طالبان کابل میں داخل، اشرف غنی ملک چھوڑ گئے
02:42PM Sun 15 Aug, 2021
کابل: 15 اگست، 2021 (ایجنسی) طالبان جلال آباد اور مزار شریف کو فتح کرنے کے بعد کابل کے مضافات میں داخل ہوگئے جب کہ ترجمان طالبان نے دارالحکومت میں پُرامن طریقے سے داخل ہونے اور عام معافی کا اعلان کیا ہے دوسری جانب صدارتی محل میں اقتدار کی منتقلی اور عبوری حکومت کے قیام پر مذاکرات جاری ہیں جس میں اشرف غنی حکومت چھوڑنے کو تیار ہوگئے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدارتی محل میں جاری مذاکرات کے بعد صدر اشرف غنی اہل خانہ اور ساتھیوں سمیت ملک چھوڑ کر تاجکستان چلے گئے جب کہ عبوری حکومت کے لیے سابق وزیر داخلہ احمد علی جلالی کے نام پر غور کیا جا رہا ہے۔
رائٹرز کی جانب سے صدارتی محل کے حکام سے صدر اشرف غنی کی موجودگی کے بارے میں پوچھے گئے کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ سیکیورٹی رسک کے باعث صدر اشرف غنی کے مقام کے بارے میں نہیں بتاسکتے۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع نے کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور تنازع کے سیاسی حل کے لیے تمام اختیارات سیاسی قیادت کو سونپ کر گئے ہیں۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار مرزاکوال کا مزید کہنا تھا کہ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں طے پایا ہے کہ طالبان کابل پر حملہ نہیں کریں گے جس کے جواب میں کابل حکومت اقتدار عبوری حکومت کو منتقل کردے گی۔ عبوری حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات تاحال جاری ہیں۔
قبل ازیں افغانستان کی وزارت داخلہ نے بتایا تھا کہ طالبان کابل میں تمام اطراف سے داخل ہوگئے۔ سائرن بج رہے ہیں اور چاروں طرف سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جب کہ فضا میں ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں۔
دریں اثناء طالبان کابل کے داخلی دروازوں پر کھڑے ہیں اور اپنے امیر کے احکامات کے منتظر ہیں۔ افغان فوج کی جانب سے مزاحمت نہیں کی گئی اور کابل حکومت بھی مذاکرات پر آمادہ نظر آتی ہے۔ ملا عبدالغنی برادر سمیت اہم طالبان رہنما کابل پہنچ گئے۔
اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق طالبان وفد اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے افغان صدارتی محل میں داخل ہوگئے جہاں طالبان اور کابل میں صدارتی محل کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان نے اقتدار کی پُرامن منتقلی پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب افغان میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ صدارتی محل میں طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات میں کابل پر حملہ نہ کرنے اور اقتدار کی پُرامن منتقلی پر اتفاق کرلیا گیا ہے جس کے تحت عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس کے سربراہ سابق وزیرداخلہ علی احمد الجلالی ہوں گے۔
افغان صدر اشرف غنی کے نائب اورقومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ صدارتی محل میں ہونے والے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ اطلاعات ہیں کہ سابق افغان وزیرداخلہ علی احمد الجلالی کو عبوری حکومت کا سربراہ بنایا جانے کا امکان ہے۔
عالمی میڈیا کے ذرائع کے مطابق طالبان کی خواہش ہے کہ افغان فوج ہتھیار ڈال دے تاکہ خوں ریزی نہ ہو۔ مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کے بعد داخلی دروازوں پر موجود طالبان جنگجوؤں کو دارالحکومت کے مرکز میں داخل ہونے کا حکم دیا جائے گا۔
افغانستان میں ترجمان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ دارالحکومت کو طاقت کے ذریعے فتح کرنے کا منصوبہ نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی سے انتقام لیں گے۔ ہمارے جنگجو کابل کے داخلی دروازوں پر کھڑے ہیں اور پُر امن طریقے سے داخل ہونا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب دوحہ میں طالبان کے ترجمان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کابل میں داخل ہونے والے جنگجوؤں کو تشدد سے گریز کا حکم دیا گیا ہے جب کہ جو بھی مخالف لڑائی کے بجائے امن پر آمادہ ہو انھیں جانے دیا جائے گا اور خواتین سے محفوظ علاقوں میں جانے کی درخواست کی ہے۔
عینی شاہدین نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ دارالحکومت میں طالبان جنگجوؤں کو بہت ہی معمولی مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ کابل یونیورسٹی آج صبح ہی خالی کردی گئی تھی اور تمام طالبات گھروں کو جا چکی ہیں۔ عوام گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔
کابل حکومت نے اس تمام صورت حال پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم صدر اشرف غنی کے چیف آف اسٹاف نے ٹویٹر پر کابل کے لوگوں پر زور دیا ہے کہ براہ کرم فکر نہ کریں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے. کابل کی صورتحال کنٹرول میں ہے تاہم تین افغان حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جنگجو دارالحکومت کے کالکان ، قرا باغ اور پغمان اضلاع میں موجود ہیں۔
دوسری جانب امریکی حکام نے بتایا کہ سفارت کاروں کو سفارت خانہ سے قلعہ بند وزیر اکبر خان میں واقع ہوائی اڈے پر لے جایا جا رہا یے جب کہ مزید امریکی فوجی انخلاء میں مدد کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔
ادھر برطانوی سفارت کاروں اور برطانوی فوج کے لیے مترجم کا کام انجام دینے والے افغان شہریوں کی منتقلی کا عمل بھی جاری ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن کی ہدایت پر برطانوی فوج ان افراد کو لینے پہنچ گئی ہے۔
واضح رہے کہ طالبان اس سے قبل اہم شہر جلال آباد اور مزار شریف پر قبضہ کر چکے ہیں اور طور خم بارڈر تک کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔ صرف کابل ایسا شہر باقی بچا تھا جہاں طالبان کی عمل داری قائم نہیں ہوسکی تھی۔