیہ لو

اِک معزز پیٹ بس اس کو کہو

’’پیٹ‘‘ کی تشبیہ کو کہیں گالی نہ سمجھ لیجئے گا۔ پیٹ کے بغیر زندگی کیونکر ممکن ہے۔ ولی ، شہید، غوث، قطب، آخر سب ہی تو پیٹ رکھتے ہیں۔ فرق صرف اتناہے، کہ پیٹ ان کے لئے ہوتاہے، وہ پیٹ کے لئے نہیں ہوتے۔ پیٹ ’’مقصود‘‘ نہیں ہوتا، بہ طور ایک ضروری آلہ اور ناگزیر واسطہ کے ہوتاہے۔ اور پھر جب اس کی بھی صراحت موجود ہو کہ حقیر وذلیل نہیں، بلکہ معزز قسم کا پیٹ ہے، تو ذم کا کوئی سا بھی پہلو باقی نہیں رہتا۔

دیوبند، ندوہ، اور علی گڑھ یہ تین الفاظ ہیں۔ الفاظ کے چکّر میں نہ پڑ جائیے، معافی کی تلاش کیجئے۔ جو اہم حقیقتیں ان لفظوں کے پیچھے ہیں، نظر اُن پر جمائیے۔ مسلمانوں کے مدرسے اور دار العلوم، اسکول اور کالج، خدا معلوم کتنے ہیں، اور کتنے تھے، حکیم ، ظریف شاعر نے سب جا جائزہ دم بھر میں لے ڈالا، اور جو سرفہرست تھے، اُن کا کچا چٹھا، دودو لفظوں میں پیش کردیا۔ دیوبند ’’دلِ روشن‘‘ ہے ندوہ ’’زبان ہوشمند‘‘ اور علی گڑھ ’’اک معزز پیٹ‘‘ ۔ مگر دیوبند نام اینٹ اور چونے کا نہیں، دیوبند نام ہے ، دُنیا سے بے نیاز ہوکر ، خالصۃً دین کی خدمت میں لگ جانے کا۔ ابو حنیفہؒ وشافعیؒ بننے کا۔ علی گڑھ نام شاندار عمارتوں کا نہیں، علی گڑھ نا م ہے گریجویٹ اور ڈاکٹر، بیرسٹر اور ڈپٹی کلکٹر بننے کا، رایٹ آنرابیل امیرعلی اور جسٹس سید محمودؔ کے پیداہونے کا۔ ندوہ، ان دونوں کے بین بین، عبارت ہے دین ودنیا کے جوڑ ملانے سے۔ رازیؔ اور ابن رشدؔ کے تیار ہونے سے۔ منافات تینوں کے درمیان کچھ بھی نہیں، تینوں ایک دوسرے کے معین ومعاون ، شریک ومشارک ہیں، ایک دوسرے کے مخالف ودشمن نہیں۔

’’دل‘‘ اور وہ ’’روشن‘‘ آپ ہی کا ہے، کسی دوسرے کا نہیں۔ ’’زبان‘‘ ، وہ بھی ’’زبانِ ہوشمند‘‘ آپ ہی کی ہے۔ اسی طرح ’’پیٹ‘‘ اور وہ بھی ’’معزز‘‘ کسی اور کا نہیں، آپ ہی کا ہے۔ کیا کسی کے دل اور زبان اور پیٹ کے درمیان جنگ رہا کرتی ہے؟ یا جنگ رہنی چاہئے؟ پرورش آپ تینوں کی کیجئے، نمود وبالیدگی کے موقعے آپ سب کو دیجئے، صرف تینوں کے فرق مراتب کا لحاظ رکھئے، اور ضرورت اس کی ہے، کہ تینوں کو اپنا سمجھئے ، دل کی روشنی ، زبان کی ہوشمندی، اور پیٹ کا تعزز، سب اُسی وقت تک قائم ہیں، جب تک وہ آپ کے ہیں۔ شاعر نے توہین کسی کی بھی نہیں کی ہے تینوں کے فرائض مُعیّن کرکے سب کے حدود الگ الگ کردکھائے ہیں۔